گڈبائے عمران خان

20

دسمبر 2011ء میں عمران خان نے میریٹ ہوٹل میں تقریرکرتے ہوئے نئے آنے والوں کے سامنے اپنے بانی اراکین کی تذلیل کرتے ہوئے کہا کہ ”کوئی نیا پرانا نہیں جس نے پارٹی میں رہنا ہے رہے اورجو جانا چاہتا ہے چلا جائے“۔ میرے ساتھ کھڑا شاداب جعفری سابق صدر لاہور ٗ احمد علی بٹ بانی رکن و سینئر رہنما اوربانی رکن وسابق صدر لاہورشبیرسیال ایک دوسرے کی شکل دیکھنا شروع ہو گئے۔ عمران خان نے اپنی تقریرمیں یہ بھی باور کرایا کہ تحریک انصاف انہوں نے سیف اللہ نیازی کے ساتھ مل کر بنائی ہے جس بیچارے کو ہم ورکر ز”چیئرمین کا لونڈا“ کہتے تھے۔ جو کبھی کسی جلسے جلوس میں گاڑی سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اُس وقت سیف اللہ نیازی اورعامر کیانی پر پارٹی فنڈ میں خوردبرد کرنے کا الزام ثابت ہوچکا تھا اورفنانس کمیٹی نے انہیں شوکاز کرنے کی سفارش کررکھی تھی لیکن جوعمران خان آج یہ کہتا ہے کہ ”کرپشن نیوٹرل کا مسئلہ ہی نہیں تھا یہ مسئلہ عمران خان کا بھی نہیں تھا۔“ اُس وقت میرے دوست نما استاد یا پھر استاد نما دوست احمد علی بٹ کہا کرتے تھے جمشید ہمارے پاس ابھی تحریک انصاف کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے لیکن آج میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ اگر دوسرا آپشن نہ ہوتو جو آپشن غلط ثابت ہوچکا ہے کیا اُس کے ساتھ ہی چلتے رہنا چاہیے؟ یہ میری غلطی تھی ٗ مجھے اُسی دن پارٹی سے باہر آ جانا چاہیے تھا جس دن عمران خان ورکروں کی مخالفت کے باوجود پرویز مشرف کی حمایت کیلئے اُس کے ریفرنڈم میں چلا گیالیکن جب رنگروٹوں کے ہاتھوں ذلت اٹھانا پڑی تو اُس نے نہ صرف قوم سے معافی مانگی بلکہ وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی کسی فوجی حکمران کا ساتھ نہیں دوں گالیکن 2018ء میں وہ پھر اُسی جال میں پھنس چکا تھا جس کوتوڑنے کا وعدہ اُس نے عوام سے کیا تھا۔ اس نے بلاشبہ فوجی جنتا سے ساز باز کرکے اقتدار لیا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ مانگے ہوئے اقتدار سے آبرومندآنہ اپوزیشن بہت بہتر ہوتی ہے۔ عمران خان نے اقتدار اپنے ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اپنے ”مشکل کشاوں“کو بہت آوازیں دیں لیکن اُسے تویہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اُس پرعدم اعتماد اُسی دن ہو چکا تھا جس دن میاں محمد نواز شریف بحفاظت پاکستان سے چلے گئے تھے اوریقینا یہ انہیں لوگوں نے نکلوایا تھا جنہوں نے ہر جائز ناجائز طریقے سے عمران خان کے ہر مخالف کیلئے پاکستان کی زمین تنگ کر دی تھی۔ میں لاہور میں رہتے ہوئے جونیجو لیگ سے لیکر نوا ز لیگ تک کبھی کسی مسلم لیگ کا حمایتی نہیں رہا لیکن مجھے یہ لکھتے ہوئے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ آپ کشمیریوں کو گلو بٹ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک کشمیری سینیٹر ولید اقبال آپ نے بنایا لیکن وہ تحریک انصاف نہیں ”ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال“ کے
کوٹے میں لگایاگیا ہے۔ لاہور کے صدرکیلئے غلام محی الدین دیوان(جسے سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں) نامی کوئی شخص کشمیر کے پہاڑوں سے لا کر لگا دیا گیاجو بیک وقت لاہور کاصدر اور کشمیراسمبلی کا رکن تھا۔مرکز میں تحریک انصاف کے دورِاقتدار میں پنجاب کے صوبائی درالخلافہ کومکمل لاوارث کردیا گیا اورجن چند لوگوں کو لاہورسے پنجاب اورمرکز میں اقتدار کا حصہ بنایا انہوں نے جہاں ورکرز کونظر انداز کیا وہیں ان کی تذلیل کے نت نئے طریقے بھی دریافت کیے۔
انٹرا پارٹی الیکشن 2013ء میں عمران خان نے الیکشن ہارنے والوں کو انصاف مرکز بنانے کی اجازت دے کر پارٹی کوتقسیم کیا اور لاہورجو سیاست کا حب ہے اس میں پارٹی کے دو دفاترقائم ہو گئے۔ میاں محمود الرشیدجو 1997ء کے انتخابات ہارنے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف کو اُس کے منہ پر ”ڈیڈہارس“ کہہ کر گئے تھے 2008 ء میں انہیں آبرو مندانہ طریقے سے نہ صرف تحریک انصاف میں واپس لے لیا گیا بلکہ بانی رکن شبیر سیال سے استعفا لے کر میاں محمود الرشید کو لاہور کا صدر نامزد کردیا گیا۔ میاں محمود الرشید انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے چار سال تک لاہور کے صدر رہے لیکن انٹر پارٹی الیکشن میں کہیں نظر نہ آئے اور لاہور سے ہارنا شروع ہوئے تومرکزتک ہارتے چلے گئے وہ تو اعجاز چوہدری نے جماعت اسلامی کی پرانی قرابت کی وجہ سے ٗ مرکز میں جا کر انہیں آسرا کرایا تو وہ مرکز میں کسی پنج یا دس ہزاری عہدے کیلئے نامزد کرلئے گئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے تحریک انصاف میں بیک وقت دو دفاتر اور دو ٹیمیں بنا کر کام کیا۔ ایک وہ جن سے بطور سرمایہ کار اور لیبرکام لیتا رہا اور دوسرے وہ جن کو اُس نے اقتدارمیں اپنے ساتھ لے کرجانا تھا۔میری یہ حیرت آج بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کہ عمر بھر دیانتداری کا ڈھول پیٹنے والے عمران خان نے اپنی ساری ٹیم کرپٹ لوگوں سے کیوں بنائی۔ آپ بھی غور کریں تو ایسا نہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف تھا بلکہ اُسے اپنے تابعدار کرپٹ پسند اورسرکش کرپٹ ناپسندتھے جبکہ دیانتدارورکرز اُس کیلئے انتہائی قابل نفرت تھے اور آج بھی ہیں۔جس کی زندہ مثال عمران خان کے پولیٹکل سیکرٹری حافظ فرحت ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان پرہونے والے تشدد میں بنفس نفیس شامل تھے لیکن بعد ازاں قاضی حسین احمد کے اثر انداز ہونے پر معافی تلافی ہونے کے بعد عمران خان کے بھانجے اور حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے حسان نیازی کے ساتھ دوستی کے نتیجہ میں چیئرمین تحریک انصاف کے بھانجے بن بیٹھے اور پھر 2010 ء کا سیلاب تھا ٗجیو کے ساتھ مل کر جوائنٹ ایڈونچر پکار کے نام سے تھی جس میں منصورہ کارہائشی ورکنگ کلاس کے مزدور کا بیٹا کروڑوں کے مکان میں رہنا شروع ہو گیا۔ جس نے زندگی میں ایک دن بھی کوئی کام نہیں کیا اُس کے پاس کروڑوں روپے کہاں سے آئے اس کی منی ٹریل عمران خان نے کبھی نہیں مانگی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ابتدا میں ہمارا نعرہ معاشی انصاف سے۔۔عدالتی انصاف تک تھا۔ اوراس کے ساتھ ہی اقتدارمیں عوام۔۔احتساب سرعام جیسے دل کش سلوگن بھی ہمارے لیٹرہیڈز پر لکھے ہوتے تھے۔لیکن خواب کی تعبیر کا وقت آیا توعمران خان نے ہر وہ کام کیا جس پر وہ خودبے رحم تنقید کیا کرتا تھا۔
ابتدا میں عمران خان کا موقف تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں لیکن اُس وقت بھی تحریک انصاف میں مختلف جماعتوں سے آئے ہوئے لوگ ہی تھے۔1997 ء کے انتخابات میں تمام حلقوں سے الیکشن ہارنے کے بعد دوسری پارٹیوں سے آئے سیاسی ورکرز اور ”نامور صحافیوں“ کی کھیپ کہیں گمنامی میں کھو گئی اورانہوں نے واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھا لیکن فورسیزنل سیاسی ورکر بچ گئے اور یہ مختصر سا قافلہ راہی ملک اقتدار ہوا۔ 1998-99 میں جی ڈی اے (گرینڈ ڈیمور کریٹک الائنس) بنا تو اُس میں سوائے ایم کیو ایم اورمولانا فضل الرحمان کے وہ تما م سیاسی جماعتیں موجود تھیں جن کو عمران خان بدترین کرپٹ تصور کرتے تھے اُس وقت پاکستان میں مسلم لیگ نون کی دو تہائی اکثریت اقتدار میں تھی۔جی ڈی اے کے جلسوں میں ہمیں رنگ رنگ کی باتیں سننا پڑتیں جو ہمارے موقف اور نظریے کے خلاف تھیں لیکن یہ ایک نیا تجربہ تھا۔بالکل کولڈ وارجیسا جس میں اپنے اتحادیوں کے خلاف انفرادی حیثیت میں روزانہ کی بنیاد پرنفرت انگیز خبریں بھی بھیجتے تھے لیکن جی ڈی اے میں عمران خان سب کے ساتھ تھا سوائے مسلم لیگ نون اورایم کیوایم اورمولانا فضل الرحمان کے کیوں کہ یہ دونوں جماعتیں نون لیگ کی دو تہائی اکثریت کے باوجود حکومتی اتحاد کا حصہ تھیں۔پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد عمران خان اپنے ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے ساتھ چلا گیا۔ جس کے نتیجہ میں اقتدار کی مکھیوں سے پی ٹی آئی کے دفاترکے باہر گاڑیوں کے رشک لگ گئے لیکن الیکشن 2002ء سے پہلے ہی مسلم لیگ ق کا قیام اور عمران خان سے کیے گئے وعدے وفا نہ ہوسکے جس کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں تحریک انصاف کے امیدواران میں سوائے عمران خان کے ایک بھی قابل ذکر نام نہیں تھا۔ عمران خان میانوالی سے الیکشن جیت کر پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچ گیا اسی الیکشن میں طاہر القادری نے بھی لاہور سے میدان مار لیا تھا لیکن بعد ازاں استعفا دے دیا اور اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے سابق صدر فاروق امجد میر ق لیگ کے امیدوار تھے۔ جنرل الیکشن 2002 ء کے بعد لاہور میں تحریک انصاف کی کوئی تنظیم نہیں تھی لیکن پھر تحریک انصاف کے بانی اراکین نے اچھرہ آفس میں لاہور کی تنظیم بنائی اورکام شروع کیا اورکچھ ہی عرصہ بعد لاہور کی150 یونین کونسلز میں تنظیم کھڑی کردی گئی جو خود عمران خان کیلئے حیران کن تھا۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.