دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہنے والی واحد خاتون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔آج ان کی 15 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے اور معتمدین آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہیں ، کیوں کہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں،انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر بھی تھیں۔انہوں نے پاکستان کے طول وعرض میں سیاسی فراست، ذہانت اور سوجھ بوجھ کے انمٹ نقوش ثبت کیے اور وقت کے ساتھ ان کی عزت و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیا۔وہ ایک ایسی قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ بی بی شہید عالمی سطح کی شخصیت تھیں اور پاکستان کی نمایاں آواز تھیں۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں اور لوگوں میں فاصلے کم کرنا اور انہیں قریب لانا جانتی تھیں۔ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ہر معاملے میں فاصلوں کو کم کرنا اور مثبت اندازِ فکر کو اپنانا ہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ ان کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے ملک کو ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو راقم کی آئیڈیل شخصیت تھیں، میں نے ان کے ساتھ سیاست کے عروج و زوال دونوں دیکھے ہیں۔ جب وہ زندہ تھیں تو سیاسی بصیرت کے حوالے سے ان کا کوئی نعم البدل نہیں تھا…. یہاں تک کہ جب وہ زندہ تھیں اور پریس کانفرنس کے لیے آتیں تو ہر اخبار، ٹی وی چینل اور ریڈیوپر بے نظیر بھٹو کو دیکھا اور سنا جاتا تھا، لوگ ان کی حاضر جوابی، نفاست اور سیاسی دانشوری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ وہ پارٹی کو متحد کیے رکھتی تھیں، وہ جیالوں کو پارٹی کا سرمایہ سمجھتی تھیں یہی وجہ ہے کہ محترمہ کے ہوتے ہوئے ان کی سیاست و پارٹی ”نیلام گھر“ نہیں بنے تھے ، اور نہ ہی آج پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی طرح پارٹی میں ”نیلام گھر شو“ دکھاتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرز سیاست و حکومت سے کئی ہزار اختلا ف کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن وہ ایک معرکة الآرا، یگانہ روزگار خاتون، انسان، سیاستکار اور لیڈر تھی۔ وہ واقعی قلعہ بند گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے عوام کے درمیان ایک دن کی زندگی پر یقین رکھنے والی تھی۔بقول شاعر
شہر کے غریبوں میں اک امیر جیسی تھی
بے نظیر بھٹو بس بے نظیر جیسی تھی
محترمہ کی زندگی میں ان سے کئی سیاسی غلطیاں بھی ہوئی تھیں، جن کا ذکر ضرور کرنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کہ کوئی سیاستدان کس طرح پہلے ”رولنگ سٹون“ بنتا اور بعد میں پالش ہوتا ہے۔ 1986میں محترمہ پاکستان آئی اور لاہور میں ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی، یہ استقبال اسی لیے تھا کہ محترمہ یعنی پیپلزپارٹی عوام کی امید تھی، لیکن 1988 کا الیکشن جیسے ہی آیا محترمہ اپنے تمام تروعدے بھول گئیں، اور فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں آگئیں، انہوں نے امیر، برادری والے اور مضبوط امیدوار تلاش کیے ،محترمہ نے اس دوران کسی کی پرواہ نہیں کہ کس کس نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، کس کس نے کوڑے کھائے اور کون کون جیلیں کاٹتا رہا، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ 1988 میں پیپلزپارٹی کا ورکر پہلی مرتبہ Damage ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر کو ہوش ہی نہیں آنے دی۔ یعنی دو بڑی پارٹیاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں مقابلے کی سیاست شروع ہو گئی اور ایک دوسرے کے خلاف سیکڑوں مقدمات درج ہوئے۔ اور پھر اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو عام سیاسی کارکن کو بھول کر دفاعی پوزیشن میں چلی گئیں اور اور آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی اپنے بچاﺅ کی جنگ لڑتی رہی، بلکہ یوں کہیں کہ پیپلزپارٹی ، پیپلزپارٹی نہیں رہی بلکہ زرداری صاحب کی پارٹی بن گئی۔ اس استحصال کی وجہ سے جیالے کارکن نہ ہو نے کے برابر رہ گئے، کچھ شہید ہوگئے تو کچھ نے پارٹی چھوڑ دی۔جیسے سندھ کی ایم آرڈی تحریک میں سندھ میں بہت سے کارکن شہید ہوئے ، کیا ملا انہیں ، کچھ نہیں !اس حوالے سے میں دعوے سے کہتی ہوں کہ پیپلزپارٹی کے پاس ان ورکرز یا جیالوں کی کوئی لسٹ بھی نہیں ہوگی جنہوں نے بی بی پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ آج بھی ان کے بچے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی شرفا کے حوالے ہے، بلکہ محترمہ کے بعد تو پیپلزپارٹی جیسے شرجیل میمن ، اویس ٹپی، ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگئی ہے۔
قصہ مختصر کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی دو طرح کی رہی ہے، جب پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جب یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مفاد پرست آجاتے ہیں، تبھی یہ پارٹی آج ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، لہٰذااگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو یقینا وہ مزید پالش ہو چکی ہوتیں، ان میں نکھار آچکا ہوتا، لیکن اب محترمہ نہیں ہیں تو پیپلزپارٹی کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور اپنے جیالوں کو وہ حقوق دینے چاہئیں جس کے وہ حقدار ہیں ورنہ صوبہ سندھ بھی ان کے ہاتھ سے جانے میں دیر نہیں لگے گی۔
اور آخر میں یہ بات کرتی چلوں کہ میں محترمہ کے حوالے سے اس لیے جذباتی نہیں ہوں کہ ان کا قتل ہوا، وہ ایک قومی لیڈر تھیں، محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی شاندار چہرہ تھا اور ہمارے ملک کے لئے ایک روشن مستقبل کے لئے ایک ذریعہ تھا وہ نہ صرف دنیا میں ریاستوں کے سب سے کم عمر کے سر میں سے ایک تھا لیکن وہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔بقول شاعر
وقت کے گزرنے پر تم جو بھول جاﺅ گے
ہم تمہیں بتائیں گے بے نظیر کیسی تھی
شہر کے غریبوں میں اک امیر جیسی تھی
بے نظیر بھٹو بس بے نظیر جیسی تھی
تبصرے بند ہیں.