آنے والے دنوں بلکہ زمانوں میں 2مارچ 2023کا دن اس حوالے سے یاد گار سمجھا جائے گا کہ اس دن کرنسی مارکیٹ میں اتنا بڑا بھونچال آیا کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت ریکارڈ 300روپے فی ڈالر کی انتہائی حدوں کو چھونے پر آگئی اور انٹر بینک میں ڈالر 21روپے مہنگا ہو کر 285روپے پر جا پہنچا جبکہ اوپن مارکیٹ میں بھی اس کی قیمت میں اسی نسبت سے اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ سونے کی فی تولہ قیمت 9400روپے اور چاندی کی فی تولہ 120روپے مزید بڑھ گئیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی یہ بے قدری یقیناریکارڈ حیثیت رکھتی ہے لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ اسٹیٹ بینک نے بھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر شرح سود میں 3فیصد اضافہ کر دیا ہے اور یہ 20فیصد ہو گئی ہے جو اکتوبر 1996کے بعد ملک میں شرح سود کی بلند ترین سطح ہے۔سٹیٹ بینک نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 300بیسس پوائنٹس بڑھا کر 20فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے چند ماہ میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کے بعد بتدریج اس میں کمی شروع ہوگی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے سٹیٹ بینک کا یہ کہنا ہے کہ یہ نچلی سطح پر ہیں اور بیرونی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے جنوری 2023میں اپنے گزشتہ اجلاس میں مہنگائی کے منظرنامے کو بیرونی اور مالیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش قریب المدت جن خطرات کو اجاگر کیا تھا ان میں سے بیشتر حقیقت بن گئے ہیں اور قومی مہنگائی بلحاظ صارف 31.5%ہو چکی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے اور اس کے لیے مضبوط پالیسی ردعمل اپنانا اس سے بڑھ کر ضروری ہے۔
سٹیٹ بینک کے ا علامیے میں ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں دیگر کئی نکات کا ذکر بھی موجود ہے جن سے ملک کی معاشی ابتری کا واضح اظہار سامنے آتا ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ اس ضمن میں وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی حکومت میں شامل ان کے سابقہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل جنہیں بظاہر اُن کی ناکام معاشی پالیسوں کی بناءپر کابینہ سے غیر مناسب انداز میں فارغ کرکے سینٹر اسحاق ڈار کی بطورِ وزیرِ خزانہ کابینہ میں شمولیت کی راہ ہموار کی گئی تھی
کے خدشات بڑے اہم سمجھے جا سکتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ معیشت کے ساتھ کھلواڑا ہو رہا ہے معاشی پالیسی تو نظر نہیں آ رہی ۔ 2مارچ پاکستان کی تاریخ کا برا دن ہے کہ روپیہ (ڈالر کے مقابلے میں ) 300 تک پہنچ گیا اور شرح سود پالیسی ریٹ 3 فیصد بڑھ کر 20فیصد ہوگیا ۔ اس سے حکومت کی قرضوں کی ادائیگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور پرائیوٹ شعبے پر بھی اس کے بڑے اثرات پڑتے ہیں۔ اُمید ہے کہ یہ مشکل فیصلے کرنے سے آئی ایم ایف سے معاہدہ تو ہو جائے گا تاہم جب ڈالر 240روپے کا تھا اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ نیچے جائے گا تو پھر اس کو مصنوعی طور پر روکنے کی کیا ضرورت تھی؟ موجودہ صورتحال اسی کی بناءپر پیدا ہوئی۔
جناب مفتیٰ اسماعیل بلاشبہ ایک حقیقی ماہر معیشت ہیں۔ ان کے تاثرات اور خدشات ایسے نہیں ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکے۔ ان کے ساتھ وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا ہے ۔جناب اسحاق ڈار نے اپنی ٹویٹ میں سابقہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نیازی معاشی تباہی کے ذمہ دار صرف تم اور تم ہو۔ تم نے پاکستان کو معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا لیکن اللہ سبحان تعالیٰ نے پاکستان کی جان تم سے چھڑا دی ۔تمہاری کی ہوئی تباہی کو ہم ٹھیک کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔قوم کو جلد اچھی خبریں ملیں گی ۔
جناب اسحاق ڈار سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو اس کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ جناب عمران خان نے ملک کے معاشی معاملات کو بھی کھیل تماشے کے انداز میں ایسے چلایا جیسے وہ ملک کے دیگر معاملات چلا رہے تھے۔ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی، خالی خولی کھوکھلے نعرے ، جھوٹے اور بلند بانگ دعوے ، ان کا وطیرہ رہا۔ حکومت سنبھالی تو اسد عمر کو وزیرِ خزانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور نہ ہی کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے لیکن بہت جلد اپنے ان دعوؤں سے پیچھے ہٹ گئے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے ایسی کڑی شرائط بھی قبول کر لیں جن سے ملک کی معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں جہاں آئی ایم ایف کا عمل دخل بڑھا وہاں گیس اور بجلی کے نرخوں میں بھاری اضافوں، سبسڈیز کے خاتمے اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور دیگر ٹیکسز کے نفاذ سے عوام کی مشکلات بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئیں۔ اس کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی قرضے بھی انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئے۔ جناب عمران خان نے ایک اور بڑی زیادتی یہ کی کہ پچھلے سال کے اوائل میں جب ان کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی حکومت کا چل چلاؤ سامنے آنے والا ہے تو انھوں نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی اور گیس کے نرخوں کو ایک سطح پر منجمد کر دیا۔ اس سے ایک طرف آئی ایم ایف ناراض ہوا تو دوسری طرف اُن کے بعد آنے والی میاں شہباز شریف کی حکومت کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ عمران خان کی حکومت کی ناقص معاشی پالیسیاں ، آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر طے کیا گیا معاہدہ اور بعض دوسرے اقدامات موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے ہیں لیکن اس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ موجودہ حکومت معیشت کو سنبھالا دینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ پچھلے اپریل میں میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالی ، مفتاح اسماعیل وزیرِ خزانہ بنے تو ان کا زیادہ دھیان آئی ایم ایف کو راضی کرنے اور آئی ایم ایف کی تعطل کا شکار قرضے کی قسط کو جاری کروانے پر لگا رہا۔ اس کے لیے آئی ایم ایف کی نئی عائد کردہ شرائط بھی قبول کرنا پڑیں ۔ بجٹ میں بھاری ٹیکسوں کا نفاظ ، بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ وغیرہ جہاں سامنے آیا وہاں کمر توڑ مہنگائی مزید بڑھی لیکن ان سب کے باوجود روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر نیچے نہ آ سکی۔ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار وزیرِ خزانہ بنے تو دعویٰ یہ کیا گیا کہ وہ ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ عارضی طور پر کچھ کمی سامنے آئی لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں ڈالر کی قلت اور ڈالر کے انٹرا بینک ریٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بھاری فرق سامنے آنا شروع ہو گیا۔ مجبوراً ڈالر کو آزاد کر دیا گیا ۔ اب جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ ڈالر کہاں پہنچ چکا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.