نگران حکومت ،امتحان اور جاری تبادلے

109

نگران پنجاب حکومت کو فلور ملز کے ایک مافیا کی شکل میں پہلا چیلنج درپیش ہے ، یہ اب حکومت کی گورننس اور اہلیت کا امتحان ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوکر انہیں سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھاتے ہیں یا پھر ایک مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہو کر عوام اور اپنی گورننس کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں،میں خود ایک کسان ہوں کچھ ماہ سے عام مارکیٹ میں گندم کا ریٹ سوا چا ر ہزار سے پانچ ہزار روپے تک رہا ہے جبکہ فلور ملوں والے یہی گندم اٹھارہ سو سے تیئس سو روپے میں حکومت سے لے رہے ہیں جو حکومت کی طرف سے عوام کو آٹا سستا فراہم کرنے کے لئے سبسڈی کا ایک اقدام ہوتا ہے اور توقع ہوتی ہے کہ ملیں یہ گندم پیس کر آٹا براہ راست مارکیٹ میں لا کر بیچیں تاکہ عوام کو سستے آٹے کی فراہمی یقینی بن سکے مگر اس کوٹہ کا غلط استعمال ہو رہا تھا اور کچھ مالکان اس کوٹہ میں سے برائے نام پیس کر آٹا مارکیٹ میں لے آتے جبکہ باقی کوٹہ مارکیٹ میں فروخت کر کے کروڑوں روپے منافع اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں،یہ گندم سمگل ہو کر آگے سے آگے پہنچ جاتی ہے اور غریب عوام سستے آٹے کو ترستے رہتے ہیں اور وافر گندم ریلیز کرنے کے باوجود حکومت کے ہاتھ عوام کی گالیاں اور بد دعائیں آتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ اس سال اب تک حکومت نے جو گندم ریلیز کی ہے اسکی سبسڈی یارعایت ایک سو اسی ارب روپے بنتی ہے جس کا اکثریتی حصہ ایک مافیا کھا گیا ہے ،اس میں یقینی طور پر محکمہ خوراک کی کچھ کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کوٹے کا غلط استعمال کرنے والے فلور ملز مافیا کے ساتھ ساتھ محکمہ خوراک کے کرپٹ افسروں اور اہلکاروں کے خلاف ایکشن ہونا شروع ہو ا تو حسب روایت انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے۔
پنجاب کے محکمہ خوراک میں ایک انتہائی نیک نام ،محنتی اور اپ رائٹ صوبائی افسر زمان وٹو کو انہی وجوہات کی بنا پر سیکرٹری محکمہ خوراک لگایا گیا ہے ۔ماضی میں سیاسی مافیا،شوگر مافیا اور اب فلور ملز مافیا ان کے خلاف تحریک چلا رہا ہے،مجھے یاد ہے یہ بھکر کے ڈپٹی کمشنر تھے تو ان کے دفتر اور گھر کے دروازے عوام کے لئے کھلے ہوتے تھے ،اسی طرح کین کمشنر کے طور پر کسان ان کو اب تک دعائیں دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے گنے کے کاشتکاروں کے سالوں پرانے بقایا جات دلوائے تھے،اب زمان وٹو نے گھوسٹ فلور ملوں اور گندم کوٹے کو مس یوز کرنے والے مافیا پر اسی طرح ہاتھ ڈالا ہے جس طرح ماضی میں شوگر ملز مافیا کے خلاف شکنجہ کسا گیا تھا ،ماضی میں وزیر اعظم کی سپورٹ کے باوجود انہیں تبدیل کر دیا گیا تھا دیکھتے ہیں نگران حکومت اپنے اس محنتی اور نیک نام افسر کا کتنا ساتھ دیتی ہے۔
نگران حکومت کی طرف سے پوسٹنگ ٹرانسفر کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ،میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ نگران دور میں تقر رتبادلوں کی اتنی بڑی ایکسرسائز اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی،بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیلڈ افسران کو ادھر ادھر کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں جس کے سبب یہ لاحاصل ایکسرسائز کی جارہی ہے،مگر سیکرٹری لیول پر تبادلوں کا کوئی اور ہی مقصد ہے۔ابھی تک الیکشن کمیشن نے اپنا اصل اختیار استعمال کرتے ہوئے انتخابات کا شیڈول تو جاری نہیں کیا مگر تبادلوں کا شیڈول جاری کرنے کا اسے کیسے اختیار حاصل ہو گیا ؟پنجاب میں الیکشن کمیشن کے کہنے پر تبادلے ہورہے ہیں یا وزیر اعظم آفس ہدایات جاری کر رہا ہے ،ہمارے معصوم اور اچھے نگران وزیر اعلیٰ ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کا حکم کہاں کہاں چل رہا ہے؟سابقہ کسی نگران دور میں صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل اور لا افسروں کو نئی حکومت کے آنے تک تبدیل نہیں کیا جاتا رہا مگر اس بار سب سے پہلا کام ہی یہ کیا گیا ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سو سے کچھ کم لا افسروں کو نگران حکومت نے فارغ کر دیا اور ان کی جگہ پر اپنے پچپن لا افسر تعینات کر دئے،یہ معاملہ عدالت عالیہ کے سامنے گیا تو سابقہ حکومت کے لا افسروں کو اگلے حکم تک کام کرتے رہنے کا ریلیف مل گیا مگر نگران حکومت کے لگائے گئے پچپن لا افسروں کے بارے کوئی حکم پاس نہ ہوا اور یوں اس وقت صوبے میں ڈیڑھ سو کے قریب لا افسر کام کر رہے ہیں ،اتنی بڑی تعداد میں ان لا افسروں کی تنخوائیں اس مشکل دور میں بھی پنجاب کے ناتواں کندھوں پر شاید بوجھ نہیں ہیں ،اسی طرح اعلیٰ عدالتوں میں ایک ایک کیس میں حکومت کے کئی کئی وکیل ؟صورتحال قابل دید ہوتی ہے۔
ماضی قریب میں سنتے تھے کہ بعض ڈپٹی کمشنر پیسے دے کر تعیناتی حاصل کرتے تھے ،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔تحقیقات کے مطابق ماضی میں بھی ڈپٹی کمشنر لگنے والے چند افسروں نے خود پیسے نہیں دیے تھے جن لوگوں نے ان کی تعیناتی سے فائدہ حاصل کرنا تھا یہ انوسٹمنٹ انہوں نے کی تھی ،لینڈ مافیا اور کالونیوں والوں کی طرف سے یہ انوسٹمنٹ اب بھی زور و شور سے جاری و ساری ہے ،ایک افسر جس ضلع میں اے ڈی سی آر تھے اب انہیں اسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا ہے ،انہوں نے یہ پوسٹ ڈنکے کی چوٹ پر حاصل کی ہے،انہوں نے اپنے انٹرویو کے دوران ہی انٹرویو لینے والوں پر واضع کر دیا تھا کہ وہ یہ انٹرویو کسی غیر اہم ضلع میں لگنے کے لئے نہیں دے رہے انہیں لگنا ہے تو اپنی مرضی کے ضلع میں لگیں گے۔اسی طرح ایک پی ایس پی افسر کی پی اے ایس افسر اہلیہ نے اپنی مرضی سے پوسٹنگ لی حالانکہ اس پوسٹ پر کسی دوسرے افسر کا نام فائنل کیاگیا تھا۔یہ تو چند مثالیں ہیں حالیہ پوسٹنگ ٹرانسفر میں پنجاب میں ایسے بے شمار افسر ہیں جن کو ان کی خواہشات کے مطابق اکاموڈیٹ کیا گیا ہے ،جو افسر اپنی مرضی سے کوئی پوسٹ حاصل کرتا ہے وہ وہاں کام کے دوران اپنے اعلیٰ افسران کو کیا لفٹ کرائے گا اور پھر کس قسم کی گورننس سامنے آئے گی ؟
نگران حکومت نے مختلف سینئر افسروں کو پنجاب سے دیس نکالا دے دیا ہے حالانکہ ان میں اچھے افسران بھی ہیں،علی مرتضیٰ شاید بیج میں موجودہ چیف سیکرٹری سے سینئر ہیں اس لئے ان کی خدمات وفاق کو واپس کر دی گئی ہیں،جبکہ عامر جان اور عمران سکندر کا شمار اچھے اور کام کرنے والے افسران میں ہوتا ہے انہیں شائد اس لئے تبدیل کیا گیا ہے کہ وہ سابقہ حکومت میں اچھی پوسٹ پر تعینات تھے ،عثمان بزدار کے اقتدار کے آخری مہینوں میں پرنسپل سیکرٹری عامر جان اور اس وقت کے چیف سیکرٹری کامران علی افضل نے مثالی کوآرڈینیشن سے اچھے فیصلے کیے تھے۔
نگران حکومت کو انٹی کرپشن میں تعیناتی کے لئے کسی سول افسر نے ہاں نہ کی تو انہوں نے بھی ماضی کی طرح ایک پولیس افسر کو لانے میں ہی عافیت سمجھی ہے، ہر حکومت نے انٹی کرپشن کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا وطیرہ بنا لیا ہے ، سہیل ظفر چٹھہ ایک اپ رائٹ افسر ہیں،امید ہے وہ ایسا کام نہیں کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.