سازشی کامیاب نہیں ہوسکتے

82

ایک بات کسی بھی شک و شبے سے بالا ہے جو کچھ ہورہا ہے وہ سب انہی غیر آئینی اور سازشی اقدامات کا منطقی نتیجہ ہے جس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی۔ منصوبہ اشفاق پرویز جنرل کیانی کی قیادت میں بنا عمل درآمد کی ذمہ داریاں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشاکو سونپی گئیں۔ ہدف یہ تھا کہ تمام پرانی سیاسی جماعتوں کو ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے استعمال کرکے اتنی بری طرح گھائل کردیا جائے کہ وہ کوئی فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ یہی اپروچ آزاد عدلیہ کو کٹھ پتلی بنانے اور غیر جانبدار میڈیا کو ختم کرکے اسٹیلشمنٹ کے بھونپو بنانے کے لیے بھی اختیار کی گئی۔ پلاننگ لمبی اور جزئیات طے تھیں اس لیے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے بقول جنرل مشرف اپنی دشمن نمبر ون مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ اس حکومت کو ہر صورت دباؤ میں رکھنا اور بالآخر گرانا مقصود تھا۔ اس لیے پالتو میڈیا کے ذریعے فوری طور پر حملے شروع کردئیے گئے۔ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے نے تو کہرام برپا کردیا۔ اس کا آغاز ہونے سے پہلے ہی 2014 میں دھرنے کرائے گئے۔ حکومت کی رٹ کو بھونڈا مذاق بنا دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کرنے والے چینلوں کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے گھر والوں کی اس حد تک کردار کشی کی گئی کہ کبھی غدار ٹھہرایا، کبھی کرپٹ کہا اور کبھی توہین مذہب جیسا خوفناک الزام لگا کر ان کی زندگیاں ہی خطرے میں ڈال دیں۔ جس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ گندا کھیل کھیلا جارہا تھا اس وقت حکومت اور عوام کو تاثر دیا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی ”بھارت نوازی“ اور جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے پر چند بڑے فوجی افسر ناراض ہیں اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ حکمت اور احتیاط کے ساتھ چلا جائے۔ بعد میں پتہ چلا ساری کارروائیاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مکمل آشیر باد سے کی جارہی تھیں۔ اسی لیے جب انہوں نے مدت ملازمت مکمل ہونے پر توسیع کا مطالبہ کیا تو حکومت خود کو خطرے میں ڈال کر جان چھڑانا زیادہ مناسب سمجھا۔ یہ بیک گراؤنڈ اس لیے پھر سے بیان کرنا ضروری ہے کہ آج کل جنرل قمر جاوید باجوہ لوگوں کو کہتے پھر رہے ہیں فلاں کام میں نے نہیں فلاں جنرل نے کیا تھا۔ بالکل ایسا ہی تھا لیکن جو کوئی بھی ہائبرڈ گیم کا حصہ تھا اسے جنرل باجود کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ 2017 کی بات ہے ابھی نواز حکومت قائم تھی ایک افسر نے جو آج بھی حاضر سروس ہے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بتایا کہ یہ حکومت گھر جائے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے جن ساتھیوں کو نااہل کیا جانا تھا ان کے نام تک بتا دئیے۔اسی ملاقات میں ایک موقع پر کسی حوالے سے اعتزاز احسن کا ذکر آیا تو اس افسر نے اتنے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ لگا بس کوئی تمغہ دینے ہی والے ہیں۔ خود جنرل باجوہ نے بھی اس دوران کھلی ڈلی گفتگو کرتے ہوئے کئی مرتبہ بتایا کہ حکومت کے خلاف فیصلے عدالتوں سے آئیں گے اور عمل درآمد فوج کرائے گی۔ ایسا ہی ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی کمانڈ کے باہر کوئی نہیں جاسکتا۔انسانی نفسیات میں سازش اور لالچ شامل ہے اس
لیے اختلافات تو ہر ادارے میں ہو جاتے ہیں جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مذہب شناخت کے حوالے سے جھوٹے الزامات لگوانے کے مبینہ الزام پر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو استعفا لے کر فوج سے نکال دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے حوالے بھی ایسی ہی شکایات تھیں مگر وہ معافی مانگ کر نہ صرف بچ گئے بلکہ خوب نوازے گئے۔ اب تو یہ بات کوئی راز نہیں کہ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے سے لے کر نومبر 2022 نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے آنے تک جنرل قمر جاوید باجوہ مزید توسیع، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور تین اور افسر سب آرمی چیف بننے کی دوڑ میں تھے۔ اس مدت میں عدلیہ سمیت تمام اداروں کو اس برے طریقے سے استعمال کیا گیا کہ ہر کوئی اپنی بچی کھچی ساکھ بھی کھو بیٹھا۔ عمران خان کے ذریعے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی نے سسٹم اتنا لاچار کر دیا کہ اب زلمیے خلیل زاد سے لے کر قادیانی اور یہودی لابیوں کے نمائندے کھلے عام پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔عمران خان جہاں قیام پذیر ہو جائیں وہ مقام افغانستان کی“ وادی پنجشیر“ بن جاتا ہے جہاں کمانڈر احمد شاہ مسعود اپنی ملیشیا کے ساتھ ہر جنگی دور میں بھی محفوظ رہتے تھے۔ عدالتوں سے ریلیف ملنا تو معمولی بات ہے یہ دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ بعض جج حضرات مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے خود عمران خان کے حق میں دلائل تراش رہے ہوتے ہیں۔ اوپن اینڈ شٹ کیسوں کا مذاق بنایا جارہا ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مکمل غیر جانبداری کی پالیسی نے عدالتوں کو موقع دیا ہے کہ وہ ملک کا سارا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ پاکستان کا معاملہ بنانا رپبلک سے بھی آگے جارہا ہے۔ پوری دنیا میں اداروں کی تضحیک اور ملک کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ یہ بات کسی شک شبے سے بالا ہے کہ سارا بحران عدلیہ کے ذریعے پیدا کیا گیا۔ پیچھے کون ہے ہمیں وثوق سے نہیں معلوم، گھر کے بھیدی فیصل واوڈا نے فیض حمید اور کوئٹہ میں متعین افسر کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدالتی معاملات سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور فیض حمید چلا رہے ہیں۔ میڈیا کا ایک خود ساختہ حصہ جسے آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی نے تخلیق کیا ابھی تک بے لگام ہے اداروں کے خلاف بیرون ملک مہم بھی انہی عناصر کی پشت پناہی سے چل رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت اس گھڑ مس کے دوران ہر شعبے میں بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کب تک غیر جانبدار رہے گی۔ سپریم کورٹ میں سابق سی سی پی او لاہور کا کیس اسی بینچ میں لگتا ہے جس کے متعلق آڈیو پہلے ہی وائرل ہوچکی تھی۔ پھر فیصلہ بھی وہی آتا ہے۔ یہی بینچ چیف جسٹس سے کہتا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات پر ازخود نوٹس لیں۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے تاریخ جاری کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ دونوں اسمبلیاں کیسے ٹوٹیں اس کے بارے میں بینچ میں بیٹھے دوسرے ججوں کے انتہائی اہم نکات کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کرپشن کے معاملات سے متعلق آڈیو، وڈیو سامنے آنے کے باوجود معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاتا بلکہ اسے عدلیہ بھی دباو ڈالنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔یہ کب تک چلے گا کہ کوئی اپنا اور اپنے ہم خیالوں کا احتساب کرنے سے صاف انکار کردے اور خود پورے ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرے۔ بہتر ہوگا کہ عدلیہ بھی باجوہ اور فیض کے دور سے باہر آجائے اور اپنی غلطیوں کی تلافی پر دھیان دے۔ آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کرانے سے معذرت کرتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دے دی ہے۔ کیا ہم اداروں کے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بہر حال ایسا ہوا تو پہلی بار نہیں ہوگا۔ بات تلخ مگر سچ ہے کہ 1947 سے آج تک ہم اس بلوغت کو ہی حاصل نہیں کر پائے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوجائے تو معاملات کو ہموار طریقے سے کیسے چلانا ہے۔ ہر ادارے کو اپنی پڑی ہے۔ آئین کی روح کو مسخ کرکے متشدد رویوں کو فروغ دینے کی ریاستی پالیسی کو ترک کرنا بہتر ہوگا۔ واضح رہے فوج کی اصل طاقت ہی اسکی چین آف کمانڈ ہے، ہر چھوٹا بڑا افسر اور سپاہی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے کوئی بھی اس معاملے پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اس لیے سازشی عناصر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دیگر اداروں سمیت تمام دوسرے سٹیک ہولڈروں کے لیے بھی یہی پیغام ہے۔ ریاست سے سرکشی کا انجام کیا ہوتا ہے؟ اب بتانے کی ضرورت ہے کیا؟

تبصرے بند ہیں.