خوامخواہ ایشو بنالیا گیا، لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہوئی ، انہیں ہڈیاں الگ کرنے کیلئے رکھا گیا تھا: انتظامیہ نشتر ہسپتال
ملتان : نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر لاشوں کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد پنجاب حکومت کی ابتدائی تفتیش میں بتایا گیا ہے کہ یہ نامعلوم افراد کی لاشیں تھیں جو مقامی پولیس نے میڈیکل سٹوڈنٹس کے تعلیمی مقاصد کے لیے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے کی تھیں۔
نیونیوز کے مطابق سوشل میڈیا پر ایسی پریشان کُن ویڈیوز اور تصاویر گذشتہ شام منظر عام پر آئی تھیں جن میں متعدد ایسی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں جو نہایت خراب حالت میں ہیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر سوالات اٹھے کہ یہ کن لوگوں کی لاشیں ہیں اور بے یار و مددگار کیوں پڑی ہیں؟
اس بحث نے افواہوں کے ساتھ ساتھ قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا جس کے بعد پنجاب حکومت نے گذشتہ رات ہی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو تین دن کے اندر اندر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا کہ نشتر ہسپتال کی چھت پر گلی سڑی لاشوں کی اطلاعات سامنے آنے پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور حکام نے اس معاملے کو نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔
اس انکوائری کے مکمل ہونے سے پہلے ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہی کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر مونس الہی کی جانب سے سوشل میڈیا پر نشتر میڈیکل کالج کی جانب سے دیے جانے والا ابتدائی موقف پیش کیا گیا۔
مونس الہی کے مطابق نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ یہ لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں جو پولیس نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے اس مقصد سے کی تھیں کہ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔
ہسپتال کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ لاشیں گل سڑ رہی تھیں اور ان سے بدبو آ رہی تھی، اس لیے ان کو فریزر میں نہیں رکھا جا سکتا تھا اور ان کی حالت ایسی تھی کہ ان کو تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن نہیں تھا۔
ہیڈ آف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وضاحت کے مطابق ان لاشوں کے گلنے سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہیں جن کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ہے خوامخواہ ایشو بنالیا گیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.