ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی

64

ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کس کی کس کے ساتھ؟ ممالک کے درمیان محبتیں شکلوں اور چہروں سے نہیں بلکہ ملکی و باہمی مفادات کے تابع ہوا کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ فلاں ملک ہمارا دوست ہے اور فلاں نہیں، دراصل فلاں ملک کے ہمارے ساتھ تعلقات ہیں اور فلاں ملک کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں اور یہ ہمیشہ ہی متعلقہ ملک کے ساتھ باہمی مفادات کے تابع ہوا کرتے ہیں۔ بے شک ہر حکومت اپنی پالیسی بناتی ہے مگر وہ بنیادی تعلقات، منصوبہ بندی پروگرام اور مستقل پالیسی سے روگردانی نہیں کر سکتی کیونکہ حکومتوں کے لیے اپنے اپنے ملک میں ریاست نے کچھ نوگو ایریا رکھے ہوتے ہیں۔ وہ چاہے امریکا ہو یا برطانیہ، بھارت ہو یا پاکستان صورت گری میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ چین کی دوستی کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی، ہے، مگر کس سے؟ کیا کسی سیاسی رہنما سے؟ ہرگز نہیں دراصل یہ دوستی کچھ دہائیوں سے خاص طور پر گریٹ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے بعد ہمالیہ، سمندر اور شہد بلکہ دل، دریا، سمندر وطن عزیز کی مستقل قوت کے ساتھ وابستہ ہے، باقی سب بے معنی ہے۔ چین سے دوستی کے معمار گریٹ بھٹو تھے، ویسی شخصیات تاریخ میں دوبارہ نہیں آیا کرتیں۔ ان کے بعد محترمہ، پھر زرداری صاحب اور میاں صاحب نے ذاتی شخصیت اور کوششوں سے قربتوں میں اضافے کیے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ خصوصاً موجودہ حکومت میں شخصیات بے معنی ہیں اور قوت اور عوام چائنا کا مطمع نظر ہوئے۔ اب دوستی کا یہ سفر جغرافیہ، علاقائی حیثیت اور تجارت میں داخل ہو گیا ہے۔ لہٰذا چائنا کی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی جغرافیہ، معیشت اور ٹریڈ سے وابستہ ہو گئی۔ ٹریڈ تو اُس کے ساتھ پوری دنیا کرتی ہے مگر جغرافیائی حیثیت باقی ہے جو اب سکڑ کر سی پیک کی راہوں پر چل رہی  ہے۔ جہاں تک ہماری خارجہ پالیسی کی بڑھک بازی ہے ہم تو ایران، سعودیہ سمیت نہ جانے کس کس کو اپنے مزاج کی بھینٹ چڑھا چکے۔ ہمارا امیج برباد ہو گیا۔ پہلے دو طرفہ تعلقات کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ اب جہاں جائیں مدد کے نقارے بجنے لگتے ہیں۔ چائنا کے لئے ہماری اہمیت عسکری قوت کے بعد اب جغرافیہ اور سی پیک کے حوالے سے رہ گئی ہے، باقی سب غلط فہمی ہے۔ البتہ حکمرانوں کی اہمیت اور زبان پر اعتماد ہمیشہ حیثیت رکھتا ہے جو چلتے لمحے بالکل نہیں۔ موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور وطن عزیز کے اندر موجودہ حکومت کی نااہلیت حدوں کو عبور کر چکی۔ جس نے وطن عزیز کی مربوط اور مسلمہ قوت کو بھی مخمصہ میں ڈال دیا۔
فیصلہ ساز اب بھی نہیں چاہتے کہ اُن کو عمران خان کے علاوہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے لیکن حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت کو آگے بڑھایا جاتا ہے، مارچ سے پہلے فیصلہ نہیں ہوتا تو
نومبر میں وہ دھماکا ہو گا جس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے، ’’محبت اندھی ہوتی ہے اگر اندھی ہوتی ہے تو میں ایک آنکھ ضائع کر سکتا ہوں دونوں آنکھیں ضائع نہیں کروں گا‘‘۔ اسی طرح کوئی خاص مسلکی، مفاداتی، لسانی، صوبائی، علاقائی، نسلی محبت ہو، اس محبت کو کبھی بھی اثاثہ نہیں بوجھ اور ذمہ داری سمجھا جاتا ہے جو ساکھ برباد کرنے کے درپے ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس محبت کو ملک و قوم کی قیمت پر پروان چڑھایا جائے۔ برعظیم تاریخی طور پر کبھی ایک ریاست نہیں رہا ، اس وقت بھی اگر ہندوستان کے باسیوں کے دل سے پاکستان کی نفرت نکال دی جائے تو وہ اپنے اندر پنپنے والی آزادی کی تحریکوں کے باعث دودرجن ریاستوں میں بکھر جائے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے، دنیا کی کوئی طاقت کبھی عوام کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ روس، امریکہ، برطانیہ کی تاریخ دیکھ لیں، یورپ کی تاریخ دیکھ لیں۔ مشرق وسطیٰ کے حالات دیکھ لیں عوام کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا چاہے وہ پوری کی پوری ریاست ہو یا ریاست کا کوئی ادارہ۔ عوامی دباؤ کے سامنے جس کے سب سے پہلے قدم اکھڑتے ہیں وہ ہمیشہ حکومت ہی ہوا کرتی ہے۔ چائنا کی دوستی افراد سے نہیں مسلمہ قوت کے ساتھ ہے اور اس قوت کے پیچھے اگر قوم کی قوت ہے تو وہ قوت مسلمہ قوت کہلائے گی۔ ورنہ وہ قوت بھی قوم پر بوجھ ہے کیونکہ قوم اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی خصوصاً جبکہ صورت حال جس میں ملک کے 23 میں سے 22 کروڑ عوام گزر رہے ہیں یہ ممکن نہیں کہ حکومت، عوام، ریاست اور حالات ساتھ ساتھ چل سکیں۔ مسلکی محبتیں، سسرالی رشتہ داریاں، جعلی عاشقیاں خس و خاشاک کی طرح عوامی غیض و غضب کے سامنے بہہ جائیں گی۔ وطن عزیز میں عوامی قوت کو دباتے دباتے 45 سال ہو چکے اور اس سے پہلے دبانے کا نتیجہ تھا کہ ملک دولخت ہو گیا مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ کیونکہ فیصلہ سازوں کے اندر ایک خود کار نظام موجود ہے، جیسے گاڑی کے ایکسیڈنٹ میں ’’ایئر بیگ‘‘ کھل کر ڈرائیور اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے والے کو بچانے کے لیے آٹومیٹک ڈھال بن جاتے ہیں۔ مقتدرہ کے اندر خود کار نظام موجود ہے جو خود بخود حرکت میں آ جایا کرتا ہے۔ چاہے سامنے پرویز مشرف ہو، خودکار نظام حرکت میں آ جایا کرتا ہے اور اپنے اعضا ہی گواہی دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے مہرے ہی الٹی چال چل دیا کرتے ہیں اور پھر پرویز مشرف کو کہنا پڑتا ہے کہ میرے خلاف سازش ہو رہی ہے، اس کا پتا کیا جائے۔ وہ بھول گئے تھے کہ وہ سپہ سالار ہی نہیں، حکمران بھی ہیں۔ اگر حکمرانی وطن عزیز کے اثاثے کے بجائے بوجھ بن جائے تو خود کار نظام اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا کرتا ہے لہٰذا کسی کو زعم نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بہت ضروری ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چین بہترین دوست ہے مگر یہ دوستی چہروں سے نہیں، ملک کے ساتھ ہے۔ مسلمہ قوت کے ساتھ ہے اور شرط صرف اتنی ہے کہ مسلمہ قوت کے پیچھے عوامی قوت کا ہونا لازم ہے ورنہ روس سے زیادہ وار ہیڈز امریکہ کے ہم پلہ فوجی قوت کسی دوسرے ملک کی نہ تھی۔ جب ملک کے عوام ساتھ نہ ہوں تو لاکھ قیدی بھی ہو جایا کرتے ہیں اور جب عوام ساتھ ہو تو اسلامی ممالک کی سربراہی بھی مل جایا کرتی ہے مگر تدبر، حکمت اور اخلاص کے مثبت پہلو اور محنت لازمی شرائط ہیں۔ احساس اور قانون کی حکمرانی کے بغیر سب باتیں ادھوری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت ور حلقوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی اگر مارچ تک کوئی سیاسی فیصلہ نہیں ہوتا تو نومبر تک حالات قابو سے باہر ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں جو ماضی میں متحارب اور ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں تھیں۔ سیاسی جدوجہد میں میثاق جمہوریت کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہ آنے والے کل میں بھی ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں اتریں گی مگر موجودہ بحران اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ کوئی فیصلہ ہونا لازمی ہے۔ چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی آج بھی ہے مگر کس کے ساتھ مسلمہ قوت اور قوم اور اس سے بڑھ کر جغرافیائی حیثیت اور سی پیک کے ساتھ! حکومت کے حواری جتنی مرضی جھوٹی بڑھکیں ماریں، وہ دن گئے جب سیاں جی کوتوال تھے۔

تبصرے بند ہیں.