سیاسی بحران ، مہنگائی ،گرفتاریوں کا موسم

82

لو اٹھی مغرب سے ہَوا، گرفتاریوں کا موسم آ گیا۔ فروری اہم ثابت ہو رہا ہے۔ کپتان کے اپنے میر جعفر، میر صادق پکڑے جا رہے ہیں۔ نمبر لگا دیے گئے ہیں۔ ریہرسل کامیاب رہی۔ گرفتاریوں کیخلاف کپتان ”قوم“ باہر نہ نکلی۔ وہی ڈھاک کے تین پات پچاس ساٹھ فارغ البال افراد نعرے لگا کر رخصت ہوئے کوئی دن جاتا ہے بڑی خبریں یا بڑی خبر آیا چاہتی ہے۔ دور افق پر نظر رکھنے والے 10 اور 12 فروری اہم قرار دے رہے ہیں۔ جو گرجتے تھے وہ برستے نہیں۔ جنہیں برسنے کا ہوکا ہے ان کی گرج چمک میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ عدالتوں سے ٹھنڈی ہَواؤں کے جھونکے آنا بند ہو گئے۔ ”وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ“ لا تعلقی اور غیر جانبداری نے یہ دن دکھائے۔ ”گھٹ گئے اپنے، بڑھ گئے سائے“ شہباز گل، اعظم سواتی چند روزہ قید تنہائی سے تنگ ضمانتیں ملنے پر خاصے محتاط بلکہ خبروں سے غائب ہو گئے۔ شہباز گل پر فرد جرم عائد ہونی تھی۔ ساتھی نے طبی بنیادوں پر 11 فروری تک مہلت لے لی، پہلے ہی محتاط رویہ اپنایا جاتا تو بُرے دن نہ دیکھنا پڑتے، سیاست کے ”شوقیہ فنکار“ بدلتے حالات کا ادراک کیے بغیر کھل کھیلے اور دھر لیے گئے۔ فواد چودھری گزشتہ دنوں بات چیت میں اوور ہوئے گھر کا گیٹ پار کرنے کی مہلت نہ ملی، پو پھٹنے سے پہلے اٹھا لیے گئے۔ اسی طرح منہ پر کپڑا ہاتھوں میں ہتھکڑی، عدالت میں جانے سے پہلے اور بعد ہتھکڑی چھنکاتے اور حامیوں کو دکھاتے رہے جیسے کہہ رہے ہوں لو آج ہم بھی سیاستدان بن گئے ہیں۔ جیل یاترا کے بعد بڑی مشکل سے ضمانت ملی، کیا اچھے دن تھے آسانی سے ضمانت مل جاتی تھی۔ یہ بھی دن ہیں کہ کئی دن حوالات، بخشی خانوں اور جیل وارڈ میں گزارنا پڑتے ہیں۔ گرفتاری کے وقت خوش تھے۔ رہائی پر آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ایک ٹی وی چینل پر بچیوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے۔ تاہم آنسو پلکوں پر آ کر ٹھہر گئے۔ نواز شریف نے کہا عمران نے کہا تھا انہیں رلاو¿ں گا، اب خود رو رہے ہیں۔ یادش بخیر مشاہد اللہ خان مرحوم نے کہا تھا مجھے آپ کے آنسو نظر آ رہے ہیں کوئی پونچھنے والا نہیں ہو گا۔ فروری شروع ہوتے ہی گرفتاریوں میں تیزی آ گئی۔ ایک ہی دن میں تین لیڈر پکڑے گئے۔ اپنے پنڈی والے شیخ رشید آصف زرداری کے خلاف بیان دے کر پچھتائے۔ شیخ صاحب غیر محتاط گفتگو کے عادی ہیں لیکن گیٹ بند ہونے کے بعد احساس کر لیتے اور قتل کی سپاری دینے کا الزام نہ لگاتے۔ حسب عادت بلا سوچے سمجھے کہہ گئے بات ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی، ایف آئی آر درج ہو گئی دن میں لال حویلی کے ساتھ یونٹ سیل ہوئے رات میں پکڑنے والے آ پہنچے۔ گالم گلوچ، غلیظ نعرے بازی کام نہ آئی بلکہ اس پر بھی ایک مقدمہ درج ہو گیا۔ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔“ پولیس کے مطابق کوئی بوتل شوتل بھی برآمد ہوئی۔ شیخ صاحب دل ہی دل میں اپنے شہر کے ایک شاعر کے اشعار دہرا رہے ہوں گے۔ ”وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں، دوری پئی اے تھوڑے دناں توں، شام سویرے آ جاندے سن، خبر نہ لئی اے تھوڑے دناں توں“ (چند دن سے بات بگڑ گئی ہے، فاصلے اور دوریاں بڑھ گئی ہےں، پہلے تو صبح شام مل لیتے تھے اب تو چند دن ہوئے خبر تک نہیں لی)۔ حنیف عباسی نے فوراً گروہ لگائی کہ جیل میری سسرال، ہتھکڑی میرا زیور کی رٹ لگانے والے شیخ صاحب اب صبر کریں۔ کپتان کے ساتھی دو قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ عوام بھی کال پر باہر نہیں نکلتے۔ سمجھایا کرتے تھے کہ ”اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے، اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر“ گیارہ کیسز کی تحقیقات شروع ہو گئیں توشہ خانہ کیس فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلہ کے بعد فوجداری کیس، توہین عدالت کیس اور ٹیریان کیس گلے پڑ گئے ایک ہی سوال بیٹی ہے یا نہیں، کوئی جواب نہیں۔ عدالت میں ٹیکنیکل جواب دیا کہ میں رکن اسمبلی نہیں ہوں اس لیے مجھ پر الزام لاگو نہیں ہوتا۔ لوگوں نے کہا آپ نے پچھلے ہی دنوں 6 جگہ سے انتخاب جیتے، حلف نہیں اٹھایا۔ این اے 193 سے بھی الیکشن لڑنے اور 33 حلقوں سے امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ ٹیریان کیس میں پھنسنے کے بعد صادق اور امین ہونے پر سوال اٹھیں گے۔ کاغذات مسترد ہو جائیں گے۔ شاید اسی لیے کپتان نے این اے 193 اور 33 حلقوں سے انتخابات نہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کپتان کی درخواست مسترد کر دی۔ سارے
پھنس چکے سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کریں۔ کچھ نہ سوجھی تو آصف زرداری پر قتل کی سپاری دینے کا الزام لگا دیا۔ اس پر بھی 10 ارب ہرجانے کا دعویٰ نوٹس کہ 15 دنوں میں غیر مشروط معافی مانگیں ورنہ عدالت کا سامنا کریں۔ ”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں نہ صرف 37 کروڑ کی رقم بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی بلکہ نا اہلی، پارٹی سربراہی سے علیحدگی اور پارٹی پر پابندی سے متعلق بھی کئی دریا پار کرنا پڑیں گے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود کپتان نے سڑکوں پر آنے اور جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ کارکنان میری کال کا انتظار کریں۔ انہیں ملک کو درپیش سیاسی بحران، منگائی، دہشت گردی سمیت کسی بات کا احساس نہیں، دن رات ایک ہی رٹ 90 دن میں انتخابات کرائیں سر میں سودا سما گیا ہے کہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم بن جاو¿ں گا۔ موجودہ حالات میں کیسے بنیں گے۔ بالفرض محال بن گئے تو کیا کر لیں گے۔ یہ تو سوچا ہی نہیں۔ بقول محسن احسان ”کیا ضرورت ہے انہیں منظر و پس منظر کی، جو کہانی ہی بدل دیتے ہیں کردار کے ساتھ“ ملک کن مشکلات سے گزر رہا ہے۔ عوام کن مسائل سے دوچار ہیں۔ المناک داستان، سیاسی بحران، مہنگائی بے لگام، بے بس عوام، حکومت مہنگائی کے آگے بند باندھنے میں ناکام، ڈالر 276 روپے تک جا پہنچا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی 7 نکاتی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں یک دم 35,35 روپے اضافہ کر دیا۔ پٹرول ڈھائی سو روپے لیٹر، مزید مہنگا ہو گا۔ ایک لیٹر ایک ڈالر کے برابر، بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانے اربوں کی سبسڈی ختم کرنے، ٹیکس نیٹ بڑھانے کی شرائط پر عملدرآمد باقی ہے کئی سال سے حکومت مختلف مافیاؤں کو 16 ارب 60 کروڑ کی سبسڈی دے رہی ہے۔ بینک مافیا کو 36 سو ارب روپے سود کی شکل میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ تجارتی مافیاز برآمدات کے نام پر سستی بجلی، گیس، لے کر مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب 8 کروڑ رہ گئے۔ گزشتہ حکومت میں کیے گئے معاہدے کے تحت مزید 6 یا 8 ارب کے ٹیکسز لگیں گے۔ مہنگائی کہاں جا کر رکے گی، مہنگائی 47 سال کی بلند ترین سطح 37.06 فیصد پر پہنچ گئی، افراط زر 27.5 فیصد، معیشت کی ڈوبتی کشتی کو کون اور کیسے سہارا دے گا۔ اس وقت عوام جس تکلیف میں مبتلا ہیں اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ سندھ کے شہر نو شہرو فیروز میں منشیات کے مقدمہ میں سزا بھگت کر رہائی پانے والے شخص نے یہ کہہ کر رہا ہونے سے انکار کر دیا کہ مہنگائی کے باعث گھر کے اخراجات کہاں سے پورے کروں گا بہتر ہے باقی زندگی بھی جیل میں ہی گزار دوں۔ عوام اپنے بال بچوں سمیت خود کشیاں کر رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب عوام خود کشیاں بند کر کے مہنگائی کے ذمہ داروں کے دشمن بن جائیں گے۔ اشرافیہ نے بھوک نہیں دیکھی، اس نے وہ ہاتھ بھی نہیں دیکھے جو بھوک سے تنگ آ کر گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ خدا وہ وقت نہ لائے جب ملک میں ایسے خطرناک حالات پیدا ہوں۔ مہنگائی کی داستان چار سال پر محیط ہے۔ سیاسی بحران اور مہنگائی لازم و ملزوم، ذمہ دار ایک شخص، ایک حکومت ملک میں عدم استحکام بڑی وجہ، جب وزیر اعظم برسر اقتدار آتے ہی جانے والوں کو چور ڈاکو کہے گا اور بیانات دے گا کہ ڈالروں کے صندوق باہر جا رہے ہیں تو آئی ایم ایف کس ضمانت پر قرضہ دے گا۔ سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تو مہنگائی کا کون سوچے، اسحاق ڈار معیشت کے ایکسپرٹ لیکن ایکسپرٹ کے پاس میٹریل ہی نہ ہو تو وہ کس دیوار پر ٹکر مارے۔ سیاست عبادت نہیں رہی۔ سیاست کو عبادت سمجھنے والے آؤٹ ہیں جو اِن ہیں وہ سیاست کو تجارت سمجھ کر آئے ہیں۔ آج تک سمجھ رہے ہیں اور اربوں کما کر ڈزا ڈز بیانات کی سیاست کر رہے ہیں۔ طعن و تشنیع بجا، 24 گھنٹے میں 24 بیانات درست لیکن آفتاب کو گہرے بادلوں اور دھند سے باہر نکلنے دیا جائے تو وہ روشنی کی کرنیں بکھیرے، سیاسی بحران، مہنگائی کے علاوہ دہشت گردی نے بھی ملک کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش دھماکے سے 100 سے زائد نمازی شہید 150 سے زائد زخمی ہو گئے جن کی حکومت تھی ان میں سے کوئی بھی شہدا کے جنازے میں شریک نہ ہوا۔ کپتان بھی ٹانگ باندھے زمان پارک میں اجلاسوں کی صدارت کرتے رہے۔ کسی نے پوچھا کہ دہشت گرد کے پی کے میں کیسے گھس آئے کس نے انہیں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فراہم کرنے اور انہیں اس ملک میں آبادکاری سے متعلق بیانات دیے؟ ان سے مذاکرات کیے؟ سارے قومی دکھ ہیں جو آج بھی سینوں کو چھلنی کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم آرمی چیف اور دیگر حکام موقع واردات پر پہنچے، غمزدوں کی دلجوئی کی۔ بعد میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کا دو ٹوک اعلان کیا۔ 7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا۔ کپتان کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے مسترد کر دی۔ مرغے کی ایک تانگ انتخابات کراؤ اس کے سوا کسی میٹنگ کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ کیوں شریک نہیں ہوں گے؟ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 9 سال سے ان کی حکومت تھی۔ صوبہ کے معاملات ان کی ذمہ داری تھی جوابدہ بھی وہی ہیں۔ اچھا ہوتا کہ وہ اے پی سی میں شرکت کر کے موجودہ حکومت کو بریفنگ دیتے اور اپنی ماضی اور حال کی پالیسیوں سے آگاہ کرتے مگر وہ دامن بچا گئے۔ اس موقع پر کے پی کے کے گورنر حاجی غلام علی کا کہنا ہے کہ ہم جنازے اٹھا رہے ہیں۔ انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں سے ان کا ایجنڈا پوچھیں موجودہ حالات ملک کی تباہی کی وارننگ دے رہے ہیں۔ ان حالات میں جب ملک ڈیفالٹ کے کنارے کھڑا ہو، دہشت گردی کا خطرہ سر پر آ پہنچا ایسے میں مہنگائی کی آڑ میں موجودہ حکومت کو گرانے اور انتخابات کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا کسی بھی طرح حب الوطنی کے زمرے میں نہیں آتا۔ سیاسی گند سمیٹنے کا آغاز ہو چکا۔ گرفتاریوں اور کرپشن کے مقدمات نمٹانے اور ملزموں کے خلاف اقدامات میں حائل رکاوٹیں ختم ہو گئیں۔ ”مزاج اپنا اچانک بدل رہے ہیں چراغ، جو مصلحتوں کی حدوں سے نکل رہے ہیں چراغ“ پوچھا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان میں محل نما گھر کی تزئین و آرائش کے لےے 66 کروڑ روپے کہاں سے آئے۔ 11 کیسز کی تحقیقات چند دنوں کی بات لیکن ٹیریان کیس اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلوں کے بعد بڑی تبدیلیوں، امکانات اور خطرات کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہےں اور دور دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تطہیر کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ بچانے والے خاموش ہیں اب تک نرم گوشے رکھنے والے جا چکے مستقبل کے نقشے میں کپتان کہیں نظر نہیں آ رہے، واللہ اعلم بالصواب۔

تبصرے بند ہیں.