اسلام آباد: حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے کیس میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور وفاق میں شامل اتحاد کی دیگر جماعتوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میچ فکسنگ کی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے، فل کورٹ بنایا جائے۔
مریم نواز کی تنقید
پریس کانفرنس کا آغاز مریم نواز شریف نے کیا اور کہا کہ مجھے آتے ہوئے پیغامات ملے کہ پریس کانفرنس نہ کریں آپ کی اپیل زیر التواءہے، موجودہ ملکی حالات کے پیچھے چار سالہ کارستانی اور اس کے پیچھے عدلیہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جیسے میچ فکسنگ ہے ویسے بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اور اس پر بھی ایک سوموٹو ہو نا چاہئے۔
حمزہ شہباز شریف کے جیتنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست لے کر گئی اور پٹیشن تیار نہ ہونے کے باوجود رجسٹرار وہاں موجود رہا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 25 اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جھولی میں ڈال دئیے گئے۔ جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا بن گا اور جب بینچ بنتا ہے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہو گا۔
جب سے حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنا، اسے کام نہیں کرنے دیا گیا، وہ اپنی کابینہ نہیں بنا سکا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے، گزشتہ چار سال جب اکانومی کے نٹ بولٹ کھولے جا رہے تھے اور عمران خان تباہی کر رہا تھا، آپ نے ایک بھی بیان سنا کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے، اگر یہ موازنہ کرنا ہے تو پھر 2017ءمیں جب نواز شریف کو نکالا اور جب عمران خان چھوڑ کر گیا، تب تک کا موازنہ کریں، عمران خان چار سال سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا، پاکستان کے ہر شعبے میں اسے کھلی آزادی ملی جو آج بھی ہے۔
جب سے نواز شریف کو اقامہ جیسے مذاق پر نکالا، تب سے یہ ملک ٹربیولنس کا شکار ہے اور 2017ءکے بعد سے لوگوں نے سیٹ بیلٹس کھولی نہیں ہیں، ملک ایسا ہلا کہ اب سنبھلنے میں ہی نہیں آ رہا، واٹس ایپ کال پر جے آئی ٹی بنائی گئی اور اس کیس پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مانیٹرنگ جج لگایا گیا، وہ مانیٹرنگ جج آج بھی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے اوپر مانیٹرنگ کیلئے تاحیات لگا دیا گیا ہے، ہمارے خلاف ہر مقدمے میں وہ شامل ہوتا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہیں انہیں بینچ میں بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے میچ فکسنگ ہے ویسے بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اور اس پر بھی ایک سوموٹو ہو نا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز نے ہمیں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے القابات سے نوازا اور نواز شریف کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے پر لگ گئے لیکن ثبوت ہوتا تو ملتا، جہاں جرم ہوتا ہے وہاں ثبوت ہمیشہ ہوتا ہے لیکن نواز شریف کے خلاف انہیں کچھ نہیں ملا اور پھر آخر میں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کہہ کر اقامہ پر فارغ کر دیا گیا، توہین عدالت میں ہمارے رہنماﺅں کو چن چن کر نااہل کیا گیا اور آج تک نااہل ہیں، اگر پاکستان میں یہ ماحول لانا ہے کہ جو سب سے بڑھ کر گالی دے گا فیصلہ اس کے حق میں آئے گا، اگر تنقید سے اتنا ڈرتے ہیں تو سوچیں کہ یہ ملک کہاں جائے گا۔
شیریں مزاری کیلئے راتوں رات عدالت کھلتی ہے، لیکن سرینا عیسیٰ رلتی رہتی ہے، مریم نواز کا مقدمہ آتا ہے تو پانچ پانچ، چھ چھ مہینے کوئی ضمانت نہیں دیتا، اور جب ضمانت کا وقت آتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ بینچ ہی تحلیل ہو گیا، اور جج چھٹی پر چلا گیا، جج چھٹی پر جاتا نہیں تھا بلکہ بھیجا جاتا تھا، آصف علی زرداری کی بہن کو ہسپتال سے اٹھا کر لے گئے، طیبہ گل اور سرینا عیسیٰ کو کسی نے انصاف نہیں دیا، جب کرسی چلی گئی تو عمران خان بولے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے میں غلط کیا، کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے؟ جب ایک خاندان ذلیل و خوار ہو گیا۔
مولانا فضل الرحمن
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مریم نواز شریف کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت فل کورٹ کرے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان ملک کو سری لنکا بنانے کے قریب پہنچ چکا تھا مگر حکمرانوں کے اتحاد نے ملک کو سری لنکا بنانے سے روک دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مشکل پیدا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ہم نے اپنے ملک کے مستقبل کو روشن بنانا ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنا ہے لیکن ہمیں یہ کرنے تو دیا جائے، استحکام آئے گا تو معیشت بھی ٹھیک ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کیوں اپنے ملک میں اجنبی لگ رہے ہیں، عدالت سے فیصلے کا حق نہیں چھین رہے مگر اس بنچ سے انصاف کی توقع نظر نہیں آ رہی لہٰذا اس کیس کی سماعت فل کورٹ کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تشریح بھی عجیب و غریب چیز بن گئی ہے، پاکستان کا ایک آئین ہے اور ہم موجودہ حالات سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، ملکی معیشت کو درست کرنے کیلئے اطمینان کی صورتحال پیدا کی جائے۔
بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی پریس کانفرنس کے دوران فل کورٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 3 افراد اس ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے، اس ملک کی جمہوری جماعتوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں فل کورٹ چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوری نظام چلے لیکن ہمیں نظر آ رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا، آپ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ عوام اپنے فیصلے خود کریں، آپ سے برداشت نہیں ہو رہا کہ ملک جمہوریت کی طرف جا رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.