جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف کی حیثیت سے چھ سال کی معیاد جس میں تین سال کی معمول کی معیاد کے ساتھ تین سال کی توسیع شدہ معیاد بھی شامل ہے کی تکمیل پر ریٹائرڈ ہو کر اپنے عہد ے کی کمان اپنے جانشین جنرل سید عاصم منیر شاہ کے حوالے کر چکے ہیں۔ میڈیا میں ان کے چھ سال کے عہد کے بارے میں کئی طرح کے تبصروں، تجزیوں اور جائزوں کا سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اس صورتحال میں مجھ جیسے ان کے سکول کے زمانے کے ایک استاد کی طرف سے اگر کسی خیال آرائی کا اظہار کیا جاتا ہے تو کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ہوگی۔ ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ نومبر 2016ء میں ان کی بطورِ آرمی چیف تعیناتی پر انھیں ہدیہ تبریک پیش کیا تھا تو ان کی اس عہدے سے سبکدوشی پر بھی کچھ نہ کچھ ضرور کہنا چاہیے۔
میری مئی 2015ء میں جب جنرل باجوہ تھری سٹار ز جرنیل کی حیثیت سے کمانڈر 10کور راولپنڈی تھے تو ان سے ان کے سکول کے زمانہ طالبعلمی کے تقریبا ً چار عشرے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ ایف جی سر سید سیکنڈری سکول راولپنڈی میں نو تعمیر کردہ لائبریری کا افتتاح کرنے کے لیے تشریف لائے تو میں ان کے سکول کے زمانے کے چند ایک بقیدِ حیات اور دستیاب اساتذہ کے ساتھ وہاں مدعو تھا۔ ان سے ہاتھ ملانے کی باری آئی تو انھوں نے میرا نام لے کر ہاتھ ملایا۔ ہفتہ عشرہ بعد انھوں نے 10کور آفیسرز میس میں اپنے سکول کے زمانے کے ساتھیوں کے اعزاز میں برنچ کا اہتمام کیا تو محترم امیر ملک صاحب، جناب محبت خان نیازی اور سر سلطان شاہین کے ہمراہ میں بھی اس دعوت میں حاضر تھا۔ 2016ء میں وہ آرمی چیف بنے تو اس کے بعد ان سے کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم سر سلطان شاہین کی اطلاع کے مطابق وہ اور محترم محبت خان نیازی سے ان کا مسلسل رابطہ رہا ہے۔ خیر اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آرمی چیف کی حیثیت سے چھ سالہ میعاد کے دوران ان کا اپنے پرانے اساتذہ اور سکول کے پرانے ساتھیوں میں سے کس کس کے ساتھ رابطہ رہا ہے یا اب بھی ہے تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ میل ملاپ اور پرانے تعلق تعلقات کا خیال رکھنے والی شخصیت ہیں۔ ویسے تو سابقہ سی بی سر سید کالج یا موجودہ ایف جی سر سید سیکنڈری سکول اور ایف جی سر سید کالج کو یہ اعزاز حاصل چلا آ رہا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء کی بڑی تعداد عدلیہ سمیت مختلف سرکاری محکموں بالخصوص فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچی ہے۔ اسی طرح کسی حد تک یہ کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ کے بطور آرمی چیف چھ سالہ معیاد کے دوران بھی یہ سلسلہ پہلے کی طرح ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر جاری رہا ہے اور سرسید سکول و کالج سے پڑھے ہوئے کتنے ہی فوجی افسران تھری اور ٹو سٹارز جنرلز کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔اس میں جنرل باجوہ کا ذاتی طور پر کتنا کردار رہا ہے اس بارے میں واضح لفظوں میں کچھ کہا نہیں جا سکتا
تاہم سر سید سکول سے کم و بیش رُبع صدی (اکتوبر 1969ء سے اکتوبر1994ء) کی طویل وابستگی رکھنے کی بنا پر یہ پہلومیرے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر بقید حیات اساتذہ جن میں سر امیر ملک، سر سلطان شاہین اور سر اختر چوہدری وغیرہ کے نام نمایاں ہیں کے لیے بھی یقینا باعثِ مسرت اور باعثِ فخر رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے اُوپر کہا گیا ہے، چھ سال تک آرمی چیف کے انتہائی اونچے، بااختیار اور تگڑے منصب پر فائز رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر اقبال کے اس مصرعے کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
بلاشبہ اس کارِ جہاں میں ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا چلا آ رہا ہے کہ تغیر لازمی ہے۔ انسان ایک خاص حیثیت اور مقام اور مرتبے کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں سر انجام دے رہا ہوتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسے ان ذمہ داریوں سے معمول اور قواعد و ضوابط کے تحت اپنی رضامندی اور خوشنودی سے سبکدوش ہونا پڑتا ہے یا دوسری صورت میں حالات کے جبر کے تحت بد دلی اور نیم رضامندی سے سبکدوشی کی راہ کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان دونوں میں سے کسی ایک صورت کو پوری طرح ان سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اس لئے ان کے اپنے بیانات کو لیں یا فوج کے ترجمان کے حالیہ مہینوں کے بیانات کو سامنے رکھیں تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنی مرضی اور خوشدلی سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی مقررہ تاریخ کو آرمی چیف کے منصب سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ان کے اس واضح اعلان کے بعد یقینا اس امر کو تسلیم کرنے میں کوئی ایسا عذر یا وجہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشدلی سے مقررہ تاریخ کو ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آخری وقت تک اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں جو کھچڑیاں پکتی رہی ہیں اور ان کے نتیجہ میں یا ان سے ہٹ کر، کچھ ایسی باتیں یا حالات و واقعات سامنے آتے رہے ہیں کہ ان سے ان شکوک و شبہات، تحفظات اور خدشات کو تقویت ملتی رہی ہے کہ جنرل باجوہ ایک طرف ریٹائرمنٹ کی مقررہ تاریخ پر ریٹائرڈ ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس امر کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں کہ انھیں مزید کم از کم چھ ماہ کی توسیع مل جائے۔
اسے ستم ظریفی ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ نے گزشتہ ایک آدھ ماہ سے ملک بھر میں آرمی فارمیشنز کے الوداعی دورے شروع کر رکھے تھے اور وہ مختلف مقامات پر فوج کے افسروں اور جوانوں سے خطاب اور شہداء کی یادگاروں پر پھول چڑھا رہے تھے اور آئی ایس پی آر کی طرف سے ہر روز ان کی الوداعی دوروں کی خبریں بھی میڈیا پر آرہی تھیں تو دوسری طرف جنرل باجوہ کا مدت ملازمت میں مزید توسیع لینے کی خبروں کا گردش میں رہنا یا میڈیا کی زینت بننا یا بعض ثقہ اور مستند وقائع نگاروں اور تجزیہ کاروں کی طرف سے ان کا بار بار حوالہ دینابھی جاری رہا۔ سچی بات ہے میں اب بھی اس طرح کی خبروں پر یقین کرنے کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح تیار نہیں پاتا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرا ان کے ساتھ استاد اور شاگرد کا جو رشتہ ہے اس کی بنا پر ہمیشہ سے میرے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ لیکن ان کے آخری وقت تک مدت ملازمت میں توسیع لینے کی خبریں سنانے والے حلقوں میں کئی ایسے معتبر اور قابلِ قدر راوی ہیں کہ جن کی کسی بات کو رد کرنا یقینا میرے لیے آسان نہیں ہے۔ پھر کچھ اور بھی ایسے شواہد ہیں جو اس گمان کو تقویت دیتے ہیں کہ جنرل باجوہ اس بات کے خواہش مند تھے کہ ان کو مدت ملازمت میں کم از کم چھ ماہ کی توسیع مل جائے۔
خیر اب اس بحث میں نہیں پڑتے اس لئے کہ جنرل باجوہ اگلے دن اپنی مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد آرمی چیف کے اعلیٰ اور بااختیار منصب سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ میں آرمی چیف کے منصب کو جو بلا شبہ انتہائی باوقار اور بااختیار حیثیت کا حامل ہے، باوقار کہہ کر نہیں پکار رہا کہ پچھلے کچھ عرصے بالخصوص پچھلے کچھ مہینو ں میں اس منصب کی جو تضحیک ہوئی ہے اور اس کے وقار کو جس طرح خاک میں ملایا جاتا رہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہی نہیں ہے بلکہ ایک قومی المیے کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ کرے اس صورت حال میں تبدیلی آئے اور فوج جو ہمارا سب سے اہم، مستعد اور باوقار قومی ادارہ ہے اور جس سے پاکستانی عوام کی محبت، عقیدت اور لگاؤ کسی شک و شبہ سے بالاتر رہا ہے، اسے دوبارہ وہی حیثیت حاصل ہو جائے۔ یقینا اس کا دارو مدار جہاں بڑی حد تک فوج کی نئی کمان کے انداز فکروعمل پر ہے وہاں ہمارے ارباب سیاست و دانش اور ارباب اقتدار و اختیار کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس بارے میں مثبت اندازِفکر و نظر کو اپنائیں اور خوامخواہ کی بد گمانیوں سے اجتناب کریں۔ حالات آئندہ کیا رُخ اختیار کرتے ہیں اور کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس کا جلد ہی اندازہ ہونا شروع ہو جائے گا۔
آخر میں جنرل باجوہ کے دور کا کچھ تذکرہ کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کا دور کئی حوالوں سے یاد رہے گا کہ ایک طرف ان کے دور میں فوج نے انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں اپنے فرائض کو بہ طریق احسن سر انجام دیتے ہوئے بہت ساری کامیابیاں اور کامرانیاں ہی حاصل نہیں کی ہیں بلکہ اس کے سربراہ نے بہت سارے مشکل اور نازک حالات میں ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے اپنے حصے سے بڑھ کر کرداربھی ادا کیا ہے۔ دوسری طرف اس دور میں بلا شبہ فوج بالخصوص اس کی اعلیٰ قیادت کا کردار بھی طرح طرح کے اعتراضات اور چہ مگوئیوں کا موضوع بھی بنا رہا ہے۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے، کیا جنرل باجوہ کی ذات آنے والے دنوں میں بھی اسی طرح زیرِ بحث رہے گی اور ان کی ذات پر کچھ حلقوں کی طرف سے انگلیاں اُٹھتی رہیں گی یا ان کی ذات سے وابستہ مبینہ منفی پہلو گردراہ بن کر اڑ جائیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.