کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں ایک کالج سے شروع ہونے والا حجاب پر پابندی کا تنازع ملک گیراہمیت اختیارکر گیا اورپاک بھارت سوشل میڈیا پر آج بھی حجاب ہی چھایا رہا۔حجاب تنازع پر بھارت کے کئی شہروں میں مسلمان طالب علم سراپا احتجاج ہیں۔ کولکتہ میں مسلمان طالب علم سڑکوں پر نکل آئے اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے جبکہ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر پابندی کا کیس لارجر بینچ کو بھیج دیا۔
طالبات کے کالجوں اور سکولوں میں داخلے پر پابندی کے کیس کی سماعت کرنے والے سنگل بنچ سے طالبات کی داد رسی نہیں ہوئی۔ بنچ نے معاملہ سماعت کیلئے لارجر بنچ کو بھیج دیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ حجاب کے معاملے پر عارضی ریلیف کا معاملہ بھی لارجر بینچ دیکھے گا۔ دوسری جانب کرناٹک کے علاوہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی باحجاب طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں حجاب کے مسئلے کو بی جے پی کی ہم خیال جماعتیں اچھال رہی ہیں۔ بنگلور میں ایک لاکھ زعفرانی شالوں کا آرڈر دیا جاچکا ہے تاکہ ہندو طلبہ کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جا سکے۔ کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے کہا ہے کہ حجاب، گھونگٹ یا جینز، خواتین کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کا اختیار حاصل ہے جو آئین میں ہے۔ ممبئی میں باحجاب خواتین نے سماج وادی پارٹی کی جانب سے حجاب پر پابندی کے خلاف دستخطی مہم میں حصہ لیا۔ مدھیہ پردیش میں باحجاب طالبات کو سکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے انتہا پسند وزیر تعلیم حجاب کیخلاف زہر اگلنے لگے۔ وزیر تعلیم اندر سنگھ پرمرکا کہنا ہے کہ حجاب کو سکول یونیفارم کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، جسے حجاب پہننا ہے وہ اپنے گھر میں پہنے۔
جہاں مسکان کو سوشل میڈیا صارفین شاندار خراج تحسین پیش کر رہے ہیں وہیں پاکستان کی سیاسی شخصیات اور وزراء نے بھی ان کی دلیری کو
سراہا۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آنے والے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تشویش اب مقبوضہ جموں و کشمیر تک محدود نہیں رہی،کرناٹک کا واقعہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظالم کی جانب ہم عالمی برادری کی توجہ مسلسل مبذول کرواتے آ رہے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش ہے۔ وزیر مملکت زرتاج گل نے بھی ایک ایڈیٹ شدہ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہی وہ صورتحال ہے جس سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے مغرب کو خبردار کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مسکان کی ٹوئٹر پروفائل پر ڈسپلے پکچر لگا لی۔ مریم نواز نے انتہا پسند ہندوؤں کے سامنے ڈٹ جانے والی بھارتی باحجاب طالبہ سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات بھارتی ناظم الامور کو وزارت امور خارجہ میں طلب کیا گیا اور بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے بہیمانہ اقدام کی حکومت پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ بھارتی ناظم الامور پر زور دیا گیا کہ وہ کرناٹک میں ’آر۔ ایس۔ ایس‘، ’بی۔جے۔پی‘ کی مشترکہ سرپرستی میں جاری حجاب مخالف مہم پر پاکستان کی تشویش سے بھارتی حکومت کو آگاہ کریں۔ یہ مہم اکثریت کی حکمرانی اور ایک بڑے طبقے کو معاشرے سے خارج کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد مسلمان خواتین کے ساتھ غیر انسانی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے انہیں مثبت سرگرمیوں میں شرکت سے روکنا اور بدنام کرنا ہے۔
انتہا پسندوں کے ایک بڑے گروپ کے سامنے کھڑی حجاب والی طالبہ مسکان نے کہا کہ وہ تنہا ان کا سامنا کرنے کے لیے پریشان نہیں تھیں اور وہ حجاب پہننے کے اپنے حق کے لیے لڑتی رہیں گی۔ جب میں کالج میں داخل ہوئی تو وہ مجھے صرف اس لیے اجازت نہیں دے رہے تھے کہ میں برقع پہنا ہوا تھا، انہوں نے جے شری رام کا نعرہ لگانا شروع کیا تو میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا شروع کیا۔ اس گروپ کے تقریبا 10 فیصد مرد کالج کے طالب علم تھے جبکہ باقی لوگ باہر کے تھے۔ میں کلاس میں صرف حجاب پہنتی تھی جبکہ برقع اتار دیتی تھی کیونکہ حجاب ہمارے دین کا ایک حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا اور نہ ہی پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا۔ میرے ہندو دوستوں نے میرا ساتھ دیا، میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوں، ہر کوئی ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف ممبئی کے بائیکلہ واقع مدن پورہ علاقے میں سماجوادی پارٹی کی جانب سے حجاب پر پابندی کے خلاف دستخطی مہم کا آغاز کیا گیا۔ اقبال کمالی ہوٹل کے قریب دستخطی بورڈ پر ہزاروں خواتین اور اسکول و کالج کی طالبات نے حصہ لیتے ہوئے کرناٹک حکومت اور تعلیمی اداروں کے فیصلے کی مخالفت میں دستخط کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا۔شام چار بجے شروع ہونے والی اس احتجاجی دستخطی مہم کو پولیس انتظامیہ کی مداخلت کے بعد ساڑھے پانچ بجے کے قریب بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر ہزاروں خواتین دستخط کرنے کے لیے جمع ہو گئی تھیں اور کرناٹک کی بی جے پی حکومت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کر رہی تھیں۔ سماجوادی پارٹی بائیکلہ تعلقہ جنرل سکریٹری وقار خان نے بتایا کہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف چار ہزار سے زیادہ دستخط جمع ہوئے ہیں۔ ان دستخطوں کو ریاست مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو روانہ کیا جائے گا۔سماجوادی پارٹی ممبئی پردیش کے جنرل سکریٹری نورمحمد منا نے کہا کہ کرناٹک میں حجاب کے خلاف بی جے پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لوگ ایک منصوبہ بند ایجنڈے کے تحت حجاب پر پابندی کی آڑ میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر رہے ہیں تاکہ انہیں اس پولرائزیشن کا فائدہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں مل سکے۔ بی جے پی کے اس ایجنڈے کو بے نقاب کرنے کے لیے احتجاجی طور پر دستخطی مہم چلائی گئی۔ اس میں ہزاروں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حجاب پر عائد پابندی کی سخت مخالفت کی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.