آخری اُمید

33

پروٹوکول کے جلو میں چلتے، سکیورٹی کے حصار میں سفر کرتے قلعہ نما گھروں کے باسی پولیس کے اعلیٰ افسران کیا جانے کہ اس خاندان کے جذبات کیا ہوں گے،جس کے گھر رات کے آخری پہر میں مسلح ڈاکو گھس آئیں،وہ ان کے رحم وکرم پر ہو،بچوں کے سامنے وہ بندوق کی نوک پر والدین سے بد تمیزی کریں،بھائیوں کے سامنے بہنوں سے دست درازی کریں،سب کچھ چھین کر بھی ان پر تشدد کریں،ناکامی کی صورت میں فیملی کے کسی فرد کو فائر کردیں،ماں کے سامنے بیٹے پر گولی چلا دیں،رات کی تاریکی اور دن کی روشنی میں سر بازارموبائل،پرس، زیورات،قیمتی اشیاء بمعہ متاثرین کی سواری لوٹ کر فرار ہو جائیں۔ کسان کے سامنے اس کے جانوروں کو گاڑی میں ڈال کرلے جائیں،ڈکیتی کرتے ہوئے یہ دھمکی بھی دیں کہ اگر پولیس کو مطلع کیا بُرے انجام کا خیال کر لینا، پولیس سکیورٹی گارڈ کے اس کنبہ کی بے چارگی سے بھی لا علم ہوتی ہے جسے بنک ڈکیتی کے موقع پرگولی چلا کر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔جسکی ماہانہ آمدنی چند ہزار ہوتی ہے،اس کی موت کے بعد ریاست بھی اسکی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہے۔
سامراجی کلچر میں لتھڑے اور بدیشی قانون میں گوندھے نظام پولیس میں تفتیش کے مرحلہ سے گزرنا”واردات“کے مرحلہ سے زیادہ تکلیف دہ ہے،تھانہ کے درو دیوار ہی شرفاء کے لئے خوفناک ہیں، اس کی”داستانیں“ سن کرویسے ہی متاثرہ خاندان کادل بیٹھ جاتا ہے، سفارش، رشوت کا ایسا جہاں آباد ہے کہ کوئی بھی شہری بغیرسیاسی رابطہ کے تفتیش کے دائرہ میں داخل ہونے کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے، او ر یہ گمان کرتا ہے کہ تگڑی سفارش اور افسران کی مٹھی گرم کئے بغیرتفتیشی سے انصاف کی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی۔
ملزم تو کیا مدعی کا بھی حوصلہ نہیں ہوتا کہ تفتیش کے مراحل سے گزرے،تعلیم یافتہ افراد کی مذکورہ محکمہ میں شمولیت کے بعد یہ اُمید پیدا ہو ئی تھی کہ اب تھانے کا فرسودہ نظام بدل جائے گا،مگر یہ آرزو خواہش ہی رہی۔
واقفال حال کہتے ہیں کہ پولیس کے اندر بھی ”آسائشوں اور آلائشوں“کا نویلا شہر آباد ہے،جس طرح جیل ”ماڑے“ کے لئے جہنم اور طاقتور والے کے لئے جنت ہے، اسی پیرا میٹر پر پولیس کے چند ”کرم فرماؤں“ نے بھی اپنی دنیا آپ پیدا کرکے بہت سے بااثر افسران اور اہلکاروں کے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں، پی آر شپ نہ رکھنے والے کے لئے وہاں بھی اتنی مشکلات ہیں جتنی ایک
شریف النفس مدعی کو تفتیش میں ہوتی ہیں، چھٹی لینے سے لے کر پسند کی پوسٹنگ،ڈیوٹی میں ریلیف،میڈیکل پر چھٹی جانا یہ وہ مرحلے ہیں،جن کے طے کرنے میں بڑی ریاضت کی ضرورت ہے۔
اہل تفتیش فرماتے ہیں کہ فنڈ کی کمی، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی،ڈیوٹی کے اضافی اوقات کار وہ مسائل ہیں جو عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں،اس میں سیاسی دباؤ شامل نہیں جسکی نذر قریباً ہر پولیس آفیسر اور اہلکار کو ہونا پڑتا ہے اب اس کو بھی فرائض منصبی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔گویا اس حمام میں سب ایک ہی طرح کی اذیت سے گذرتے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایک شہری نے معززعدالت عظمیٰ میں ایک درخواست گذار کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے باز رکھا جائے،سیاسی بنیادوں پر انکے تبادلہ جات نہ کئے جائیں پولیس آرڈیننس2002 کی کھلی خلاف ورزی ہے،جسمیں پولیس ملازمین کی پوسٹنگ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اسکی خلاف ورزی ہو رہی ہے، جس میں ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک کے تبادلہ جات کئے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے گذشتہ آٹھ سال کے مابین سیاسی بنیادوں پر ہونے والے پوسٹنگ آڈرز کی رپورٹ طلب کی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سابقہ چار برس میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلہ جات پنجاب میں ہوئے ہیں، یہی صورت حال لاہور کی ہے جہاں ایس ایچ اوز کی ایک تھانہ میں پوسٹنگ کا دورانیہ تین ماہ بنتا ہے جبکہ ڈی پی اوز کی مدت ضلعی مقام پر پانچ ماہ بنتی ہے،درخواست گذار کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ اس عمل سے پولیس کی کارکردگی انتہائی متاثر ہوتی ہے، اس کی شہادت بڑھتے ہوئے جرائم سے ملتی ہے،بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا کہ سیاسی مداخلت کا بڑا نقصان یہ ہے کہ ملازمت کی آڑ میں کچھ اہلکار جرائم کی دنیا کے”حقیقی بادشاہ“ سمجھے جاتے ہیں، معزز عدالت عظمیٰ میں اسی نوعیت کا ایک کیس پولیس ڈیپارٹمنٹ سے متعلق زیر سماعت ہے، جس میں ایک کانسٹیبل کی نوکری کی برخواستگی کے خلاف دائر کی گئی ہے جو ایک ڈکیتی میں ملوث پایا گیا ہے،معزز جج نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکوبھرتی ہوں گے تو ادارے کیسے کام کریں گے؟
اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ لاہور میں جرائم کی شرح میں 200فیصد اضافہ ہوا ہے، پانچ سال کے دوران2ہزار سے زائد قتل کے مقدمات کا اندراج ہوا ہے۔شاہراہوں پر لوٹ مار کی وارداتیں 123 فیصدبڑھی ہیں،2021 میں سڑیٹ کرائم کے تین ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں، قابل توجہ یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں میں 8 سے 15 سال کے بچے چوری، جیب تراشی،اٹھائی گیری میں ملوث ہیں ان میں سے بعض بڑی وارداتوں میں شامل ہیں، محتاط اندازے کے مطابق اس وقت1424بچے بورسٹل جیلوں میں بند ہیں، ان میں بڑی تعداد پنجاب سے شامل ہے، قیمتی موبائل خرید کرنا، اچھی ہوٹلنگ کرنا اور کلاس فیلوز کے طعنے اور بچوں پر تشدد، جرائم کی دنیا میں اترنے کی وجوہات ہیں۔
جرائم پر قابو پانے کے لئے سرکار نت نئی فورسز قائم کر رہی ہے، بھاری بجٹ مختص کرنے کے باوجود صورت حال حوصلہ افزا نہیں، عمومی رائے یہ ہے کہ رات آخری پہر میں ڈکیتی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں، اس وقت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، ڈولفن فورس بھی ان اوقات میں کہیں نظر نہیں آتی، اخبار فروش بھی اِن ڈکیت کی ہٹ لسٹ پر ہیں،عالمی سطح پر اس محکمہ کی رینکنگ قابل رشک نہیں ہے،تمام تر اصلاحات نتائج بھی اس شعبہ کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کر سکے ہیں۔
عام فرد جرائم کی دنیا کے باسیوں سے واقف ہے تو شعبہ پولیس لا علم کیوں ہے، بھتہ خور،منشیات میں ملوث،قبضہ مافیاز۔چوری اور ڈکیتی میں شہرت رکھنے والے انکی ناک کے نیچے پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں، مٹھی بھر یہ افراد پورے شہر کی اذیت کا باعث بنے رہتے ہیں۔
ہر سوسائٹی، محلہ،کالونی کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے اپنی جان، مال کی حفاظت کا اہتمام اپنے خرچ پر کر رکھا ہے تو پھر ہر شہری کے وہ آئینی حقوق کہاں ہیں جن کے تحفظ کے لئے یہ محکمہ قائم ہے اور اسے بھاری بھر فنڈز امن وامان کو بر قرار رکھنے کے لئے دیئے جاتے ہیں؟
عدالت عظمیٰ ٰ شہری کی د رخواست پر پولیس میں سیاسی مداخلت کے کیس کی شنوائی کر رہی ہے تو اسے اب منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے،وہ سیاسی قبیلہ جس کے ڈیرے سیاسی مداخلت سے آباد ہیں وہ کبھی بھی اس فعل سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
قوم کی آخری اُمید اب عدالت عظمیٰ ہی سے وابستہ ہے کہ وہ اس شعبہ کا قبلہ درست کرے اور اس کے ذمہ داران وہی کام انجام دیں جس مقصد کے لئے پولیس کا محکمہ بنایا گیا ہے۔بھاری بھر قربانیوں کے باوجود یہ شعبہ عوام میں پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہے اس سوال کا جواب ذمہ داران پر قرض ہے۔

تبصرے بند ہیں.