ریلیف پیکیج صرف جرائم پیشہ افراد کے لیے کیوں؟

34

عید الفطرکے موقع پر جب لوگ اپنے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ خوشیاں منانے میں مصروف تھے اس وقت ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف صاحب لاہور کی سینٹرل (کوٹ لکھپت) جیل میں قیدیوں کے ساتھ وقت گزار رہے تھے اور متعلقہ حکام کو جیلوں کے معاملات میں بہتری لانے کی ہدایات دے رہے تھے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم صاحب نے گزشتہ عید کے موقع پر بھی کچھ وقت کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ساتھ گزارا تھا اور جیلوں کے معاملات میں بہتری لانے کی ہدایات بھی دی تھیں لیکن جانے کیوں ایک زبردست ایڈمنسٹریٹر تصور کیے جانے والے وزیر اعظم کی ہدایات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور ان پر کسی بھی طور عملدرآمد نہ ہو سکا۔ بہر کیف قیدیوں کو سہولیات اور جیل سٹاف کو مراعات کے حوالہ سے ایک مرتبہ پھر سے ہدایات جاری کی گئی ہیں اور دو ہفتے کے اندر ان پر عملدرآمد کا حکم بھی صادر فرمادیا گیا ہے۔ اب۔’دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ‘۔
وزیر اعظم صاحب کی جانب سے عید کے اس پرمسرت موقع پر اپنے برے وقت کو یاد رکھتے ہوئے جیل کا دورہ کرنا یقینا ایک خوش آئند قدم ہے اور اس کی تعریف بھی کی جانی چاہیے لیکن میرا مشورہ ہے کہ شہباز شریف صاحب اپنے اس قسم کے دوروں کے دوران کم از کم دو باتوں کا خیال ضرور رکھا کریں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بطور وزیر اعظم وہ جو اعلان کریں اس پر عملدآمد کو سو فیصد یقینی بنایا جانا چاہیے۔
دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ، بطور سربراہ مملکت اگرچہ یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے دوروں کے دوران ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری ملازمین کے لیے مراعات وغیرہ کا اعلان کریں لیکن انہیں اس بات کا بھی خیال اور احساس ہونا چاہیے کہ جس پیسے سے وہ کسی پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں وہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ میرا اور میرے جیسے دوسرے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کا ہے اور اس کا استعمال اس طرح ہونا چاہیے کہ ہمیں اس پر اعتراض نہ ہو۔
موجودہ صورتحال میں کم از کم مجھے تو شدید قسم کا اعتراض ہو گا اگر میر ے ٹیکس کے پیسے جرائم پیشہ افراد کو پالنے یا انہیں سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیے جائیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ کم از کم صاحب حیثیت قیدیوں اور حوالاتیوں سے نہ صرف ان کا خرچہ وصول کیا جائے بلکہ نظام کو چلانے اور اس میں بہتری لانے کے لیے اٹھنے والے اخراجات بھی انہیں کے ذمہ ہونے چاہئیں۔
وزیر اعظم صاحب اپنے اپوزیشن کے دور میں مختلف جیلوں کے مہمان رہے ہیں شائد اسی لیے انہیں یہاں موجود قیدیوں اور حوالاتیوں اور ان کے اہل خانہ کی تکالیف اور مشکلات کا احسا س ہے۔ لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جیلوں میں موجود زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کا تعلق جرم کی دنیا سے ہے اور وہ ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان حالات کا شکار ہیں۔ انہیں کوئی زبردستی پکڑ کر یہاں نہیں لایا۔ یہاں موجود افراد میں بہت زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو پیشہ ور مجرم ہیں اور اور بار بارجرم کرتے ہیں اور جیل بھیجے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی نتائج سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود جرم کرنے کا مرتکب ہو تو کیا اس کے باوجود اسے کسی قسم کی رعائت ملنی چاہیے؟ اس کا جواب تو یقینی طور پر نفی میں ہو گا،لیکن افسوس ہمارے ہاں تو قیدیوں کو دامادوں والا پروٹوکول مل رہا ہے۔ابھی تو مسٹر عثمان بزدار کی حکومت ختم ہو گئی ورنہ پنجاب کی جیلوں کو ائیر کنڈیشنڈ کرنے کا بھی منصوبہ تھا اور اس سلسلہ میں کافی پیش رفت بھی ہو چکی تھی۔اس وقت بھی قیدیوں کو بہترین کھانا، فلٹرڈ پانی،تعلیم کے مواقع، ملاقات کی سہولیات اور ہر قسم کی سکیورٹی تو دستیاب ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہباز شریف صاحب نے قیدیوں اور حوالاتیوں کے لیے پیکیج کا اعلان کرنے سے پہلے ایک مرتبہ بھی سوچا کہ اگر ان کے اعلان کردہ پیکیج پر من وعن عملدآمد ہو جاتا ہے تووہ طبقہ جو عام زندگی میں بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں وہ تو بہانے بہانے جیل پہنچ جائے گا اور پھر باہر نکلنے کے لیے اپنی ضمانت تک نہیں کرائے گا۔
معلومات کے مطابق وزیر اعظم صاحب نے عید الفطر کے موقع پر جن مراعات اور سہولیات کا اعلان فرمایا ہے ان میں:
(1جیلوں میں کام کرنے والی قالین سازی اور فرنیچر کی صنعت میں بہتری لانا۔
(2 سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے جیلوں میں قیدیوں کی ورزش وغیرہ کے لیے سپورٹس جم کا قیام۔
(3 جیلوں میں انٹرنیٹ لائبریری اور دس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی فراہمی۔
(4 جیلوں میں تفریحی اوقات کے دوران ایل ای ڈی کی فراہمی۔
(5 قیدیوں کو ویڈیو کال کی سہولت
(6 خواتین قیدیوں کی ان کی منشا کے مطابق جیلوں میں ٹرانسفر۔
(7 لاہور شہر کی دو جیلوں میں موجود مریض قیدیوں کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ہسپتال کا قیام۔
(8 جیل پولیس کے عملہ کے لیے تنخواہوں کا پیکیج، گاڑیاں، نقد انعامات اور سول ایوارڈز کے لیے خصوصی ہدایات۔
(9 جیل کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی انتظامات۔
اس کے علاوہ بھی وزیر اعظم صاحب نے کچھ اعلانات فرمائے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احکامات پر عملدرآمد کب اور کتنا ہوتا ہے یا پھر ان اعلانات کو بھی گزشتہ برس کی طرح ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو میرا مشورہ تو یہ ہو گا کہ جیل سٹاف کی تنخواہوں میں اضافہ اور دیگر مراعات کے علاوہ باقی معاملات کو ابھی رہنے ہی دیں۔ کیونکہ صرف جیلوں میں بند جرائم پیشہ افراد ہی کسی پیکیج کے مستحق نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام حکومت کی جانب سے کسی ریلیف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.