پاکستان کومشرقی سرحدکے ساتھ مغربی سرحدسے بھی چیلنجزدرپیش ہیں اس کے ساتھ ساتھ سفارتی، سیاسی،تجارتی اور معاشی حوالوں سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔اوردوسری طرف دہشت گردی کاعفریت پھرپھن پھیلائے کھڑاہے۔اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان ہماری معیشت کوہورہاہے،ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے معیشت کے حوالے سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
گزشتہ چارسال میں عمران خان کی ناکام معاشی پالیسی ونااہلی،دوسال کروناکے جھٹکوں،عمران ن خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی افراتفری،بدترین سیلاب اوربارشوں کی تباہی،پنچاب میں سیاسی دنگل،صوبوں کی طرف سے وفاق کے خلاف بغاوت، ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ، اہم عسکری تعیناتی پر سیاست، خونی انقلاب اور لانگ مارچ کے اعلانات اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔
کاروباری اعتماد کے حوالے سے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے حالیہ سروے میں کہا گیا ہے کہ ریٹیل اور پیداواری شعبے میں کاروباری اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے اور پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے اپنی تشویش کا اظہار کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی سطح پر معیشت کے حوالے سے کی جانے والی بیان بازی اور ملک کے دیوالیہ ہونے سے متعلق بیانات ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مجروح کرررہے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے اورممالک باربارہمیں متنبہ کررہے ہیں کہ معاشی اصلاحات میں بہتری لائی جائے۔دوست ممالک معاشی صورتحال سے بچنے کے لیے تعاون کرنے کوتیارہیں مگروہ سیاسی خلفشا رسے پریشان ہیں۔ سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کی بہت ضرورت ہے۔ ہم معاشی استحکام کے لیے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
ملک کی معاشی صورتحال کے بہتری کے حوالے سے جوں ہی کوئی پیش رفت ہوتی ہے توسیاسی دہشت گردی میں اضافہ ہوجاتاہے،جس کے بعد معاشی سرگرمیاں رک جاتی ہیں اورسرمایہ کارملک سے بھاگ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اتحادی حکومت مسلسل کوششوں کے باوجود ملکی برآمدات میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی
پاکستان بیورو برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ نومبر کے دوران سالانہ بنیاد پر برآمدات میں 18.34 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ ماہانہ بنیادوں پر برآمدات میں 63 فیصد کمی ہوئی۔ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران برآمدات میں 3.48 فیصد کمی ہوئی تھی اور گزشتہ ماہ نومبر کے دوران برآمدات 2 ارب 36 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہیں جبکہ جولائی سے نومبر کے دوران برآمدات کا حجم 11 ارب 93 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہا۔ گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران ملکی برآمدات 12 ارب 36 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہیں۔
دوسری طرف ملکی تجارتی خسارہ میں رواں مالی سال کے پہلے 5 مہینوں میں سالانہ بنیادوں پر 30 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ملکی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 3 فیصد اور درآمدات میں 32.98 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران تجارتی خسارے کا حجم 14.41 ارب ڈالر ریکارڈ ہوا تھا جو پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد کم رہا تھا۔ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران تجارتی خسارے کا حجم 20.62 ارب ڈالر ریکارڈ ہوا تھا۔اعدادوشمارکے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملکی درآمدات میں سالانہ بنیادوں پر20 فیصدکی کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ جولائی تا نومبر2022 تک کے عرصے میں ملکی درآمدات کا حجم 26.34 ارب ڈالر رہا تھا جو پچھلے برس کی اسی مدت میں 32.98 ارب ڈالر رہا تھا جبکہ گزشتہ نومبر میں درآمدات پر 5.25 ارب ڈالر استعمال ہوئے تھے جو اکتوبر کے مقابلے 11 فیصد زیادہ جبکہ گزشتہ برس نومبر کے مقابلے میں 34 فیصد تھا۔
جب برآمدات اوردرآمدات میں توازن نہیں ہوتاتوتجارتی خسارہ بڑھ جاتاہے ادارہ شماریات کے جاری کردہ تجارتی اعدادوشمار کے مطابق امسال جولائی سے نومبرتک تجارتی خسارہ 20 ارب 59 کروڑ ڈالرزتک پہنچ گیاہے، گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے تجارتی خسارہ 111.74 فیصد بڑھا ہے اور جولائی سے نومبر تک برآمدات 12 ارب 34 کروڑ ڈالرز رہیں۔ادارہ شماریات کا بتانا ہے کہ اسی دوران درآمدات کا حجم 32 ارب 93 کروڑ ڈالرز رہا جب کہ 5 ماہ میں گزشتہ برس کے مقابلے برآمدات میں 26.68 فیصد اضافہ ہوا، جولائی تا نومبرگزشتہ برس کے مقابلے میں درآمدات 69.17 فیصد بڑھیں۔نومبر 2021 میں برآمدات 2 ارب 88 کروڑ ڈالرز رہیں اور نومبر2021 میں 7 ارب 84 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کی گئیں جب کہ نومبر2021 میں تجارتی خسارہ 4 ارب 96 کروڑ ڈالرز رہا۔
ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان کو درآمدات کی مد میں رقم کی ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوتی ہے مگر سمگلنگ اورذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ڈالرزمارکیٹ سے غائب ہورہا ہے ڈالروں کی افغانستان سمگلنگ کا معاملہ اس قدر گمبھیر شکل اختیارکرگیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے اور ڈالر کی شرح تبادلہ سنبھلنے میں نہیں آرہی۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود رہتا تو الگ بات تھی۔ زرعی اجناس جیسا کہ چاول اور گندم کوغیر قانونی طریقے سے سرحد پار لے جایا جارہا ہے۔یوں پاکستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگی گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے اور اس سے امپورٹ بل میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہم اگراپنی برآمدات کاجائزہ لیں توپڑوسی ممالک کی بہ نسبت ہم بہت پیچھے ہیں وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان نے ترقی کی ہے مگریہ وہ ترقی نہیں ہے کہ جس سے ہم اپنے ملک کوخوشحال کہہ سکیں اگر اعدادو شمار کو دیکھا جائے توبرآمدات مالی سال 1950 میں میں 16 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھیں تو مالی سال 2022 میں یہ برآمدات محض 31 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچی ہیں اسی طرح درآمدات مالی سال 1950 میں 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھیں جو کہ بڑھ کر مالی سال 2022 میں 80 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکی ہیں۔بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات مالی سال 73 میں 14 کروڑ ڈالر تھیں جو کہ بڑھ کر مالی سال 2022 میں 31 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگئی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ پاکستان معاشی و سیاسی حوالے سے بظاہر ایک طویل بحران میں داخل ہو گیا ہے، ملک میں انتخابات ہوبھی جائیں تو معاشی و سیاسی بحران ٹلنے والا نہیں، مخدوش حالات برقرار رہے تو صورتحال بے قابو ہونے کا خطرہ ہے صورتحال پر اگر فوری قابو نہ پایا گیا اور مخدوش حالات اسی طرح پنپتے اور بڑھتے رہے تو صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور دشمن قوتیں صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سال 2022 معاشی لحاظ سے ایک سخت سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال پاکستان کی معیشت کو متعدد مسائل کا سامنا رہا۔ بیرونی ادائیگیوں کے مسائل پاکستان کے لیے شدید تر ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے زرِمبادلہ کا حصول کو مشکل کردیا ہے۔ مگر سال 2022 میں پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے زہر ِقاتل ثابت ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کاروباری حلقوں کی جانب سے ملک میں میثاقِ معیشت پر سیاسی اتفاق رائے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.