گزشتہ دو دن میں تین اہم خبریں میڈیا کی زینت بنیں۔ ویسے تو ان تینوں کی اپنی علیحدہ علیحدہ بھی کافی اہمیت ہے لیکن اگر ان کو ملا کر پڑھا جائے تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔
پہلی خبر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے تاریخوں کے کافی ادل بدل کے بعد 25 مارچ کو مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیاہے۔ اگرچہ اس کالم کے تحریر کیے جانے کے وقت تک پی ٹی آئی قیادت اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ ایک پیج پر نہیں تھے لیکن خیر یہ کوئی ایسا بڑا مسلہ بھی نہیں۔ اس قسم کے معاملات عین وقت پر بھی طے ہو جایا کرتے ہیں۔
دوسری خبر کے مطابق پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی صاحب نے سیاسی کارکنوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پولیس پر حملوں اور انہیں زخمی کیے جانے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے مصالحت آمیز اور نرم رویہ ترک کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ اب کسی بھی موقع پر نا تو پولیس کو غیر مسلح کیا جائے گا اور نہ ہی کسی جارحانہ صورتحال میں انہیں بے بسی سے تشدد کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑا جائے گا۔
اور تیسری اور سب سے اہم خبر یہ ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ کے بیان کے اگلے ہی روز الیکشن کمشن آف پاکستان کاایک فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق ماہ اپریل میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے انتخابات اکتوبر تک موخر کر دیے گئے ہیں۔
ویسے تو یہ تینوں خبریں اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں لیکن جب ان کو ملا کر پڑھا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی حالات کس قدر گمبھیر ہونے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب الیکشن سے کم کسی بات پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیارنہیں تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے بجائے قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد پر کچھ لچک دیکھائی جاتی الٹا الیکشن کمشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو بھی موخر کر دیا گیا ہے۔
ممکن ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے عمران خان اور ان کی پارٹی کو پے در پے ریلیف ملنے کے بعد خان صاحب کو یہ یقین ہو کہ اگر پنجاب کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تو عدلیہ کی جانب سے کسی نہ کسی حد تک ریلیف مل جائے گا۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ بھی آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر جاری کیا گیا ہے اور اس میں آئین کی شقوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے دوسرا یہ کہ کچھ عرصہ سے عدلیہ کے کچھ فیصلوں اور بعض معزز ججوں کی شخصیت پرکچھ حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید شائد خان صاحب کی امیدوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔
پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے پولیس کو فری ہینڈ دینے اور پولیس سے ہونے والی کسی بھی قسم کی زیادتی کو برداشت نہ کرنے کے اعلان کو بھی اگر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے حالیہ دنوں میں پولیس پر حملوں، انہیں زخمی کرنے اور ان کی گاڑیاں توڑنے اور جلانے اور پھر متوقع طور پر ایک بڑے جلسہ کے انعقاد کی آڑ میں ہونے والی ہلڑ بازی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف تو پہلے سے ہی صورتحال سے نالاں تھی اوپر سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے ملتوی کیے جانے کا فیصلہ بھی آ گیا اب توان کا سخت ردعمل تو آنا بنتا ہی ہے لیکن انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاسی سرگرمی اور ہلڑ بازی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اب تک تو پولیس نے جس صبر وتحمل سے کام لیا اس کی تعریف تو کی جانی چاہیے لیکن بدقسمتی سے اس صورتحال نے انتشار پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگر اب بھی حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی نہ کرتی تو ایک طرف تو حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ تھا تو دوسری طرف حکومت کی رٹ پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان صاحب اس صورتحال پر کیا کہتے ہیں اور کیا سوچتے اگر یہ کہا جائے کہ خان صاحب خود ہی معاملات کو اس نہج تک لانے کے ذمہ دار ہیں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ انکی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد تو خیر پاس ہو ہی گئی تھی لیکن انہوں نے پہلی غلطی بلکہ حماقت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے فوری طور پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو نے کا اعلان کر کے اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو قومی اسمبلی کے فورم سے علیحدہ کر لیا (یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں اسی قومی اسمبلی میں واپسی اور استعفے قبول نہ کیے جانے کے لیے منت سماجت کرتے رہے)۔ اور اس کے بعد بجائے اس کے کہ قومی اسمبلی سے غلط طور پر مستعفی ہونے کے فیصلہ سے کوئی سبق سیکھتے انہوں نے ایک اور سیاسی بلنڈر کیا اور پنجاب اور خیبرپختونخوا، جہاں ان کی پارٹی کی صوبائی حکومت موجود تھی،کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرا دیں۔
آج یہ جس پولیس ایکشن اور اپنے خلاف درج ہونے والے پے در پے مقدمات سے پریشان ہیں وہ کیونکر ممکن تھا اگر یہاں ان کی صوبائی حکومت قائم ہوتی۔ اس تمام کے باوجود بھی اگر یہ کسی ایک پوائنٹ پر رک کر حالات کا جائزہ لیتے اور اپنی صفیں درست کر کے کسی حکمت عملی اور سیاسی بردباری سے معاملات کو چلانے کی کوشش کرتے تو انہی کی سیاست کے لیے بہتر تھا لیکن یہ تو اپنی تمام تر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے باربار ناکام ہونے کے باوجود اندھا دھند جلسے جلوس، احتجاج اور ریلیاں کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج یہ کوئی بڑا اور طاقتور عوامی شو کرنے کے بھی قابل نہیں۔
عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کو اب بھی چاہیے کہ نگران وزیر اعلیٰ کے بیانات اور پنجاب حکومت کی پالیسی کو بنیاد بنا کر جلسہ کی کال فوراً واپس لیں، اپنی صفوں میں مچی ہوئی کھلبلی پر قابو پائیں اور باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت پرامن سیاسی سرگرمیاں شروع کریں تاکہ ان کی ہی پیدا کردہ ہیجانی کیفیت کو بنیاد بنا کر سیاسی عمل کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.