ہم وہیں کھڑے ہیں!

11

صاحبزادہ آفتاب احمد خان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر تھے۔ یہ انڈین پنجاب کے صوبے ہریانہ میں 1867 میں پیدا ہوئے، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج انڈیا میں زیر تعلیم رہے اور بعد میں کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ 1894 میں واپس آئے اور مستقل طور پر علی گڑھ شفٹ ہو گئے۔ سر سید احمد خان ان کے جذبے سے متاثر ہوئے اور انہیں کالج کا ٹرسٹی مقرر کر دیا۔ انہوں نے علی گڑھ میں وکالت بھی شروع کر دی اور یہ علی گڑھ کالج میں قانون کے پروفیسر بھی تعینات ہو گئے۔ 1898 سر سید کی وفات ہوئی تو انہوں نے اپنی خدمات اور توانائیاں کالج کے لیے وقف کر دیں۔ انہوں نے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لیے سر سید میموریل فنڈ قائم کیا اور اس کے لیے ہر دروازے پر دستک دی۔ یہ 1905 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے اور 1917 تک اس محاذ سے بھی متحرک رہے۔ 1924 میں انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا اور یہ 1926 تک یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ 1926میں مدت پوری ہوئی تو انہوں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا، انتظامیہ انہیں مزید ایکسٹیشن دینا چاہتی تھی مگر انہوں نے اپنی صحت کی دگرگوں صورت حال کے پیش نظر مزید ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔
یہ جب 1924 سے 1926 تک مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو انہوں نے یونیورسٹی
میں اسلامیات کا ایک نیا کورس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک کورس مرتب کیا اور اسے ہندوستان کے نامور اہل علم کی خدمت میں بھیجا اور اس پر ان سے مشاورت اور تجاویز مانگی۔ یہ تجاویز انہوں نے علامہ اقبال کو بھی ارسال کیں، علامہ اقبال ان دنوں سیالکوٹ تھے انہوں نے صاحبزادہ آفتاب احمد خان کو جوابی خط لکھ کر اپنی آرا کا اظہار کیا۔ آج سے ایک صدی پہلے دو نامور اہل علم اور مسلم نشاة ثانیہ کا خواب دیکھنے والے راہنما نوجوانوں کے لیے کس طرح کا نصاب چاہتے تھے، یہ جاننا اہم ہے۔ علامہ اقبال نے خط کے جواب میں پہلے کچھ تمہیدی باتیں کیں اور آخر میں اپنی آرا لکھیں۔ تمہیدی باتوں میں علامہ اقبال نے لکھا کہ آپ نے جن پہلوؤں کی طرف نشاندہی کی ہے وہ بہت اہم ہیں اور مسلمانوں میں از سر نو جدید علوم کا شوق پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کچھ بکھرے خیالات ہیں جنہیں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اسلامک سٹڈیز کے نصاب کے جو مقاصد بیان کیے ہیں ان میں پہلا مقصد یہ ہے کہ ایسے ماہرین علم الکلام پیدا کیے جائیں جو جدید علوم کے پیدا کردہ چیلنجز کو رسپانڈ کر سکیں اور سماج کی روحانی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ دراصل کسی بھی سماج کی روحانی ضروریات زندگی کے بارے میں اس کا نکتہ نظر کے بدلنے کے ساتھ بدل جاتی ہیں۔ دور جدید میں افراد اور سماج کی بدلتی ہوئی صورتحال، آزادی اور نیچرل سائنسز کی لامحدود ترقی نے زندگی کے بارے میں انسانوں کا نکتہ نظر بدل دیا ہے، اس لیے سماج کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جو فلسفیانہ نظام قرون وسطیٰ کے اذہان کو متاثر کر سکتا تھا، آج وہ غیر موثر ثابت ہو چکا ہے۔ اس میں مذہب کا قصور نہیں
بلکہ یہ زندگی کے بارے میں انسان کے نکتہ نظر کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر ہم اسلامی طرز زندگی کی بحالی اور اسلام کی روح کو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک نیا علم الکلام ایجاد کرنا ہو گا۔ سر سید احمد خان کا نکتہ نظر اس حوالے سے اہم تھا مگر وہ بوجوہ نہیں پنپ سکا۔ آپ نے تھیالوجی (علم الکلام) کے ماہرین پیدا کرنے کا جو نصاب ترتیب دیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کر سکا۔ اگر آپ سماج کے ایک بڑے طبقے کو مخاطب بنانا چاہتے ہیں تو قدیم طرز کے کلامی سکول سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ قدیم طرز کی کلامی مباحث کا تکرار بوسیدہ افکار پر وقت کا زیاں ہے جس کا روحانی طور پر کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اور علمی طور پر بھی یہ رویہ قابل ستائش نہیں کہ قدیم مسائل کو دوبارہ پیش کرنا سعی لاحاصل ہے۔ ہمیں آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جدید علوم کو سامنے رکھتے ہوئے علمی و فکری سرگرمیوں کو تشکیل دیا جائے اور ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھی جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ایسے افراد مہیا ہوں جو جدید و قدیم علوم اور مہارتوں پر دسترس رکھتے ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کیسے تیار کیے جائیں؟
میں آپ کی اس بات سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ ایک ایسا سسٹم وضع کیا جائے جس میں دیوبند اور لکھنو کے ذہین ترین دماغوں کو اس طرح کی سرگرمیوں میں انگیج کیا جائے۔ مگر سوال پھر یہ ہے کہ ایسے طلبا کو آپ یونیورسٹی کی ابتدائی تعلیم دلانے کے بعد کیا کریں گے؟ کیا آپ انہیں بی اے اور ایم اے کرانا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کا یہی مقصد ہے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایسے طلبا نئے علم الکلام کی تشکیل و تدوین میں آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ میری رائے یہ ہے کہ دیوبند اور لکھنو کے ایسے طلبا جو کلامی فکر کا رجحان رکھتے ہیں انہیں جدید سائنس اور جدید افکار کے تمام مراحل سے گزارا جائے، انہیں بنیادی سائنس سے لے کر منتہی درجات تک کے سائنسی مضامین پڑھائے جائیں اس کے بعد انہیں بی اے اور ایم اے کرایا جائے۔ جدید سائنس اور جدید افکار کا جامع کورس پڑھانے کے بعد انہیں بی اے اور ایم اے میں بھی انہی مضامین میں تخصص کرایا جائے جو ان کی متعلقہ فیلڈ سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں جیسے مسلم کلامی دبستان، اسلامی اخلاقیات اور مابعد الطبعیاتی فلسفہ وغیرہ۔ اس کے بعد انہیں یونیورسٹی فیلو کی حیثیت سے موقع دیا جائے کہ وہ ان موضوعات پر لیکچرز دیں۔ اس طرح ممکن ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں مسلم تھیالوجی کا ایک نیا طبقہ پیدا ہو جو موجودہ سماج کی روحانی اور کلامی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اگر آپ سر دست یہ سب نہیں کر سکتے اور سماج کے قدامت پسند طبقے کا بھی خیال رکھنا چاہتے ہیں تو فی الحال قدیم کلامی طرز پر ایک کورس مرتب کر لیں لیکن آپ کا حتمی مقصد یہی ہونا چاہئے کہ اس کورس کو بتدریج جدید کلامی مسائل کے ساتھ تبدیل کر لیں گے اور میرے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے جس سے ہم اوریجنل کلامی مفکرین پیدا کر سکتے ہیں۔
علامہ اقبال نے ایک صدی قبل جس مسئلے کی نشاندہی کی تھی وہ آج بھی اسی طرح موجود ہے، ہمارا تعلیمی نظام کسی بھی سطح اور کسی بھی مضمون کے ماہرین پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ خصوصاً اسلامی فکر کے حوالے سے ماہرین ناپید ہیں اگر ہیں بھی تو ان کا علم یک طرفہ ہے۔ مدارس میں کسی حد تک رسوخ اور گہرائی موجود ہے مگر وہاں جدید علوم سے بے اعتنائی ہے اور جدید علوم سے شناسا ہوئے بغیر سماج کی روحانی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتی۔ مدارس کے طلبا یونیورسٹی کی طرف آئیں بھی تو ایم فل پی ایچ ڈی تو کر لیتے ہیں مگر جدید سائنس اور جدید علوم کے بنیادی نظریات سے نابلد ہوتے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی سٹوڈنٹس اسلامی فکر اور اس کے مختلف پہلوؤں سے یکسر نابلد ہیں اور یہ ہمارے نظام تعلیم کا وہ خلاہے جو کسی بھی سطح اور مضمون کے ماہرین پیدا نہیں ہونے دے رہا۔

تبصرے بند ہیں.