پاکستان کا سیاسی اور معاشی منظرنامہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف پی۔ڈی۔ایم کی وفاقی حکومت ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام الناس کو کسی قسم کا ریلیف فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ کمرتوڑ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی مشکلات اور مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف عمران خان ہیں جو وفاقی حکومت کے درپے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے اسے شہباز حکومت کو گھر بھیج دیا جائے۔ سیاسی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دئیے۔ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کر دیا گیا۔ دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ لیکن ابھی تک انتخابات کی کوئی تاریخ سامنے نہیں آسکی ۔ لہذاسیاسی بے یقینی کی کیفیت ہنوز قائم ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارے ملک کو سیاسی استحکام کم کم ہی نصیب ہوا ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں سیاسی بے یقینی اپنے پنجے گاڑے موجود رہتی ہے۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ وفاقی حکومت اپنی مقررہ مدت تک قائم رہے گی، یا اس سے پہلے ہی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابی میدان کا رخ کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکومتیں نوے دن کے لئے قائم ہوئی ہیں یا یہ نگران سیٹ اپ طویل مدت کے لئے ہے۔اگرچہ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کروانے کی ہدایت جاری کی ہے۔تاہم یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ سرکاری زرائع کا کہنا ہے کہ دفاع اور خزانہ کی وزارتوںکے ساتھ ساتھ عدلیہ نے سیکیورٹی، زیادہ اخراجات اور افرادی قوت کی کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں عام انتخابات کے عمل اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی حمایت کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ عمومی طور پر سیاسی اور صحافتی تجزیہ کار انتخابات کے بعد کی صورتحال پر پیشن گوئی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات کے بعد کون سی جماعت کی حکومت قائم ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
امن عامہ کی صورتحال بھی اچھی نہیں ہے۔ نوا شریف کے دور حکومت میں دہشت گردی کا جن بڑی مشکل سے بوتل میں بند کیا گیا تھا۔افسوس کی بات ہے کہ ملک میں دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ جامع مسجد پشاور میں چند ہفتے پہلے ایک نہایت خوفناک سانحہ رونما ہوا۔کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ امید تھی کہ اس حادثے کے بعد ہمارے سیاست دان ہوش کے ناخن لیں گے۔ لیکن اس پر بھی قومی اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آیا۔آل پارٹیز کانفرنس کی خبر سامنے آئی تو اس پر بھی کچھ جماعتیں آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں۔معیشت کی حالت تو خیر گزشتہ چار پانچ سالوں سے نہایت خراب ہے۔ یہ معاشی صورتحال بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ قومی قیادت مل بیٹھے۔ مگر اس بات کے امکانات ماضی میں دکھائی دئیے ، نہ ہی اب نظر آتے ہیں۔ اس وقت ہم آئی ۔ایم۔ایف کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔ ملکی معیشت کی نبضیں چلائے رکھنے کی خاطر ہم اس ادارے کی کڑی شرائط ماننے پر مجبور ہو چلے ہیں۔ آئی۔ ایم۔ایف کے حکم پر مختلف ٹیکس لگتے ہیں۔ اشیاءکی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ ان سب شرائط کا بوجھ عوام الناس کو اٹھانا پڑتا ہے۔ یعنی ان کی آمدنی تو وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے، لیکن اخراجات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ خوفناک صورتحال ہے کہ یہ اضافہ کہیں تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی آئی ۔ایم۔ایف سے مذاکرات ہوئے تو امید تھی کہ کچھ اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔اچھی خبر تو فی الحال سامنے نہیں آئی، البتہ میڈیا کے توسط سے یہ اطلاعات ہم تک پہنچ چکی ہیں کہ آئی ۔ ایم ۔ایف کی ہدایت پر 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ آئی۔ ایم ۔ایف ہی کے کے مطالبے پر بجلی بھی مرحلہ وار مہنگی کی جائے گی۔ جب بھی حکومت آئی۔ ایم۔ایف کی شرائط کا نفاذ کرتی ہے، عوام کی زندگی میں چند نئی مشکلات در آتی ہیں۔ لیکن وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام کو نہیں اٹھانا پڑے گا۔ دیکھتے ہیں کہ یہ کہا کتنا درست ثابت ہوتا ہے۔ فی الحال تو عوام بے حد پریشان ہے۔ انہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ جس سے بھی بات کریں وہ مہنگائی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔ نجانے حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ان تمام مسائل کا حل انتخابات میں پوشیدہ ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہیے۔ آئین اور جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔تاہم جو صورتحال بن چکی ہے ، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھلا کیا تبدیلی آئے گی؟ مسائل کا انبوہ کثیر دیکھ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان سب مسائل سے نبرد آزما ہونا کسی ایک جماعت، کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد بھی قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہو گی۔
کالم میں قومی سیاست کا احوال لکھتے ہر مرتبہ ایک ہی خیال آتا ہے کہ کاش قومی معاملات پر ہمارے اہل سیاست اکھٹے ہو جائیں۔ معیشت کی بہتری کے لئے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اور عوام کی زندگی سے مشکلات کا خاتمہ کرنے کے لئے مل بیٹھ کر فیصلے کر لئے جائیں تو اس میں آخر کیا حرج ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.