سیاسی ڈرامے ملک داؤ پر

27

پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو جب جب اپنے اقتدار کے لالے پڑے ہیں، تب تب انہوں نے ’جیل بھرو‘ اور ’سول نافرمانی‘ جیسی تحریکوں کا سہارا لے کر خود کو بچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 22 فروری سے ”جیل بھرو اور خوف کے بت توڑو“ جیسی تحریک کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں بھی دی جارہی ہیں۔
جیل بھرو تحریک کی شروعات قیام پاکستان سے قبل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی نے کی تھی۔ انہوں نے سول نافرمانی اور ”ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک چلا کر اجتماعی گرفتاریوں کا طریقہ متعارف کروایا۔ اس تحریک کے دوران بغیر کسی مقدمے کے تقریباً 60 ہزار گرفتاریاں ہوئیں۔ وہ تحریک تو ناکام ہوگئی، مگر یہ روایت پاکستان کو وراثت میں مل گئی۔ گاندھی پاکستان کو اور تو کچھ نہ دے سکے مگر یہ تحریک تحفے میں دے گئے، جس کا استعمال پاکستانی سیاست دان چھہتر سال سے کرتے آرہے ہیں۔ آئیے پاکستان میں جیل بھرو تحریک کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس سے قبل 8 اکتوبر 2022 کو بھی میانوالی کے جلسے میں پارٹی کارکنوں سے جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، جس کو بعد ازاں بغیر کسی عملدرآمد کے بھلا دیا گیا اور اب ایک بار پھر عمران خان نے اپنی پارٹی کے لوگوں کی گرفتاریوں کے خلاف جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے اور اسے 90 روز میں الیکشن کے اعلان سے مشروط کردیا ہے۔
پاکستان اس وقت قیدیوں سے متعلق دنیا کا اڑتیسواں ملک ہے اور وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف ایک سو سولہ جیلیں ہیں، جن میں اٹھاسی ہزار کے قریب قیدی ہیں، جبکہ کل گنجائش صرف پینسٹھ ہزار ہے۔
یہ تحریکیں صرف عوام میں مقبولیت بڑھانے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کےلئے چلائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر عمران خان اس تحریک میں ناکام ہوجاتے ہیں تو مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟ اور اگر عمران خان اس تحریک میں کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت جو اس سے کس طرح نبرد اآزما ہوگی اور آنے والے دنوں میں کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔
ایک طرف یہ معاملہ آتا ہے تو دوسری جانب مہنگائی کا بے قابو جن جس نے غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔مہنگائی کی صورتحال نے پاکستان کے اندر دہشت ناک منہ کھول رکھا ہے چند برسوں کے اندر اشیاءروزمرہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے آٹاسرکاری ریٹ 64 روپے فی کلو کے حساب سے مرغی کا گوشت 650 روپے کلو اور چاول 320 روپے فی کلو ہیں۔ غریب عوام خون کے آنسو رو رہی ہے۔ ظلم کا لاٹھی چارج دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ایسے میں کوئی غریب آدمی اپنے خاندان کی کفالت کیسے کرے !!! . پاکستان کو بنے 75 سال سے زائد ہو چکے ہیں ہمارے ہمسایہ ممالک دن بدن ترقی کی منزلوں کو چھو رہے ہیں نئی نئی ٹیکنالوجی اور نئی تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور پاکستان کو 75 سال سے مختلف سیاسی ڈرامے دیکھنے کو مل رہے ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ یہ سارا بوجھ بچاری عوام کے کمزور کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے ایک مزدور جب شام کو گھر آتا ہے تو سوچتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کو آج کیا کھلائے کیونکہ سب سے زیادہ متاثر "دیہاڑی” پر کام کرنے والا ہی ہوا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت غریب عوام کی خیر خواہ نہیں ہے۔ خدارا یہ سیاسی ٹورنامنٹ بند کریں وہ گرفتار ہو گیا ۔۔ ۔ ۔ وہ رہا ہو گیا ۔۔۔۔۔ وہ جیت گیا۔۔۔۔وہ ہار گیا۔۔۔فلاں اہل ہو گیا۔۔۔۔ فلاں نااہل ہوگیا۔ ایک غریب آدمی کو صرف دو وقت کی روٹی سے مطلب ہے اور شاید ووٹ بھی یہی سوچ کے ہی ڈالتے ہیں کہ شاید اب ان کے بارے میں سوچا جائے گا مگر افسوس ان کا کوئی پرسان حال نہیں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں تعلیم و تربیت تو دور کی بات وہ روز ان کو بھوکا سوتے دیکھتے ہیں کچھ لوگ اپنے گردے تک بیچ رہے ہیں یہ آئی ایم ایف سے کیسی ڈیل کرتے ہیں جو غریب عوام کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں آج کل کے غذائی بحران نے بہت سے لوگوں کی خوشیاں اور بہت سے معصوم بچوں کے منہ سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔ بھوک، افلاس ، بیماری ،فاقہ کشی اور بھوک سے بلبلاتے بچے اور ایسی صورتحال کے اندر بجلی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ مصیبتیں اور پریشانیاں عوام کی پہنچ سے بہت بلند ہو چکی ہیں جہاں پر گھروں میں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج تھا اب وہ لوگ کچھ دن کا سامان خریدتے ہیں اور سارا سارا دن فٹ پاتھوں پر بیٹھ کے دیہاڑی ملنے کا انتظار کرتے ہیں اعلی تعلیم یافتہ افراد بیس ہزار روپے پر بھی مہینہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ ایک تو یہاں نوکری ملتی نہیں اور اگر مل بھی جاتی ہے تو اس میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ انسان اپنا اور اپنے والدین کا ہی گزارا کر لیں . ہم سے بہتر تو وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو پرائمری پاس کرکے بیرون ممالک ملازمت کے لیے چلے جاتے ہیں اور یہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کے مقابلے میں دو سو ساٹھ گنا زیادہ کماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے قابل افراد مجبور ہو کر بیرون ملک جا کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہاں ڈگریاں لے کر بھی نوکری نہیں ملتی ہے۔ ہمارا ایک روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 260 کے برابر ہوچکا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی ملازمت کے معاملے میں کچھ پیچھے نہیں رہا چھ سال کام کرنے والے پوسٹ گریجویٹ افراد کو 30 یا 33 ہزار پر رکھتے ہیں۔ اور اس کے اندر کسی قسم کے فیول اخراجات نہیں دیتے ہیں ایسے حالات میں ایک شخص کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔ افراط زر کی زد میں آیا پاکستان اور ایسا آدمی جو پرائیویٹ سیکٹر کیلئے کام کرتا ہوں اپنا اور اپنے خاندان کی کس طرح دیکھ بھال کر سکتا ہے۔ یہ کس قسم کی پالیسی بناتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ آج ہم 2023 میں رہتے ہیں اور ہمارے ملک کی حالت دن بدن بدتر سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ایک غریب انسان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
خدارا بس کریں گے سب ڈراما ملک آگے ہی بہت سے مسائل سے دوچار ہے۔

تبصرے بند ہیں.