27 دسمبر: پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم کا قتل

37

27 دسمبر2007 ءکی وہ خونیں شام جب پاکستان کی سیاسی بصیرت محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے اُسی لیاقت باغ میںشہید کردیا گیا جہاں اُن سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا ۔یہی نہیںاسی باغ سے تھوڑے فاصلہ پر قائد عوام چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں پھانسی دی گئی تھی جو بعد ازاں ”عدالتی قتل “قرار دیا گیا۔لیاقت باغ کی مقتل میں یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدہ ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرنے کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی آخری تقریر اتنی مدلل اور جذباتی تھی کہ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے بدترین مخالفین (مجیب الرحمان شامی)نے بھی اُسے نصاب میں شامل کرنے کا مشورہ دیا۔محترمہ گاڑی میں سوار ہوئیں اور پھر لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر گاڑی کی چھت سے باہر سر نکال کر نعروں کا جواب دیا تو نزدیک کھڑے دہشت گرد نے اُن پر فائرنگ کردی جس سے محترمہ گاڑی کے اندرگر گئیں ۔ایک خوفناک دھماکے نے ہر منظر دھواں دھواں کردیا۔زخمیوں کی چیخ و پکارسے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔محترمہ کو لیاقت شہید ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکیں۔پاکستانی سیاست کی لیڈی ڈیانا ہر گھر کو سوگوار کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے منوں مٹی تلے چلی گئیں۔چاروں صوبوں کی زنجیر پاکستان کی سوگوار فضاﺅں میں بکھر گئی۔اسلامی تاریخ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم نامعلوم ” مردوں “ کے ہاتھوں ماری گئیں لیکن اُن کا یہ اعزاز دنیا کا کوئی جابر یا آمر قیامت کی صبح تک نہیں چھین سکتا۔
موت کیا ہے ؟ ہم ایک لبا س اتار کر دوسرا اوڑھ لیتے ہیں۔جسم فنا ہو جاتے ہیں لیکن انسان تو جسم اورافکا ر کے مجموعہ کا نام ہے ۔عام انسانوں کے صرف جسم ہوتے ہیں لیکن خاص انسانوں کے صرف جسم ہی نہیں افکاربھی وجود رکھتے ہیں۔عام انسان کی موت کے ساتھ ہی اُس کا وجود پریشاں ہو جاتا ہے اور اُس کا نام گمنامیوں کی تاریک غار میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتا ہے لیکن خاص انسان کی جسمانی موت کے ساتھ ہی اُس کے افکار ، عالم میں چہار سُو بکھر جاتے ہیں، پھول کی خوشبو کی مانند،سورج کی روشنی کی طرح۔اُس کے اقوال ِ زریں امیر کے محل اور غریب کے جھونپڑے پر رحمت باری کی طر ح یکساں برستے ہیں۔خاص انسان خود انسانوں کی مکمل تاریخ ہوتے ہیںاور اس کا احساس پاکستانی قوم کو محترمہ کی زندگی میں تو شاید بہت کم ہو ا ہو لیکن اُن کی موت پر ہر گھر سے اٹھانے والی آہ و بکا نے ثابت کردیا کہ ہم اُس سیاسی حور سے غیر محسوس محبت کرتے تھے ۔جس کا ادراک اُس کی زندگی میں ہمیں نہیں ہو سکا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کسی فضائی یا ٹریفک حادثے میں پاکستانی عوام سے جدا نہیں ہوئیں بلکہ اُنہیں قتل کیا گیا۔ اُن کے قتل کے ایک دو نہیں کروڑوں چشم دید شہادتی پاکستان کے ہرگھر میں موجود ہیں لیکن اس عظیم سانحہ کے صرف چند منٹ بعد ہی جائے وقوعہ کو مل مل کر دھو دیا گیا ۔اِ س سانحہ کے چودہ دن بعد لاہور ہائیکورٹ کے باہر پولیس ملازمین پر خودکش حملہ ہوا ، ایف آئی اے ہیڈآفس کی بلڈنگ پر حملہ کیا گیا، ون فائیو لاہور کی عمارت خود کشوں نے اڑا دی لیکن اِ ن رستوں کو ہفتوں تک عوام کیلئے بند کر دیا گیا اور پاکستان کے تمام محب وطن ادارے شواہد جمع کرتے رہے لیکن محترمہ کی شہادت کے فوراً بعد جائے وقوعہ کو فائر بریگیڈ کی گاڑیوں سے دھلوا کر کرائم سین ختم کرنا انتہائی مشکوک حرکت تھی۔کراچی میں محترمہ شہید پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد اُن کے شوہر اوربعد ازاں صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری نے اسے ایجنسیوں سے منسوب کیا ۔مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اُس وقت ہسپتال میں موجود اور پریشان تھے اُن کی ہم منصب کا جسد خاکی اُن کے سامنے جامد و ساکت پڑا تھا ۔عمران خان ملک میں ہونے والے ہر اہم واقعہ ،سانحہ اور حادثہ کے وقت ہمیشہ کی طرح ملک سے باہر تھے اُنہوں نے اپنا تعزیتی بیان بھی بھارتی میڈیا کو ریکارڈ کرایا۔مسلم لیگ ق کے سر براہ چودھری شجاعت حسین نے اُس حملے کو محترمہ شہید کا اپنا ”کارنامہ “قرار دیا ۔جسے عوام نے پاگل پن سے تعبیرکیا۔ہسپتا ل کے ڈاکٹروں نے ابتدائی رپورٹ میں موت کی وجہ گولی لگنے سے بتائی لیکن
بعد ازاں وہ اِس سے مُکر گئے ۔سیکرٹری داخلہ کمال شاہ نے تو کمال ہی کردیاتھا کہ اُنہوں نے گاڑی میں موجود کسی نامعلوم لیور کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا قاتل قرار دے دیا جبکہ گاڑی بنانے والی کمپنی نے بتایا کہ گاڑی میں سرے سے کوئی ایسا لیور موجود ہی نہیں تھا۔سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف نے اس سانحے کو انتہائی افسوس ناک قراردیتے ہوئے محترمہ کا پوسٹمارٹم کرانے کی تجویز اُن کی تدفین کے بعد دی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کوئی گھریلوخاتون تو تھی نہیں کہ جنہیں گھر کے اندر کوئی حادثہ پیش آیااورگھر والے پوسٹمارٹم کرانے پر راضی نہ ہوئے ۔وہ دو بار پاکستان کی وزیر اعظم رہ چکی تھیں ۔پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی چیئر پرسن تھیں،اُن کا پوسٹمارٹم کرانا ریاست ِپاکستان کی ذمہ داری تھی ۔لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ محترمہ شہید کا پوسٹمارٹم بھی تو اسی مشینری نے کرنا تھا جو پہلے ہی اُن کی موت کی تصدیق گولی لگنے کے بیان سے مکر چکی تھی ۔سکاٹ لینڈ یارڈ نے اس کھلے قتل کی چھپی تحقیقات کیں اور اُسی رپورٹ کی ”ڈوپلیکیٹ کاپی“ نام کی تبدیلی کے ساتھ تھما کرچلے دئیے جو اُنہوں نے لیا قت علی خان شہید کے قتل میں تھمائی تھی۔صدر آصف علی زرداری نے صدر پاکستان بننے کہ بعد یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ وہ محترمہ بے نظیربھٹو کے قاتلوں کوجانتے ہیںلیکن اُنہوں نے قاتلوں کے نام نہیں بتائے یا تو وہ اپنے سیاسی محالفین کواس بیان سے خوفزدہ کرنا چاہتے تھے یا پھر محترمہ کے قاتل آج بھی اُن سے زیادہ طاقتور ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹوکو ذوالفقار علی بھٹو مقتول نے 21 جون1978 کو اُن کی سالگرہ پر ایک خط راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل سے لکھا جس کے کچھ اقتباسات یوں ہیں: ”نہرو بھی اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے۔ نہرو نے بھی جیل سے اسے پیدائش پر تہنیت کا پیغام بھیجا تھا۔جکارتہ سے چودہ سال پہلے میں نے جو خط لکھ تھا اُس میں، میں نے تمہیں متنبہ کر دیا تھا کہ میں نہرو کی نقالی نہیں کر رہا ہوں۔ میں نے ان کی نقالی اس وقت بھی نہیں کی تھی اور نہ ہی اب میں ان کی پیروی کر رہا ہوں۔بے شک اس وقت میں بھی جیل میں ہوںاور وہ بھی اس وقت جیل میں ہی تھے جب انہوں نے اپنی بیٹی کوخطوط لکھے تھے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تذبذب نہیں کہ میری بیٹی جواہر لال نہرو کی بیٹی کے مقابلے میں جن کو بھارت کی دیوی کہا جاتاہے ،کہیں بہتر ہے۔میں کوئی جذباتی یا ذاتی قسم کا اندازہ نہیں لگا رہا ہوں ۔یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے۔ تم میںاوراندرا گاندھی میں ایک قدر مشترک ہے کہ تم دونوں یکساں طور پر بہادر ہو۔ تم دونوں پختہ فولاد کی بنی ہوئی ہو، یعنی دونوں کی قوت ارادی فولادی نوعیت کی ہے ۔تمہاری صلاحیت و ذہانت تمہیں اعلیٰ ترین مقام پر پہنچائے گی لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیںجہاںذہانت و صلاحیت ایک نقص شمار ہوتی ہے اور دم گھونٹ والی معمولی ذہانت ایک اثاثہ شمار کی جاتی ہے۔سوائے تمہارے والد ، قائد اعظم اور شاید سہروردی کے اس ملک پر حکومت شعبدہ بازوں اور کپتانوں نے کی ہے۔ شاید اس صورت حال میں تبدیلی پیدا ہو جائے اگر کوئی جنگجو قسم کا جوان جدوجہد کا آغاز کرے ۔ اگر حالات تبدیل نہیں ہوتے تو پھر تبدیل کرنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گایا تو اقتدار عوام کو حاصل ہو گا یا پھر ہرشے تباہ وبرباد ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو،جب تک کہ تم زمین چومنے کیلئے تیار نہ ہو یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو۔تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم اس زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو۔میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں۔میں عوام کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہوں۔وہ فوجی جو فوجی بارکوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور سرکاری محلوں میں رہتے ہیں، وہ جنگیں ہار جاتے ہیںاور جنگی قیدی بن جاتے ہیںجیسا کہ 1971ءمیں ہوا تھا۔ پاکستانی فوج کے جنرلوں نے تاریخ دوہرانے کا تہیہ کر رکھا ہے“۔ پاکستانی جرنیلوں بارے بھٹومقتول کے الفاظ تاریخی اہمیت اختیار کر گئے کیوںکہ جب محترمہ کو شہید کیا گیا اُس وقت بھی ایک فوجی آمر ملک پر حکومت کر رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مقتول نے بیٹی کو مٹی سے محبت کا درس دیا تھا اور اسے محترمہ شہید نے مرتے دم تک نہیں بھلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو مقتول نے عوام کا ہاتھ محترمہ شہید کے ہاتھ میں دیا تھا اور یہی وہ ہاتھ تھا جسے عوام کیلئے لہراتے ہوئے ،پاکستانی عوام کے سامنے اُنہوں نے دم توڑ دیا۔

تبصرے بند ہیں.