کیا تمام مسلم ممالک واقعی آزاد اور خود مختار ہیں؟ اِس سوال کے جواب سے پہلے ایک اور سوال زیادہ اہم ہے کہ کیا مسلم ممالک میں کوئی ایک بھی ایسا ملک ہے جو کسی عالمی طاقت کا فرمانبرداریا کسی عالمی بلاک کا حصہ نہیں ظاہر ہے تمام اسلامی ممالک کسی نہ کسی حوالے سے دھڑوں میں منقسم ہیں کسی کو امریکی خوشنودی عزیز ہے تو کوئی چینی بلاک کا حصہ بن کر خوش ہے کسی کو یورپی یونین کی الفت مارے جارہی ہے ظاہر ہے ایسے حالات میںآزادانہ فیصلے نہیں ہو سکتے کیونکہ عالمی طاقتوں کے ہمنوا یا بلاک کا حصہ ممالک کو مختلف نوعیت کے دبائوکا سامنا رہتا ہے اِس وقت تمام مسلم ممالک کو ایسی ہی صورتحال درپیش ہے جس کے بعد آزاد ی و خود مختاری کے سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی توپھر مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کیونکر آزادانہ فیصلے کرسکتی ہے یہ بھی فیصلے کرتے ہوئے رکن ممالک کی طرح گروپوں اور سرپرست عالمی طاقتوں کی اجازت پیشِ نظر رکھتی ہے اور کسی ایسے فیصلے سے حتی الامکان گریز کرتی ہے جس سے کسی عالمی گروپ ،دھڑے یا طاقت کی ناراضگی کا خدشہ ہواسی وجہ سے غیر اہم ہے اور اسلامی دنیا کو درپیش مسائل جوں کے توں برقرار ہیں بظاہر آزاد لیکن مختلف جکڑ بندیوں کاشکار اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے فیصلوں کواسی لیے عالمی دنیا اہمیت نہیں دیتی بلکہ اجلاسوں کو محض اُٹھک بیٹھک کے طور پردیکھتی ہے ۔
انتشار کا شکار مسلم دنیا وسائل کے اعتبار سے پس ماندہ نہیں بلکہ کافی خوشحال ہے ستم ظریفی یہ کہ وسائل کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ غربت مسلم ممالک میں ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کے بڑے زخائر سے مالا مال مسلم ممالک کا اپنی دولت علم و ہُنرکے فروغ کے بجائے غیر ملکی بینکوں میں محفوظ کرانا ہے یہ بینک عالمی طاقتوں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اسی لیے اکثر پابندیوں کی آڑ میں جمع شدہ دولت یا تو منجمد کردی جاتی ہے یا ضبط کر لی جاتی ہے ایسا کچھ لیبیا ،ایران ،عراق سمیت کئی ممالک سے ہاتھ ہو چکادراصل مسلم حکمران اپنے بُرے وقت کے لیے اپنی عوام کی افلاس کے باوجود ملکی دولت بیرونِ ملک چھپاتے ہیںلیکن شاہ ایران ہوِ یا صدام حسین یا پھر کرنل قذافی یہ چھپائی دولت کسی کے کام نہ آئی آج کل افغانستان کو بھی ایسی ہی صورتحال کاسامنا ہے صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد اثاثے ایسے حالات میں منجمد کر لیے گئے ہیں جب ملک کی نصف سے زائد آبادی کوغربت اور بھوک کا سامنا ہے اور قحط جیسے حالات بننے لگے ہیں لیکن بے رحم دنیا افغان دولت کو افغانوں کو خوراک و ادویات کے لیے بھی جاری کرنے سے انکاری ہے اِس طرح دولت ہونے کے باوجود مسلم ممالک شہریوںکے مسائل حل نہیں کرپاتے لیکن کیا مستقبل قریب میں
کچھ بہتری آثارہوسکتے ہیں افسوس ایسا نہیںاِس حوالے سے اُس وقت تک کوئی بھی یقینی طور پر ہاں میں جواب نہیں دیا جا سکتا جب تک دیگر عالمی مالیاتی اِداروں کی طرح اسلامی ترقیاتی بینک صحیح معنوں میں فعال نہیں ہو پاتاخیر جب او آئی سی غیر فعال ہے تو اسلامی ترقیاتی بینک سے فعال ہونے کی اُمید کیسے رکھی جا سکتی ہے۔
او آئی سی کے اِس وقت دنیا میں 57 مسلم ممالک ممبر ہیں اِس تنظیم کے موجودہ سربراہ سعودی عرب کی تجویز پر اسلامی تعاون تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا موجودہ اجلاس اسلام آباد ہوا ہے جو موجودہ حالات میںبہت اہمیت کا حامل ہے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے اِس اجلاس کا واحد ایجنڈا بحرانی صورتحال سے دوچار افغانستان کے لیے ٹھوس عملی اقدامات تھااسلامی ممالک افغانستان کی امداد پر متفق تو ہو گئے ہیں سعودی عرب نے ایک ارب ریال امداد کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد ہوگا یاحالیہ اجلاس بیٹھنے ،بات کرنے اور واپسی کے راہ لینے پر منتج ہوگا حتمی طور پر اِ س لیے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں بھی او آئی سی اپنی قرار دادوں پر عمل کرانے میں ناکام رہی ہے بھارت جیسے کئی ممالک تو اِس تنظیم کے فیصلوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور اگر کبھی کبھار اِس تنظیم کی طرف سے کشمیریوں بھائیوں کی ہمدردی میں دوچار لفظ بول دیے جاتے ہیں تو بھارت نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے پھر بھی اسلامی ممالک کشمیر کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کیا اب افغانستان کے بارے میں ہونے والے فیصلے بھی کشمیریوں کے حق میں بیان جاری کرنے کی طرح ہی ثابت ہوں گے اسلامی قیادت کو اِس بارے سوچنا ہو گا۔
افغان عوام کو چالیس برس سے جنگ کے شعلوں کا سامنا ہے جس سے صنعت وزراعت کوسخت نقصان ہوا ہے اور پیداوار نہ ہونے سے سامانِ تجارت کم ہو گیا ہے جبکہ بیرونی بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر امریکہ نے روک رکھے ہیں یہ طالبان کی عبوری حکومت کو ایسا جھٹکا ہے جس سے وہ سنبھل نہیں پارہی اور نہ صرف تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے بلکہ ملک انسانی المیے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لیکن عالمی طاقتوں کی سنگ دلی میں کمی نہیں آئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجود حالات کا ذمہ دار امریکہ آگے بڑھتا مگر لگائے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اُلٹا مالی مسائل بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے جس سے درپیش انسانی مسائل اورمعاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتاجارہاہے حالیہ اجلاس میں او آئی سی کے رُکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ، اقوامِ متحدہ سمیت کئی مالیاتی اِداروں، امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس، جاپان، اٹلی، چین، یورپی یونین کے نمائندوں اور بعض غیر رکن ممالک کو بھی مدعو کیا کیا گیا ہے جس سے حالیہ اجلاس کی ہمہ گیری اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے شاید اسی بنا پر عالمی سطح پر اِس اجلاس کی کچھ اہمیت بن جائے لیکن عالمی طاقتوں کی موجودگی سے آزادانہ فیصلوں کی توقع پوری نہیں ہو سکتی اگر عالمی طاقتیں مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوتیں تو مسائل گمبھیر کیوں ہوتے اب بھی خوراک اور ادویات کی فراہمی کے ساتھ افغانستان کو تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر توجہ دی جائے تو فغانستان کی کئی ٹریلین ڈالر کی معدنیات نکال کر افغانوں کی بھوک و افلاس مستقل بنیادوں پر ختم ہو سکتی ہے اِس حوالے سے روس اور امریکہ کے جیالوجیکل سروے رہنمائی کے لیے موجود ہیں مگر یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب آزادانہ فیصلے کیے جائیں اگر فیصلے کرتے ہوئے بھی عالمی طاقتوں کے اشارہ ابرو کا انتظار کرنا ہے تو حالیہ اجلاس بھی نتائج کے حوالے سے دودن کے میلے کے سوا کچھ نہیں ۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.