نئے انتخابات کامطالبہ

28

گزشتہ 75 سال کے سفر میں ایسے سال تو بہت کم گزرے ہوں گے جو آسان کہے جا سکیں، لیکن جوں توں کر کے گزر بسر ہوتی رہی، امید باقی رہی اور ہم اپنے حکمراں فوجی آمروں اور سیاست دانوں کے وعدوں پر اعتبار کرتے رہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے ایسا اعتبار بہت مفید ہوتا ہے، لیکن حالات کے اس قدر بگاڑ نے آج یہ خود فریبی بھی مشکل بنا دی ہے۔ ہمارے سیاست دان جمہوریت کی گردان تو کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے سے کبھی نہیں چوکتے ہیں بلکہ جتنا خود سے سیاست دانوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا۔ جب بھی انہیں موقع ملا اقتدار کے لئے کوئی نہ کوئی غیر جمہوری اقدام کر ڈالتے ہیں۔رواں سال مارچ میں جس طرح حکومت کی تبدیلی کے لئے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے اور ایک اکثریت کی حکومت کو اقلیت میں تبدیل کر کے پی ڈی ایم نے حکومت سازی کی یہ سب کچھ کسی طور بھی جمہوری سوچ کا حامل نہیں ہے۔ آج اگر پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو اتنی غیر مقبول ہوتی کہ اس کا کوئی نام نہ لے رہا ہوتا اس طرح 2023ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے مسلم لیگ (ن) بڑی آسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ اس طرح انہیں اپنی بڑی مخالف پارٹی کو بھی حلیف نہ بنانا پڑتا اور کوئی غیر اخلاقی اور غیر جمہوری عمل بھی نہ کرنا پڑتا۔
ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے پر پی ٹی آئی کے تمام اراکینِ اسمبلی نے استعفے دیئے لیکن قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے انتہائی غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی طریقے سے صرف 11 اراکین اسمبلی کی رکنیت منسوخ کر دی جب کہ پی ٹی آئی کے تمام اراکینِ اسمبلی نے اسی طرح استعفے دیئے تھے جس طرح رکنیت منسوخ کئے جانے والے 11 افراد نے دیئے تھے۔ سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ سپیکر نے کس اصول کی بنیاد پر ان گیارہ افراد کے استعفے منظور کئے اور باقی کے نہیں ہوئے۔ اب جب کہ ضمنی انتخابات ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی نے 8 میں 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے تو اس نے نئے انتخابات کے لئے دوبارہ سے حکومت
اور دیگر مقتدر اداروں پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جس طرح رواں برس مارچ میں حکومت کی تبدیلی ہوئی اور جس طرح عوام نے اس تبدیلی کو رد کیا اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف جایا جاتا، عوام جسے ووٹ دیتے وہ برسرِ اقتدار آ جاتا اور ملک کا نظم و نسق سنبھال لیتا ۔ تیسری دنیاکے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جمہوری روایات ابھی اس حد تک مضبوط نہیں ہوئی ہیں کہ پوری قوم ہر قسم کے دباؤ کو رد کر کے اپنے ووٹ کو شعوری طور پر اپنی مرضی و منشا کے مطابق استعمال کرنے کے قابل ہو جائے۔ یہ مرحلہ انتخابات کے تواتر اور تسلسل کے ساتھ انعقاد اور عوام کے اپنے ووٹ کی قوت پر بھرپور اعتماد کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ تاہم اب جب کہ ضمنی انتخابات کا اہم مرحلہ طے ہو چکا ہے اور جس کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ان انتخابات میں 8 میں سے 7 سیٹوں پر عمران خان خود سے کھڑے تھے اور اس میں سے 6 نشستوں پر انہوں نے کامیابی حاصل کر لی ہے تو پی ٹی آئی کے نئے انتخابات کے مطالبے کو مان لیا جائے۔ عمران خان کے خود انتخابات لڑنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ باور کرانا چاہتے تھے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں لہٰذا نئے انتخابات کرائے جائیں۔
نئے انتخابات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ موجودہ حکومت کو عوام کی بالکل بھی حمایت حاصل نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ یہ 13جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے اور اب ہم نے دیکھ لیا کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر بھی نہیں کر سکی ہیں۔ اس لئے جمہوریت کی بھی بہتری اسی میں ہے کہ دوبارہ سے تمام صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات کرا دیئے جائیں اور عوام جس کو ووٹ دیں وہ منتخب ہو کر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال کر وطنِ عزیز کو مشکلات سے بھنور سے نکالنے کے لئے کمر بستہ ہو جائے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ عوام کسی حکومت کے سب سے بڑے نقاد اور سب سے بڑے محتسب ہوتے ہیں اور کوئی بھی حکومت اس وقت اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے جب عوام کا اس پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے چنانچہ پی ٹی آئی کی کامیابی اس امر کے ثبوت کے طور پر لی جا سکتی ہے کہ عوام کو اس جماعت پر اعتماد ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکمران اتحاد کو مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر نئے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کر کے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانا چاہئے جو کہ پی ٹی آئی کا بنیادی مطالبہ بھی ہے۔
ملک کی سب ہی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ متوقع انتخابات آزادانہ، منصفانہ ہونے چاہئیں۔ ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم پچھلے 75 سال سے یہی مطالبہ دہراتے آ رہے ہیں کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے چاہئیں ۔ موجودہ حالات میں بہتر یہی ہے کہ عوام سے تمام پارٹیاں نئے سرے سے رجوع کریں۔ نئے انتخابات میں جایا جائے جو جمہوریت کا طریقۂ کار ہے وہ اپنایا جائے اور جس پارٹی کے پاس زیادہ نشستیں ہوں اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔ ان حالات میں اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اپنایا جائے گا وہ جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ جوڑ توڑ کی سیاست سے وقتی فوائد تو حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن اس طرح کا عمل ہمیں ہماری منزل سے دور کرتا جائے گا۔
اس وقت ملک کو بڑے سنگین مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا تو اس وقت فارن ریزرو کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور سٹریٹ کرائمز نے بھی عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے کون آشنا نہیں ہے کہ ہر روز ہونے والی بے لگام مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے کہ ان کی اکثریت کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ بھوک اور افلاس نے چہار سو ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ بعض افراد تو تلخیِ حالات سے اس حد تک دل برداشتہ اور دل گرفتہ ہو رہے ہیں کہ اپنے جگر گوشوں اور بچوں کو فروخت کرنے پر آمادہ ہیں۔ کسی معاشرے میں عام آدمی کا بچوں کو فروخت کرنے جیسے انتہائی اقدامات پر تیار ہو جانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسے اپنے مستقبل میں دور دور تک امید کا کوئی چراغ ٹمٹماتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے اور وہ ناامیدی اور مایوسی کے ایسے طوفان میں گھر گیا ہے جس سے نکلنے کی اسے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔

تبصرے بند ہیں.