ہماری اگلی منزل ہیڈ سلیمانکی اور پاک وہند کوالگ کرتی اس سرحدی لکیر پر ایک نظر ڈالنے سے عبارت تھی جس کی دید کا اشتیاق تو لڑکپن سے تھا مگر اُس زمانے کے نجی نامساعد حالات نے اس کا موقع ہی نہ دیا تھا۔ پاکپتن سے روانہ ہوتے وقت اچانک یہ خیال آیا کہ ہم حویلی لکھّا سے زیادہ فاصلے پر نہیں اور اس سے بارہ تیرہ کلومیٹر آگے ہیڈ سلیمانکی اور وہ سرحد ہے جس کا نام ہم نے پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں پہلی بار سنا تھا: سلیمانکی سیکٹر۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس یادگار سترہ روزہ جنگ میں قوم کو جو یک جہتی اور اپنی بقا کا جو منفرد احساس نصیب ہوا تھا ، بعد ازاں تو ایک خواب بن کر رہ گیا۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے جس کا تذکرہ پھر کبھی ۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ جزوقتی ڈرائیور منور سے پوچھ لیا جائے کہ اس مسلسل کئی روزہ سفرنے اس کو تھکا تو نہیں دیا۔ کہنے لگا میں بالکل تازہ دم ہوں اور آپ جہاں جہاں کہیں ، چلنے کو پوری طرح آمادہ ہوں ۔ سو ہم نے حویلی کا رخ کیا ۔ پاکپتن سے نکلتے ہی رستے میں ایک بڑی نہر دیکھی۔ مجھے بچپن سے نہروں ، دریاؤں ، جھیلوں ، چشموں اور آبی گذرگاہوں کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق رہا ہے اور یہ سودا اب تک کم نہیں ہوا۔ ڈرائیور سے گاڑی رکوائی۔ عبداللہ اور میں نے نہر پر ایک نگاہ ڈالی ۔ نہر پانی سے لبالب تھی اور تیز رو بھی مگر پانی؟ آنکھوں کو چبھنے اور احساس کو مجروح کرنے والا سفید جھاگ کے جلو میں بہتا سیاہ پانی بلکہ زیادہ موزوں الفاظ میں ’’کالا پانی‘‘! بیزاری کے عالم میں عبداللہ اور میں گاڑی میں بیٹھے اور آگے بڑھے۔ خیال آیا کہ پاکستان میں حکومتی بے حسی یا منصوبہ بندی کے فقدان نے صنعتی کارخانوں کے فُضلے اور بڑے شہروں کے متعفن گندے نالوں کو ٹھکانے لگانے کا ایک آسان نسخہ تلاش کر لیا ہے کہ انھیں دریاؤں میں بہا ڈالاجائے۔ یہی کام بڑی حد پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے۔ چونکہ ہمارے بیشتر دریا انڈیا سے آتے ہیں اس لیے وہاں سے آنے والا آلودہ پانی یہاں کی آلودگیوں سے مل کر مزید قیامت ڈھا رہا ہے مگر صرف لمحۂ حال میں گزر بسر کرنے والی ہماری قوم کو ایسے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔
خاموش اور آہستہ رَو قریے حویلی سے گزر کر اگلے نصف گھنٹے میں ہم ہیڈ سلیمانکی پہنچ گئے۔ دریائے ستلج پر بنایا گیا یہ ہیڈورکس تقسیم برعظیم سے اکیس برس پہلے اپریل ۱۹۲۶ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا افتتاح اُس زمانے کے معروف گورنر پنجاب سر ولیم میلکم ہیلی نے کیا تھا۔ اُس موقع پر سر صادق محمد خاں عباسی ، نواب بہاولپور، بھی موجود تھے۔ اس خوبصورت اور محکم بنیادوں پر قائم ہونے والے ہیڈورکس کو چار برس بعد پورے سو سال ہو جائیں گے۔ پاکستان کے پانچ دریاؤں میں شیر دریا سندھ کے استثنا کے ساتھ دریائے ستلج سب سے طویل دریا ہے جو تیرہ سو اڑسٹھ کلومیٹر لمبا ہے۔ جنوب مغربی تبت سے پھوٹنے والا یہ دریا، ہمالیہ کے سلسلۂ کوہ سے رستہ بناتا، ہماچل پردیش اور بھارتی پنجاب سے ہوتا ہوا ، پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ موسم سرما میں برعظیم کے دریاؤں میں پانی کم ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی یہی معاملہ تھا مگر اس دریا کے ساتھ تو مع دو دیگر دریاؤں یعنی بیاس اور راوی کے ایک بڑا ستم باسٹھ برس پہلے ڈھایا گیا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جو ورلڈ بنک کے ’’کرم خاص‘‘ سے فوجی سربراہ جنرل ایوب نے کیا تھا، یہ دریا بھارت کے کامل تصرف میں دے دیے گئے تھے۔ اب دور اندیش ، ہمسایہ بیزار بھارت پاکستان میں پہنچنے والے باقی دریاؤں کے ساتھ بھی بند در بندکا سلسلہ جاری رکھ کر پاکستان کو ریگستان بنانے پر عمل پیرا ہے اور ہم ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ؎ ہرگز نہ کھلی آنکھ تری خواب سے غافل / اور قافلۂ صبح سفر کر گیا کب کا !
ہیڈ سلیمانکی سے دو بڑی نہریں نکلتی ہیں ۔ ایک کا پانی تو پایاب تھا۔ دوسری خوب لبالب تھی۔ تاہم اس لبالب نہر کی صورت حال بھی ویسی ہی دگرگوں تھی جیسی پہلے بیان ہوئی یعنی پانی کف آلود اور شدت سے سیاہی مائل۔ اس سب کے باوجود اس مقام کی سب سے پرکشش شے طرحدار آبی پرندوں اور خوبصورت مرغابیوں کا سلسلہ در سلسلہ ہجوم تھاجو ہر سال سائبیریا کی نہایت سرد اور برفیلی فضا سے ہجرت کر کے پاکستان کی مختلف آبی گذرگاہوں پر پناہ لیتا ہے اور یہاں بھی موجود تھا۔ ان مرغابیوں کی ایک قسم
رنگت کے اعتبار سے بالکل سیاہ تھی۔ دریا کے کنارے آباد مچھیرے انھیں ’’کاں ونی‘‘ کہتے ہیں یعنی مادہ کاں (کوّے) جیسی! مجھے یاد آیا کہ رنگ برنگ مرغابیوں کا ایسا ہی حیران کن ہجوم میں نے کالا باغ میں رواں دواں دریائے سندھ پر بھی کئی بار دیکھا اور چشمہ میں بھی اسی فیاض دریا کی سطح پر پرّاں، تیرتے اور غوطہ زن ہوتے ہوئے بھی۔ سوچتا ہوں کہ اگر پرندے نہ ہوتے تو یہ دھرتی کس قدر سُونی اور ناقابلِ اقامت ہوتی! ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی بار بار ذہن میں آتا ہے کہ عہد جدید کا انسان فطرت اور فطری ماحول کا بَیری کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ کیا پرندوں سے بیزاری اور بے اعتنائی روح سے بیزاری اور بے اعتنائی کے مترادف تو نہیں؟ کیا یہ مادے کے غلبے اور روح کے انکار کا علامتی اظہار تو نہیں؟
دریائے ستلج سے نکلتی تیز رفتار لبالب نہر مگر اس کے گہرے سیاہی مائل پانی کو دیکھ کر اور بدمزہ ہو کر میں نے گمان کیا کہ اس میں مچھلیاں یا دیگر آبی مخلوقات ناپید ہوں گی۔ وہاں کے مقامی لوگوں اور خصوصاً مچھیروں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ دریا سے متصل نہروں میں مچھلی بڑی مقدار میں موجود ہے۔ رہا دریا تو اس سے مچھیرا ایک ایک دن میں اٹھارہ سے بیس بیس من تک مچھلی شکار کر لیتا ہے۔ میں نے غور کیا تو مچھیروں کے موقف سے اس لیے بھی اتفاق کرنا پڑا کہ مرغابیوں کی ہجوم در ہجوم موجودگی سے بھی مچھلی کی فراواں موجودگی ثابت ہوتی ہے۔
دریا سے نکلنے والی وسیع نہر کے عین کنارے پر رینجرز کا ایک بندوق بردار سپاہی متعین تھا جو معمولاً نہر کے پل کو پار کرنے کے خواہش مندوں کی حوصلہ شکنی کر رہا تھا۔ ادھر مجھے اور عبداللہ کو ایک سنگ میل نے چونکایا جو ہیڈورکس سے متصل پختہ رہگذر پر نصب تھا اور جس پر لکھا تھا : دہلی 424کلومیٹر ۔ میں نے یہ بات منور کو بتانے کو تو بتا دی مگر اس سادہ دل کے چہرے پر معاً خوف کے آثار دیکھے۔ اس نے گاڑی پل کے ایک طرف کھڑی کر رکھی تھی۔ میں لپک کر رینجرز کے اہل کار تک پہنچا اور اس سے عرض معروض کی کہ ہمیں پل کے دوسری طرف جانے دے۔ کچھ اصرار کے بعد اس نے آمادگی ظاہر کی مگر اب عجیب لطیفہ ہوا۔ منور نے گاڑی پل کے دوسری طرف لے جانے سے صاف معذرت کر لی۔ میرے استفسار پر بولا : نا سر جی! میرے چھوٹے چھوٹے بچے نیں جے اوہناں مینوں پھڑ لیا تے فیر؟ بیچارہ ’’دہلی چار سو چوبیس کلومیٹر‘‘ سے متوحش ہو کر اس گمان میں مبتلا ہو گیا کہ دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ شاید اس کا خیال تھا کہ پل سے پار دہلی کے علاقے کا آغاز ہو رہا ہے۔ میرا جی چاہا کہ اسے کہوں: ہنوز دلّی دور است! خیر میرے حوصلہ بڑھانے سے وہ آگے بڑھا اور ہم پاک بھارت سرحد تک کا سارا منظر دیکھ کر لوٹے!
ہیڈ سلیمانکی سے لوٹتے ہوئے ہم ایک بار پھر بصیر پور کی خاکِ خواب آثار سے گزرے ، بصیر پور جو میرے زمانے کے ایک آہستہ خرام قریے سے اب تیز قدم بصیرپور ٹاؤن میں تبدیل ہو چکا ہے! قبل ازیں یہاں احباب سے ملاقات ہو چکی تھی، شہر خموشاں میں آسودۂ خواب ماں کے لیے دعا کر چکا تھا۔ اب کے پھر میرے ہونٹ ہلے۔ دعا کے ساتھ ہی اپنا ایک شعر حافظے میں کوندے کی طرح لپکا : ؎ جو میں نے چپکے چپکے کی دعا اس تک بھی پہنچی / خدا کا شکر یہ ٹھنڈی ہوا اس تک بھی پہنچی! پھر اپنے کئی مرحوم اساتذہ اور ہم جماعتوں کی یاد آئی جو اس عالم ناسوت میں چار دن گزار کر عالم بقا کو سدھار چکے تھے اور اسی گورستان میں یا اس کے قرب و جوار کی مٹی کی ڈھیریوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے تھے: اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں! خیال آیا یہ عالم خدا معلوم کب سے ہے مگر جب سے ہے لمحہ لمحہ مرتا اور لحظہ لحظہ جیتا ہے، ہر سانس کی آمد و شد حیات و ممات کی کہانی سناتی ہے مگر حال مست انسان نے کانوں میں غفلت کی روئی ٹھونس رکھی ہے۔ سعدی کے سے عبدِ شکور نے ’’گلستاں‘‘ میں سانس کے آنے جانے کے حوالے سے کس پتے کی بات کہی تھی کہ جو سانس سینے کے اندر نفوذ کرتا ہے، ممدِ حیات ہے اور جب باہر آتا ہے تو ذات کے لیے موجب فرحت ہوتا ہے۔ پس ہر سانس میں دو نعمتیں موجود ہیں اور ہر نعمت پر ایک شکر واجب ہے ۔ اقبال نے موت و حیات کی گتھی کو کس سلیقے سے اور کس حکیمانہ ایجاز کے ساتھ کھولا تھا: خواب را مرگِ سبک داں، مرگ را خواب گراں! (نیند کو ہلکی موت سمجھ اور موت کو بھاری اور گہری نیند) اور پھر یہ کہہ کر موت سے لرزاں وترساں آدم زاد کو کتنی تسلی دی تھی: ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں / جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں۔ معلوم نہیں میں کب تک اس کیفیت میں گم رہا اور بصیرپور سے کب نکلے اور اوکاڑا کی طرف کب روانہ ہوئے کہ اچانک عبداللہ کی آواز نے چونکا دیا۔ نانا! مجھے ہڑپہ لے جانا نہ بھولیے گا۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ، مگر آج تو ہم اوکاڑا رکیں گے۔ ہڑپہ کی باری کل آئے گی۔ خیال تھا رات اوکاڑا کسی ہوٹل میں قیام کریں گے۔ اس ضمن میں فون کر کے شاگرد عزیز حسن اقبالی سے رہنمائی چاہی تو اس نے اپنے گھر قیام پر اصرار کیا اور یہ اصرار اس قدر بڑھا کہ مجھے ہتھیار ڈالنا پڑے ۔ رین بسیرا سی کی اقامت گاہ پر ہوا۔
حسن اقبالی اوکاڑہ کے ایک مقامی کالج میں استاد ہیں۔ اورینٹل کالج کے شعبہ اردو سے فارغ التحصیل ہیں۔ اردو ادب اور خصوصاً اقبال سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ خانوادۂ اقبال سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ رات دیر تک مجھے اپنے علمی منصوبوں سے آگاہ کرتے رہے۔ فارسی ، عربی سے اچھی آگاہی رکھتے ہیں۔ خیال ہے کہ اگر انھوں نے ’’سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ کے حکیمانہ قول کو حرزِ جاں بنایا، ریاضت اور ارتکاز سے کام لیا اور اوقات کے انضباط کو پیش نظر رکھا تو بڑی توقع ہے کہ ادب و تحقیق اور اقبالیات کے میدان میں نام پیدا کریں گے۔
اقبالی صاحب نے ہمارے آرام کا بڑا خیال رکھا ، ہم ایک رات کے مہمانوں کی بڑی آؤبھگت کی۔ اگلے دن ناشتے کے بعد ہمارا رخ ساہیوال کی طرف تھا تاکہ وہاں سے اس تاریخی عبرت کدے کی طرف قدم زن ہوں جسے دنیا ہڑپے کے نام سے جانتی ہے اور جو آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے ایک جیتا جاگتا متمدن شہر تھا،ہمکتا، بولتا چالتا اور سانس لیتا شہر!۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.