کیا عمران خان سکیورٹی رسک ہیں؟

31

یہ قصہ بھی ختم ہوا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ کس نے کیا تھا۔ عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے اس بات کا فیصلہ بھی ہو گیا کہ نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے غلط رپورٹس عدلیہ کو کون فراہم کرتا رہا۔ کیا حکومت نے جان بوجھ کر یہ سب کچھ کیا تاکہ نواز شریف کو ملک سے نکالنے کا راستہ دیا جائے یا یہ سب کسی ڈیل کا نتیجہ تھا۔ کیا طبی معائنے اور اس کی جاری ہونے والی رپورٹس حکومت کے مقرر کردہ بورڈ کی نہیں تھیں۔ ان رپورٹس کے صحیح ہونے کی تصدیق اب بھی پنجاب کی وزیر صحت کر رہی ہیں تو پھر قصور کس کا ہے۔ کیا نواز شریف بیمار تھے یا جان بوجھ کر یہ سب کچھ کیا گیا آنے والے وقت میں یہ سب بھی سامنے آ جائے گا۔ فی الحال حکومت کے سب سے معتبر وزیر اسد عمر کی بات سن لیں جو انہوں نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے تاکہ آپ کو سیاق و سباق سمجھ آسکے۔ منیب اقبال کے پروگرام میں اسد عمر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ ‘100’ فیصد صرف وزیراعظم عمران خان نے لیا تھا۔ جب سابق وزیراعظم کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ کمرے میں موجود پی ٹی آئی کے 6 سے 8 سینئر رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب وزیر اعظم کو یقین ہے کہ وہ میڈیکل رپورٹس جن کی بنیاد پر نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جھوٹی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیصل سلطان اور دیگر طبی ماہرین نے بھی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس دیکھی تھیں اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا مشورہ دیا تھا۔
ماضی میں وزیراعظم اور ان کے معاونین نے کئی مرتبہ یہ کہتے ہوئے اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ حکومت نے ‘حقیقی میڈیکل رپورٹس’ کی بنیاد پر انہیں علاج کے لیے جانے کی اجازت دی تھی۔روانگی سے قبل جب نواز شریف لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے، وزیراعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے خفیہ طور پر طبی ماہرین کو ان کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اگر خفیہ ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کر دی تھی تو پھر بار بار نواز شریف کی بیماری کو ہدف تنقید بنا کر حکومت جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر اور جعلی میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر باہر گئے تھے تو وہ سب لوگ اب تک اپنے عہدوں پر کیوں موجود ہیں جو اس سارے کھیل کا حصہ تھے۔ کیا عمران خان اس قدر بے بس ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں اس سارے نظام کی کریڈیبیلٹی صفر ہو جاتی ہے۔ عمران خان کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں اور ان کے ساتھ وہ گروہ اور افراد موجود ہیں جو ان سے غلط فیصلے کرا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر کہتے ہیں کہ ان کی بات کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا جا رہا لیکن جب ان کی گفتگو کو بار بار سنا جائے تو اس بات پر یقین کرنا ہو گا کہ حکومت نے یہ فیصلہ خود کیا، اس کے پیچھے کیا محرکات تھے وہ ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ یہ فیصلہ محض اس خطرے کے پیش نظر نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام عائد ہو جائے گا۔
ہم نواز شریف کی بیماری کا دفاع نہیں کر رہے۔ یہ کام ان کی پارٹی کے رہنماؤں کا ہے ہم تو یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر عمر صاحب درست فرما رہے ہیں تو باربار نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لیے عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کی دانستہ کوشش کیوں ہو رہی ہے۔ اس بات کا جواب بھی سامنے آنا چاہیے کہ اگر نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے ساری رپورٹس جعلی تھیں تو یہ جعلی کام کرنے والے افراد اور ادارے اب تک اپنی اپنی جگہ پر کیوں موجود ہیں۔ میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جس لیب سے کرائی گئیں اور جسے ملک کی معتبر لیب کہا جاتا ہے اس کا آپریشن اب بھی دھڑلے سے کیوں جاری ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے ان جعلی رپورٹس کی بنیاد پر اس لیب کو کام جاری رکھنے کی اجازت کس لیے دے رکھی ہے۔ حکومت نے اس نجی لیب کے علاوہ سرکاری لیب سے بھی یہ رپورٹس کرائی تھیں جس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کے پلیٹ لیٹس چند ہزار رہ گئے ہیں۔ کیا وہ بھی اس سارے کھیل میں شریک تھے۔ حکومت نے ملک کے بہترین ڈاکٹرز پر مشتمل جو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا کیا وہ سب بھی خریدے جا چکے تھے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس ملک میں کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے اور یہ انتہائی تشویشناک امر اور بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے۔
یہ بات بھی انتہائی قابل افسوس ہے کہ ملک کے ذرائع ابلاغ اس بات پر ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ اسد عمر نے یہ کہہ دیا کوئی بھی ان سے جواب دہی نہیں کر رہا اور ان سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ اگر یہ سب ٹھیک ہے اور ہم آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ کیا یہ مافیا اس قدر مضبوط تھا کہ اس نے جیل کے عملے کے ساتھ تمام ڈاکٹرز اور لیب کے سارے عملے کو خرید لیا اور اس میں وہ ڈاکٹرز بھی شامل تھے جو حکومت کے قابل اعتبار شمار ہوتے ہیں۔ کیا وہ بھی اس سارے کھیل کا حصہ تھے۔ کیا عدالت بھی اس کھیل میں شامل ہو چکی تھی جس طرح حکومتی ترجمان بات کرتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہو رہا ہے تو کیا وجہ تھی کہ اس ڈرامے کو بے نقاب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس حکومت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے، یہ کام کرنے کے لیے یہ خود ہی کافی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا شگوفہ چھوڑا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ان کی کسی بات پر لوگ اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم ٹوئیٹر پر موجود ہیں لیکن کیا کبھی انہوں نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ ان کے ٹویٹس پر لوگ کس ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نئے نظام کے شوشے چھوڑ کر حقیقی مسائل سے لوگوں کی توجہ نہیں ہٹائی جا سکتی۔ آپ اس نظام کو چلانے میں ناکام ہو جائیں گے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نئے نظام کو چلا بھی سکیں گے یا نہیں۔
نواز شریف کی بیماری اور انہیں باہر بھیجنے کا فیصلہ ریاست کے لیے ایک معمول کی کارروائی ہونا چاہیے تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ حکمران اپنے مخالفین کو باہر بھیج کر آپ اپنی توجہ نظام کو چلانے پر مبذول کراتے ہیں اور ملٹری ڈکٹیٹر یہ کام پہلے بھی کرتے رہے۔ ضیاالحق نے بے نظیر کو باہر بھجوادیا، پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی اور اپنا راستہ ہموار کیا، اگر عمران خان نے بھی نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لیے کوئی ڈیل کی ہے تو اس پر سٹینڈ لیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور وزیراعظم کو الو بنایا گیا ہے تو یہ بہرحال ایک تشویشناک بات ہے۔ ترجمانوں کو اپوزیشن کو گالیاں دینے کا کام سونپنے کے بجائے انہیں کسی کارآمد سرگرمی پر لگائیں تو شاید ملک کا مقدر سنور جائے۔

تبصرے بند ہیں.