میں نے اس آئیڈیے کو کبھی ’بائے‘ نہیں کیا کہ میاں نواز شریف علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور نہ ہی کبھی میاں نواز شریف نے یہ پوز کرنے کی کوشش کی کہ ان کی کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال اور اس کے بعد لندن منتقلی کسی بہت ہی خوفناک بیماری کی وجہ سے تھی۔ انہوں نے ایمبولینس کو ٹیکسی کے طور پر استعمال کیا اورسٹریچر پر لیٹنے کی بالکل زحمت نہیں کی۔ میں اپنے صحافتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں میاں نواز شریف کا برطانیہ جانا، سعودی عرب جانے جیسی ایک اور، سیاسی ہجرت تھی کہ یہاں ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا تھا۔ میاں نواز شریف کی طیارے سے جاری کی گئی تصویروں نے ہی بیماری کاجواز ختم کر دیا تھا۔ ان کے دشمن چھوٹے دل اور دماغ کے مالک تھے ورنہ وہ سیاسی دشمنی کو ذاتی دشمنی میں ہرگز نہ بدلتے، ایک باپ کے سامنے اس کی بیٹی کو ہرگز گرفتار نہ کرتے۔ سیانے کہتے ہیں کہ خدا گھٹیا دوست نہ دے مگراس سے بڑھ کے دعایہ ہونی چاہئے کہ گھٹیا دشمن کبھی نہ دے۔ گھٹیادوست ہوں یا دشمن، وہ نواز شریف کو بندوں کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے کثرت سے ملے۔ ان کے چنے ہوئے بہت سارے گھٹیادوست، گھٹیا دشمن بن گئے، اب میں ان کے نام کیا لکھوں، کیا آپ نہیں جانتے؟
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کی مسلم لیگ اور آصف زرداری کی پیپلزپارٹی کو عمران خان کے بیانئیے کا سامنا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پیپلزپارٹی اس بیانیے کامقابلہ بلکہ توڑ کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس نے عمران خان سے کراچی کی سیٹ چھینی اور ملتان میں بھی پی ٹی آئی کوشکست دی جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ نون پنجاب اسمبلی کی اپنی جیتی ہوئی دو سیٹیں ہار گئی جو اس کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے تھا مگر مجھے علم نہیں کہ اس پارٹی میں کوئی فکر کرنے والا یا سوچنے والا کوئی پلیٹ فارم موجود ہے یا نہیں۔ اس وقت سب دوستوں دشمنوں کا اتفاق ہے کہ نواز شریف ہی وطن واپس آ کے عمران خان کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر اس تحریر کے لکھے جانے تک نواز شریف کی وطن واپسی کا کوئی نہ شیڈول نظر آ رہا ہے اور نہ ہی ارادہ۔ رانا ثناء اللہ خان کو ضرور لندن طلب کیا گیا ہے اوراس کی وجہ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی میں ناکام حکمت عملی پر کھنچائی ہے یا واپسی کے انتظامات تو اس بارے کچھ واضح نہیں ہے۔ مریم نواز شریف وطن واپس لوٹ رہی ہیں جو پارٹی کی سینئر نائب صدر کے ساتھ ساتھ چیف آرگنائزر بھی بنائی جا چکی ہیں اور یہ ضرور واضح ہوچکا ہے کہ نواز لیگ کا مستقبل اب مریم نواز کے ساتھ ہے۔ مریم نواز نے بھی اپنی گفتگو میں اشارے دئیے ہیں کہ میاں نواز شریف وطن واپس لوٹیں گے مگر کب لوٹیں گے، اس بارے کوئی نہیں جانتا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ملک میں ان کے بھائی وزیراعظم ہیں اور ان کی مرضی کے مطابق آرمی چیف کی تقرری بھی ہوچکی ہے اور ان کی خواہش کے مطابق فوج غیر سیاسی بھی ہے تو نواز شریف وطن واپس کیوں نہیں لوٹ رہے۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی اگلا الیکشن ہار جائے جو سر پر آ چکا ہے؟ کیا وہ اپنی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے؟
نواز شریف کی آف دی ریکارڈ گفتگو سنی جائے جو انہوں نے گذشتہ ایک برس میں اتنی زیادہ کی ہے کہ شائد ساری زندگی نہ کی ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سسٹم سے بری طرح اکتا چکے ہیں۔ انہیں بالکل یقین نہیں ہے کہ پاکستان میں کوئی آئینی اور قانونی نظام کام کر رہا ہے۔ وہ اسے اپنے مقدمات اور سزاوں کے ساتھ ملا کے دیکھتے ہیں اور ملنے والوں سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے اپنے بھائی کو ڈیفالٹ کرتے ہوئے پاکستان کی وزارت عظمیٰ اور اپنی پارٹی کو حکومت قبول کرنے کی اجازت دی اوراس کے نتیجے میں اپنی پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو نقصان بھی پہنچایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا ناکام رومانس اوربدترین تجربہ تھا۔ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں جس میں بہت سارے اعترافات کئے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ترقی دی اوراس مشکل صورتحال میں اپنی پارٹی بھی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ اس سب کے بعد وطن واپس لوٹیں تو ان کا اعزاز و اکرام اوربھرپور پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ جولائی دو ہزار اٹھارہ میں اپنی مرتی ہوئی محبوب بیوی کو چھوڑ کے واپس آنے پر جو ڈراما کیا گیا اس کا ایکشن ری پلے ہو اور انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر کے جیل پہنچایا جائے جبکہ ان پر مقدمات اور سزاوں کا دباو او ربدنیتی کی بنیاد پر ہونا ثابت بھی ہوچکا۔ یہ ثابت ہوچکا کہ تحریک انصاف کے نام پر ہر جگہ بدترین ناانصافی کی گئی۔ احتساب کے نام پر صرف اور صرف سیاسی انتقام لیا گیا۔ وہ ابھی تک عدلیہ کے روئیے سے مطمئن نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ مکمل غیر جانبدار ہوتی اور اپنی غلطیوں پر نادم ہوتی تو ان کے خلاف دئیے گئے ناقص اور بودے فیصلوں برقرار نہ ہوتے جبکہ وہ فیصلے دینے والے جج بھی ایکسپوز ہوچکے، سب کچھ بول بال چکے۔
یوں لگتا ہے کہ نواز شریف اپنی آسانی دیکھ رہے ہیں اور تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ کیا نواز شریف اسی وقت پاکستان آئیں گے جب ان کے پاس وزارت عظمیٰ ہو گی تو میں اس سے کسی حد تک اختلاف کرتا ہوں۔ نواز شریف کا وطن واپسی پر جیل نہ جانے کا مطالبہ صرف اس لئے درست نہیں کہ وہ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے، انہوں نے اپنے ہر دور میں اس ملک کو تعمیر، جدت اور خوشحالی دی، مشرف کے ننگے مارشل لا کے بخشے عذابوں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی سے جان چھڑوائی بلکہ اس لئے بھی درست ہے کہ ایک مرتبہ پھر باجوہ صاحب کے چھپے ہوئے مارشل لا کے نتیجے میں جو عذاب ملک پر نازل ہوا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی اپنی پارٹی پیش کی۔ اپنے وفاداروں کو اپنی مرضی کے برعکس وہ حکومت قبول کرنے کی اجازت دی جو کانٹوں کا تاج ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب بھی سابق لاڈلے کے بہت سارے لاڈ اٹھائے جا رہے ہیں۔ جس پولیس کو اس لاڈلے کو ڈنڈا ڈولی کر کے اٹھا لے جانا چاہئے تھا وہ پولیس آج تک اس کو پروٹوکول دے رہی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف کو ریلیف دینے میں کوئی آئینی، قانونی یا عدالتی مشکلات ہیں تو ا س پر ایک قہقہہ ہی لگا یا جا سکتا ہے۔ یہ مشکلات کسی مہذب اور جمہوری ملک میں ہوسکتی ہیں مگر ہم تو ایک بناناری پبلک میں رہتے ہیں۔ یہ کچھ لوکچھ دو پر چلنے والی ریاست ہے۔ نواز شریف نے اسے بہت کچھ دے دیا ہے ااور وہ اب بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ ان کے احسانات کا بدلہ چکایا جائے جیسے سورہ رحمن میں ارشاد ہے کہ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.