زمان خان : جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

69

بلاشبہ آج ذرائع ابلاغ کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج میں سمٹ چکی ہے جس میں ہمیں دنیا کے کونے کونے سے لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کی خبر پلک جھپکنے میں مل جاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس گلوبل ویلیج میں ہمیں اپنے گھر کے پچھلے آنگن میں ہونے والی پیش رفت کی خبر نہیں ہوتی۔ لاہور میں سکونت کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہمیں اپنے آبائی شہر فیصل آباد جسے میں گھر کا پچھلا آنگن کہتا ہوں اس سے ہم کٹ کر رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں فیصل آباد کے شب و روز کی خبریں تاخیر سے ملتی ہیں۔ ویسے بھی اس افراتفری کے دور میں ہماری contacts لسٹ میں اگر کسی کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رابطہ نہ ہو تو یہی سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ خیریت سے ہیں اور مصروف ہیں اس میں مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ اگر خیریت نہ ہوتی یا ایسی ویسی کوئی خبر ہوتی تو ہمیں پتہ چل چکا ہوتا مگر بعض دفعہ یہ مفروضہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔
محترم زمان خان صاحب کی اچانک وفات کی خبر ہمیں دو ماہ کی تاخیر سے ملی تو افسوس کے ساتھ ساتھ شرمندگی اور بے خبری کا عنصر زیادہ تھے وہ ہمارے بڑے پرانے فیملی فرینڈ تھے ان کی اہلیہ میڈم امینہ زمان سوشل ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابستہ ہیں اور انہوں نے فیصل آباد میں انسانی حقوق، حقوق نسواں اور معاشرے سے غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے پراجیکٹس پر کام کیا ہے اور اب بھی مصروف عمل ہیں۔ میڈم امینہ کی میرے اور میری فیملی کے ساتھ شفقت ایک اعزاز ہے یاد رہے کہ ان کے اسرار پر ہی ہم نے بیٹی کی تعلیم کے لیے فیصل آباد سے لاہور ہجرت کی تھی۔ مگر اس ذاتی وابستگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے مرحوم زمان خان صاحب کا اپنا ایک سماجی قد و قامت ہے۔
زمان خان صاحب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے بانیوں میں سے ہیں اور گزشتہ 20 سال سے زائد عرصہ سے اس کے شکایات سیل کے سربراہ تھے۔ وہ HRCP کی گورننگ باڈی کے مرتے دم تک رکن رہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے جنہوں نے تمام عمر انسانی حقوق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا مگر زمان خان صاحب کی شخصیت اتنی ہم گیر ہے کہ اسے آپ کسی ایک خانے تک محدود نہیں رکھ سکتے ۔ وہ پیدائشی طور پر انقلابی تھے جو عظمت آدم کی پاسداری کے لیے عمر بھر جدوجہد کرتے رہے ۔ مارشل لاء کے دور میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔ بطور صحافی وہ انگریزی اردو پنجاب زبان کے مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے تھے۔
چند سال پہلے انہوں نے روزنامہ نئی بات میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا لیکن ان کے کالم والے ادارتی پیج پر مجھے اپنا کالم دیکھ کر ایک عجیب طرح کی اہمیت اور اطمینان کا احساس ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ اسی صفحہ پر میرا کالم بھی شائع ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی ویژن اور تجربے میں بہت سینئر تھے۔ زمان خان صاحب بہت سی کتابوں کے مصنف تھے لیکن ان کی آخری کتاب Alternative Vision مجھے ان کی وفات کے بعد میڈم امینہ زمان سے ملی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے بطور خاص میرے لیے رکھی تھی مگر زندگی نے موقع نہیں دیا کہ یہ وہ خود مجھے دے سکتے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے ماضی کے مختلف شخصیات کے جو انٹرویو کیے تھے اور جو کہیں نہ کہیں شائع ہوئے تھے ان سب کو ایک کتابی شکل میں یکجا کیا ہے۔ اس پر تبصرہ کے لیے الگ کالم درکار ہے۔ اس کے سرورق پر عاصمہ جہانگیر ، نصرت فتح علی خان اور کچھ دیگر شخصیات کی تصاویر ہیں۔
زمان خان صاحب پاکستان انڈیا پیپلزفورم کے بانی تھے وہ کئی دفعہ انڈیا تشریف لے گئے ان کا ویژن یہ تھا کہ ساؤتھ ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان جہاں دنیا کی 20 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے ان کے درمیان عوامی سطح پر تعلقات کو بہتر بنایا جائے تا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے عوامی امنگوں کے پیش نظر آپس کے تعلقات کو بہتر بنائیں اور امن و امان کی فضا قائم ہو تا کہ حکومتیں عوامی مسائل پر توجہ دے سکیں۔ حالیہ کتاب میں بھی انہوں نے پاکستانی دانشوروں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ انڈیا اور سری لنکا کی شخصیات پر بھی لکھا ہے۔
زمان خان صاحب نے طلبہ تنظیموں، مزدوروں، کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زندگی میں بہت کام کیا وہ ٹریڈ یونینز کے ساتھ عمر بھر وابستہ رہے انہوں نے ہرفورم پر معاشرے کے کمزور اور پسے ہوئے طبقے کی آواز کو اجاگر کیا اور انسانی حقوق کے علمبرداری کی ۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا اے ساقی
(علامہ اقبال)
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ مرحوم زمان خان صاحب اور میڈم امینہ زمان دونوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ان دونوں کا باہمی موازنہ کریں تو یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان میں سے کس کا contribution زیادہ یا کم ہے دونوں نے بھرپور انداز میں سماج کے اندر ایک صحتمند اور توانا جدوجہد کا مظاہرہ کیا ان کو جاننے والے ان کے اس کردار سے بخوبی واقف ہیں۔ زمان صاحب سے میری آخری ملاقات ہماری بیٹی ڈاکٹر جویریہ فرخ شہزاد کی شادی پر ہوئی تھی۔ وہ میڈم امینہ زمان کے ساتھ خصوصی طور پر ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہمیں عزت بخشی۔ آج کے دور کے سیاسی و سماجی ورکر کے لیے ان کی زندگی ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
پرانے دور میں یہ ہوتا تھا کہ معاشرے کے دانش ور طبقے کو قومی اشرافیہ کا حصہ سمجھا جاتا تھا یہ طبقہ سیاست میں بھی کسی نہ کسی طرح شامل تھا لیکن افتاد زمانہ کے ساتھ سیاست میں پیسے اور سرمایہ کاری کی
وجہ سے دانش ور طبقہ پس منظر میں چلا گیا اور سیاست سرمایہ داروں کے نرغے میں آگئی۔ زمان خان صاحب کی کتاب Alternative vision اپنے نام یعنی متبادل بصیرت سے ہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے سماجی و سیاسی مسائل کا حل ہی یہ ہے کہ آپ اپنے دانش ور طبقے کی آواز سنیں ہو سکتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہے ہوں۔ زمان صاحب نے جس معاشرے کے قیام کا خواب لے کر ساری عمر اسی کی تعبیر کے لیے جدوجہد کی وہ اب بھی ناتمام ہے لیکن فتح شکست ہی کامیابی کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ انقلاب کے لیے جدوجہد ہی کامیابی کی جانچ کا معیار ہے۔ اس ترازو میں دیکھا جائے تو زمان خان اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ا للہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
انتظار بہار بھی کرتے
دامن چاک سے اگر اپنے
کوئی پیمان پھول کا ہوتا
آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں
دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی
دہر میں کوئی نو بہار نہیں

تبصرے بند ہیں.