پنجاب نمبر1صوبہ

95

جیسے کبھی کبھی بھلے وقت گزرتے ہوئے یہ احساس پیدا نہیں کرپاتے کہ یہ واقعی بھلے زمانے ہیں ویسے ہی کبھی کام کے پیمانے بھی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن کا نیا سروے بتارہاہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی گزشتہ سال میں بقیہ وزرائے اعلیٰ سے بہتررہی ،الفاظ سے زیادہ عددی کیفیت بتارہی ہے صحت اور تعلیم میں پنجاب دیگر صوبوں سے بازی لے گیا دوسرے نمبرپر آنے والے خیبرپختون خوا کے وزیراعلیٰ محمودخان تیسرے نمبرپر سندھ کے مراد علی شاہ اور بلوچستان کے عبدالقدوس بزنجو چوتھے نمبر پر ہیں جہاں تک سندھ کی بات ہے تو مراد علی شاہ پھر بھی متحرک نظرآتے ہیں قائم علی شاہ صاحب کے خفیہ پلے گرائونڈوں میں ہیلی کاپٹر سے اترنا اور خواب آلود بسر واوقات پرکون سی قیامت آگئی وہ بھی خواب خرگوش کے مزے لے گئے اور بھرے خزانوں سے دوچار معمولی مقدمے جو پیرانہ سالی کے باعث ان پر کیا ہی چلے ہوں گے
مصحفی یاد آگئے …
’’میراخاموش رہنا وقت پیری گرچہ بہتر تھا ‘‘
یہ ہدایت گرچہ ’’اپنے واسطے بھی ہے مگر کیا کریں خاموشی کو مجرمانہ نہ قرار دے دیا جائے تو بول اُٹھتے ہیں کہ ہمارے قبیلے میں زبان نہیں ہاتھ بولتے ہیں، اسی لیے ڈر لگا رہتا ہے کہ سچ بولیں زبان کٹوا کر تو چاردن گزارہ ہو جائے ہاتھ کٹوا کر کیسے ہو…
پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار پرسب سے زیادہ تنقید اس باعث بھی ہوئی کہ باقی وزرائے اعلیٰ کے لوگوں کو نام بھی نہیں آتے سروے کی وجہ سے ان کے نام لوگوں کو پتہ چلے سندھ کی الگ سیاست ہے وہاں براہ راست سرپر سائیں بیٹھے رہے ہیں سارے انکل ایک کھاتے میں اور بھتیجا اور اس کے سر پر شطرنجی والا ’’بھٹوز‘‘ سے الگ کوئی اور ہی سیاست کررہے ہیں۔
ہم بھی ماننے کو تیارکیوں نہیں ہو جاتے کہ’’بھٹوز‘‘ کا دور ختم ہوگیا تاریخ بتاتی ہے اتنے اتنے بڑے سلاطین صفحہ ہستی سے مٹ گئے صدیوں حکومت کرنے والے خاندان اینٹیں اورگارے سے بنی عمارتیں چھوڑ گئے مگر خانوادوں کا اختتام ہوگیا، اس تذکرے سے مسلم لیگ ن کے سرکردہ لیڈروں کے بیانات یاد آگئے قطع نظر اس مغالطے سے کہ ’’میاں صاحب کا نام کیسے لیا جارہا ہے وہ خوش ہورہے ہیں کہ سیاست ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کے گرد پھر رہی ہے اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو جتنے بڑے مشاہیر کا تذکرہ ہے شمر یزید ابوجہل کا کم تو نہ ہوگا محض تذکرہ ہو جانے سے کیا ہوتا ہے؟ خیریہ بھی ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کا مسئلہ ہے ’’بڑوں‘‘ کے ہاں رسوائی اورشہرت میں کوئی فرق نہیں… یہ حوصلہ سیاست دانوں میں بھی ہوتا ہے اور شاعروں میں بھی کہ رسوائی اور شہرت میں چنداں فرق نہیں جانتے… پروین شاکر مرحومہ یاد آگئیں
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
اپنی تئیں شاعر بھی خود کو مسند بادشاہت پر متمکن دیکھتے ہیں
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
بس یہی فرق ہے ابھی کی باتیں کبھی جاکر محفلوں سے تنہائیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، آنکھ کھلتی ہے تو شامیانے اُٹھ چکے ہوتے ہیں پھولوں کی بارشیں اور مہکتے لوگ ہوا ہوچکے ہوتے ہیں تن تنہا وجود صحرا میں گڑا ہوتا ہے ساری بات آنکھ کھلنے کی ہے اور ازخود کھولی بھی کیوں جائے جب تک خواب کی فلم چلتی ہے کیا کبھی کسی نے اس میں ایڈیٹنگ کی ہے، خواب کو بڑا یا چھوٹا نہیں کیا جاسکتا ادھر عوام کا اپنا ہی گیت ہے انہیں عددی قطار وشمار اورمعیشت کے سنگین معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں انہیں شروع ہی سے پیٹرول پانی بجلی اور مہنگائی کی پٹی پڑھائی گئی ہے دیگر یہ کہ جہاں اپنا شعر بھی لگے لگادینا چاہیے…
ہم اہل حزن ہیں مشرق کے رہنے والے ہیں
ہمیں تو عشق کی پٹی پڑھائی جاتی ہے
مگر مندرجہ بالا مسائل، بلوں میں اضافے اور مہنگائی کی پٹی سات نسلوں سے سیاست دان ہی پڑھاتے آئے انہیں موضوعات کی وجہ سے فیضیاب بھی ہوئے اور بعدازاں دکھی بھی انہیں ٹاپکس، کے رہین منت ہوئے… اب گھبرائے کہتے ہیں
شام بھی ہوگئی دھندلا گئی آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں
یہ وہ بھولے بھٹکے عوام ہیں جنہیں پہلے چار چھ نظریاتی اخبارات نے ’’اوپینئین ‘‘Opinion بنانے کی مشین پر لگارکھا تھا، جیسے نوائے وقت کا الگ نظریاتی قاری گروپ تھا جنگ کا قدرے شوخ اور خبریں نے ایک احتجاجی نظریہ اپنایا… اب رنگوں میں رنگ گھل گئے ہیں کسی کا کوئی انفرادی نظریہ نہیں سب نظریئے آپس میں گھل مل گئے ہیں جیسے تمام سیاست دانوں کے چہرے گھل کر مکچر بن گئے ہیں تین سال پی ایم ایل این دوسال پی پی دس  سال مختلف پارٹیوں اور ایک آدھ سال آزاد امیدوار اب سکرین پر بیان سنتے ہوئے ذرا غور کرنا پڑتا ہے کہ موصوف اب کے کس پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ترجمان وہی اچھا ہوتا ہے جو اپنے لیڈر کی ترجمانی کرکے تاکہ اپنے جذبات کی اخبارات کے بڑے بڑے ایڈیٹر خود پس پردہ رہ کر دوسروں کو کالم نگار اور قلمکار بناتے ہیں وزارت اطلاعات میں بھی دوسری شخصیات کی شخصیتوں کو نمایاں کرکے خود اپنے فرائض کے ’’حجرے‘‘ میں ہمہ وقت مصروف راجہ جہانگیر انور کام کرتے رہتے ہیں ان کے لیے غالب کا ایک شعر بلکہ مصرعہ …
’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ‘‘
ہم لوگوں کے ہاتھوں توصیف کے جملے بہت ہی کم نکلتے ہیں مگر ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کی علمی بصیرت اور کام کی دیانت دیکھ کر رہا نہیں جاتا بلکہ یہ کہوں تو جائز ہوگا ان کے بارے میں توصیفی نہیں اعترافی جملے ہیں کہ انہیں سیاست میں آنے سے قبل جانتی ہوں وہ اپنی ’’فائنانس‘‘ کی فیلڈ کے ماہر پروفیشنل ہیں جب وہ پنجاب گورنمنٹ میں آئے تو دو خوشیاں بیک وقت ہوئیں ایک تو فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان (جن کا انداز کم وبیش ایک جیسا تھا) وزیراعلیٰ کا جو منفی چہرہ ابھاررہے تھے (ہوسکتا نادانستگی میں )وہ انتہائی پڑھے لکھے ترجمان حسان خاور کی موجودگی سے زائل ہوگا دوسرے وہ اکنامکس، ایجوکیشن بیوروکریسی اور اپنے سبجیکٹ پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور یہ عبور بغیر دیانت داری حاصل ہو نہیں سکتا جو شخص خود سے سچا ہوتا ہے وہ ہی ’’گنی‘‘ ہوتا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ میں سوبرائیٹی اور سروے کی روایت بھی انہیں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بدولت ہیں۔
باقی صوبوں میں بھی اسی نہج پر تبدیلی کی ضرورت ہے کہ جب تک ملک کا انٹلکچوئل طبقہ ساتھ نہیں ملتا اکیلی سیاست بانجھ رہتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.