انتخابات کیوں ضروری ہیں؟

21

عدالت عظمیٰ کے پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات سے متعلق آئینی فیصلے کے بعد میدان سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ حکومت کا پہلے بھی یہ کہنا تھا کہ عام انتخابات چند ماہ بعد ہونے چاہیں تاکہ اسے عوام کی ”خدمت“ کا موقع مل سکے اور وہ دوبارہ اس کے قریب آسکیں کیونکہ اس وقت مہنگائی اور انتظامی کمزوری کی بنا پر وہ سخت ناراض ہیں جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو مل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو تو اس لیے بھی فائدہ پہنچا ہے کہ اسے اقتدار سے الگ ہونے پر لوگوں نے یہ سمجھا کہ اس کو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت گھر بھجوایا گیا اس میں زیادہ قصور واشنگٹن کا ہے لہٰذا وہ اس ”حکومتی تبدیلی“ کو غلط کہتے ہیں اور عمران خان کی حمایت کرتے ہیں پی ٹی آئی انتخابات کروانے کے لئے بے چین ہے جو اب ہونے جا رہے ہیں مگر حکومت کی طرف سے ان کے انعقاد کا کوئی باضابطہ عندیہ نہیں دیا جا رہا ویسے دیکھا جائے تو محترمہ مریم نواز مختلف شہروں میں جلسے کر رہی ہیں جو ظاہر ہے عام نہیں خاص ہیں۔
پی ڈی ایم کی قیادت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی کہ اسے پی ٹی آئی کسی طور بھی شکست دے سکتی ہے جبکہ صورت حال تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ مہنگائی، سرکاری محکموں میں رشوت کی انتہا ، تھانوں اور پٹوار خانوں میں عوام کے ساتھ ہونے والے تکلیف دہ سلوک نے انہیں موجودہ نظام و حکومت سے مایوس کر دیا ہے پھر مختلف مافیاز جو دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں مگر متعلقہ ادارے جن کا کام عوام کے جان و مال کی حفاظت ہوتا ہے اس پہلو سے چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں عوام مگر حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ تمام سویلین ادارے اس کے ماتحت ہیں۔
پی ٹی آئی ایک مقبول سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ اس کی اہم وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے اگر حالات آج سے پانچ چھ برس پہلے ایسے ہوتے تو پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں بیس تیس نشستیں ہی ملنا تھیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں اگر اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ابھی مطلع سیاست پر بادل چھائے ہوئے ہیں ویسے ہماری رائے ہے کہ انتخابات اتفاق رائے سے کروا دیئے جانے چاہیں اور اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آتی بھی ہے توا س معاشی بحران پر کیسے قابو پائے گی؟
ہمارے ایک دوست ہوتے ہیں جاوید خیالوی وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئے گی تو وہ آزادانہ فیصلے کرے گی اس کی پوری توجہ بدعنوانی کے خاتمے پر مرکوز ہو گی احتساب کے عمل کو شفاف بنا کر ملکی سرمایے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے گی۔ ایسے اقدات کرے گی جس سے عام آدمی کو ہر طرح کا ریلیف ملتا ہو۔ اگرچہ اسے آئی ایم ایف کی شرائط پر بھی عمل درآمد کرنا ہو گا مگر وہ ان شرائط کو من و عن نہیں مانے گی اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف کو بھی حکومتی موقف سے انکار ممکن نہیں ہو گا لہٰذا پہلے دو برسوں میں مشکلات کا سامنا ہر کسی کو کرنا ہو گا مگر ازاں بعد صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی۔
جاوید خیالوی کے تجزیے سے جزوی اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو یورپ و مغرب بارے اپنی سوچ بدلنا پڑے گی یعنی عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر رکھنا ہو گی مگر ہو سکتا ہے جب پی ٹی آئی اقتدار میں آتی ہے تو چین اور روس اس سے تعاون کرنے آجائیں اور تیل گیس کے آسان اور سستے معاہدے کر لیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی پروگرام لے آئیں جس سے بند ملیں کارخانے اورفیکٹریاں دوبارہ چلنے لگیں اس طرح آگے چل کر بھی وہ ترقیاتی منصویوں کے لیے پورا تعاون کریں لہٰذا پی ٹی آئی کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں مدد مل جائے مگر یہ قیاس آرائی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کسی صورت بھی عمران خان کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتا لہٰذا وہ انہیں ہرانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے گا عوام ان کے مسائل کی گھمبیرتا روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے ان کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل ہو رہا ہے لہٰذا وہ ہتھیلی پر سرسوں کو جمتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں انہیں کوئی بھی سیاسی جماعت باتوں، نعروں اور دعوو¿ں سے اپنا گرویدہ نہیں بنا سکتی لہٰذا دکھائی یہی دے رہا ہے کہ سیاسی منظرنامہ اب روایتی نہیں غیر روایتی ابھر کر سامنے آئے گا۔
پی ڈی ایم کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اسے اس طرح کی حکومت سے دور رہنا چاہیے تھا کہ جس میں غیر عوامی فیصلے کرنا پڑ رہے ہوں آئے روز آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل در آمد کرتے ہوئے لوگوں پر نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہوں لہٰذا اب عوام موجودہ سیاستدانوں سے سخت بیزار نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں بھوک بیماری اور نا انصافی کی دلدل میں دھکیل دیا یوں سیاسی منظرنامے میں وہ کچھ نہیں ہو گا جو پہلے کبھی ہوتا تھا۔

تبصرے بند ہیں.