اپنی جوانی پی ٹی آئی کو دیتے ہوئے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچنے والے جذباتی شخص نے پوچھا، سوال صرف ایک ہے کہ خانصاحب نے ٹکٹیں دینے کے لئے اصول اور میرٹ کیا طے کیا، ہمیں کہا گیا کہ عمران خان خود انٹرویو کریں گے وہ نہیں ہوئے۔ اس نے کہا کہ بعض ٹکٹوں کے لئے تو دو، دو مرتبہ ادائیگی کرنی پڑی، ٹکٹ دینے والے کو الگ ٹکٹ دلوانے والے کو الگ۔ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی لوگ تھے، وہ توقع لگا رہے تھے کہ میں نے ہمیشہ پارٹیوں کی قیادت سے پی آر کی بجائے سیاسی کارکنوں کے حقوق کی بات کی ہے اور اب بھی کروں گا۔ پرانے، سچے اور اچھے کارکن ٹکٹوں سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ کوئی کسی کی فرنچائز ہے اور کسی کو پارٹی میں شامل ہوتے ہیں ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ خانصاحب کا حکم ہے کہ جو ٹکٹوں پر بات بھی کرے گا وہ پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔
میں اس وقت صرف لاہور کی ٹکٹوں کی بات کروں گا۔ پی پی 144، شاہدرہ سے یاسر گیلانی، پی پی 145، بادامی باغ سے آصف بھنڈر کی ٹکٹ درست ہے مگر ملک زمان نصیب کے نواز لیگ میں جانے کے بعد ملک وقار کی ٹکٹ پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ حمزہ شہباز کا مقابلہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ چئیرمین مارکیٹ کمیٹی والا معاملہ اورا س کے بعد اپنی ہی حکومت کے خلاف عدالت جانا یاد دلا یا جا رہا ہے۔پوچھا جا رہا ہے کہ سلیمان شعیب اور شاہ رخ جمال کا کیا قصور تھا۔ اس علاقے میں کشمیری اور ارائیں بھرے ہوئے ہیں، سلیمان شعیب ارائیوں کا بیٹا اور کشمیریوں کاداماد ہے۔ میں پی پی 147 سے غلا م محی الدین کے سیاسی کارکن ہونے سے انکار نہیں کرتا مگر پارٹی کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ لڑنے مرنے والا خان کا دیوانہ محمد مدنی کدھر گیااور ڈاکٹر خواجہ ندیم بارے کیوں غور نہیں کیا گیا کہ دیوان صاحب تو اس وقت بھی ایم ایل اے ہیں۔ پی پی148، میں عبدالکریم خان کی آئی ٹی کے شعبے میں خدمات سے انکار نہیں مگرچوہدری شہباز جیسے ہمیشہ جیتنے والے امیدوار کے مقابلے ٹکٹ صرف اس لئے مل جائے کہ وہ خانصاحب کے قریب ہیں اوربڑی محنت سے حلقہ بنانے والے حافظ ذیشان رشید کو ٹھینگا دکھا دیا جائے اور چوہدری عاطف ایڈووکیٹ کو بھی لفٹ نہ کروائی جائے۔ کیا یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ انہیں ساتھ ہی بٹھا لیا جاتا، ان کی عزت بچالی جاتی۔ پی پی 149، رنگ روڈ کے ساتھ محمود بوٹی سے چائینہ سکیم والا علاقہ، عباد فاروق بھی شارٹ کٹ کی بہترین مثال ہیں اور مقابلہ خواجہ عمران نذیر سے ہے جس نے ہر حلقے سے جیت کا ریکارڈ بنایا ہو اہے۔ یہاں مقامی ایم این اے کے بیٹے خضر حیات اور مہروسیم جیسے ناموں کو ریجیکٹ کیا گیا جو عمران نذیر کے لئے خوش قسمتی ہوسکتی ہے۔مجھے اس علاقے کے پارٹی کارکنوں نے کہا کہ اگر آپ عباد فاروق بارے جاننا چاہتے ہیں تو بلال گنج میں کسی تاجر سے پوچھ لیں، میں نے ابھی نہیں پوچھا، ہوسکتا ہے کہ بڑی سٹوری ہو۔ پی پی 150، بھسین وغیرہ سے حماد اعوان کا مسترد ہونا المیہ ہے جس نے میاں محمود الرشید کی وزارت میں ساتھ کام کرتے ہوئے یہاں ترقیاتی کاموں کا ڈھیر لگا دیا اور ویسے بھی یہ تین چوتھائی علاقہ اعوانوں کا ہے مگر یہاں سے قیصر بٹ کو ٹکٹ ملی ہے جنہیں پرویز الٰہی کے دور میں خود غلام محمود ڈوگر نے بھی مطلوب قرار دیا تھاشائدسوچا گیا ہے کہ سہیل شوکت بٹ یا غلام حبیب اعوان کا مقابلہ یہی کرسکتا ہے مگرکیا یہ پی ٹی آئی کا چہرہ ہے، یہ سوال الگ ہے۔پی پی151، جی ٹی روڈ والی سائیڈ پر ٹکٹ حافظ منصب اعوان کو ملا ہے جو پورے مشکل دور میں غائب رہے اور حلقے سے کوئی تعلق نہیں، کسی سوسائٹی کے فراڈ کی بات بھی زور شور سے کی جا رہی ہے اور مسترد حافظ عبیدالرحمان ہوئے ہیں جنہوں نے پارٹی کے لئے امریکی شہریت تک چھوڑ دی اور دو سال سے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ پی پی 152 سے ناصر سلمان کو ٹکٹ ملا ہے یہاں بندہ ٹھیک مگر علاقہ غلط ہے کہ وہ پی پی155 میں تیاری کرتے رہے جبکہ یہ علاقہ میاں محمد افتخار کا ہے اور اگر آپ لاہور کے ٹاپ ٹین پی ٹی آئی ورکرز کی لسٹ بنائیں تو پہلے پانچ ناموں میں میاں صاحب ملیں گے، وہ لاہور کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔اس سے آگے سعید سدھو کی ٹکٹ والا معاملہ بھی عجیب وغریب ہے۔ انہیں حسان نیازی نے پارٹی میں شامل کروایا ہے جبکہ چودھری یوسف لدھڑ جو کہ ٹاون کے صدر بھی رہے، شہباز شریف کا مقابلہ کیا مگرایک ایسے شخص پر انہیں ترجیح دی گئی ہے جو نوا ز لیگ سے آیااور اس کا سہیل شوکت بٹ سے ذاتی معاملہ تھا، بھانجے کا آپس کی لڑائی میں قتل ہوا جبکہ واقفان حال کے مطابق گولی بھی اپنے ہی لوگوں کی لگی یعنی نہ پارٹی کے لئے کام اور نہ ہی نظریہ۔ پی پی154 میں بابے گُلے کے بیٹے علی عباس گُلا کو ٹکٹ ملنا زمینی حقائق پر درست بھی ہوسکتا ہے کہ مقابلہ کوُمے قصائی کے تگڑے گھر سے ہے مگر محمد علی خان سے ہونے والی زیادتی کو آپ کیسے درست کہہ سکتے ہیں، یہ بھی جولائی میں ہی پارٹی میں آیا اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے ہمایوں اختر خان کو خوش کیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ محمد علی خان کے علاوہ عامر خلیل کو ذلیل کیوں کیا گیا۔ کیا لاہور کا کوئی کارکن ان دونوں کے کام اور قربانیوں سے انکار کر سکتا ہے، ہرگز نہیں۔
پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز نے اپنے لئے ایک آسان حلقے کا چناو کیا ہے یعنی پی پی 155مگر یہاں دو ایشوز ہیں کہ کام تویہاں ناصر سلمان نے کیا تھا اور میجر جاوید ضمیر اور عاصم شوکت کا حلقہ ہے۔ اسے وزیراعلیٰ کا حلقہ بھی کہا جاتا رہا کہ اس حماد اظہر اور عمر چیمہ جیسے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بھی نظریں جمائے بیٹھے تھے مگر یہاں بھی معاملہ دلچسپ ہے کہ مقابلے میں مسلم لیگ نون میاں اطہر کو لا رہی ہے جسے چھوٹا ملک ریاض کہا جاتا ہے، متبادل میں سویرا سٹور والے علی مردان زیدی بھی ہیں جبکہ شیخ امتیاز اس حلقے کا ’سٹف‘ ہی نہیں ہیں۔ ڈی ایچ اے اور کینٹ کے دونوں مشہور و معروف حلقوں، پہلے پی پی156 میں علی امتیاز کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو جنرل ریٹائرڈ امتیاز وڑائچ کے صاحبزادے ہیں مگر یہاں جس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے وہ فواد رسول بھلر ہے جس کا نام گرفتاری دینے والے پہلی چند لوگوں کی فہرست میں شامل تھا اور دوسرے حلقے میں ٹکٹ حافظ فرحت عباس کو ملا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اعجاز چوہدری اور حافظ فرحت عباس ہی تمام فیصلے کرواتے رہے مگر اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگر اعجاز چوہدری ہی تمام فیصلے کروا رہے تھے تو انہوں نے اپنے بیٹے علی اعجاز چوہدری کو ٹکٹ کیوں نہ دلوائی۔
اس حلقے کی اہم بات یہ ہے کہ یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر بلال اسلم بھٹی، نواز لیگ کے میاں نصیر سے صرف دو ہزار کے لگ بھگ ووٹوں سے ہارے تھے اور اب تک پارٹی کے لئے جان و مال سے اس طرح حاضر ہیں کہ ابھی حال ہی میں زمان پارک مین تمام صفیں بلال اسلم نے ہی خرید کر فراہم کی ہیں۔ (ابھی حلقے بھی باقی ہیں اور بہت سارے سوالوں کے جواب بھی، لہٰذا الیکشن ہوں یا نہ ہوں، تحریک انصاف کے کارکنوں سے انصاف کی کہانی ابھی جاری ہے)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.