اب ایک اور بجٹ آئے گا

103

یہ جو منی بجٹ لایا جا رہا ہے اگریہ منظور ہو جاتا ہے تو اس سے یقینا لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے گی جبکہ وہ پہلے ہی ہوشربا گرانی سے گھائل نظر آتے ہیں۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے اگرچہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اس منی بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گی مگر اب تک انہوں نے اپنے کہے ہوئے پر عمل نہیں کر کے دکھایا لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ حکومت کی طرف سے لائے جانے والے منی بجٹ کے آگے کوئی دیوار بن کرکھڑا نہیں ہو سکیں گی۔ یہ تو عوام کو خود سامنے آنا ہو گا۔ حزب اختلاف کی ایک بھی جماعت کو قومی معاملات سے دلچسپی نہیں۔ انہیں دلچسپی ہے تو اپنے اقتدار سے جس کے لیے وہ شور مچاتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح عوام کی ایک بڑی تعداد کو سڑکوں پر لانا چاہ رہی ہیں مگر عوام ان سب سے بدگمان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے ماضی میں کبھی بھی عوامی مفاد کو اہم نہیں سمجھا لہٰذا وہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو نظر انداز نہیں کر سکیں یعنی انہوں نے کہا کہ فلاں اداروں کو نجی تحویل میں دینا ہے اتنے فیصد ٹیکس لگانا ہے قرضوں کو بنیادی صنعت کاری کے لیے استعمال میں نہیں لانا اور مہنگائی میں اضافہ کرنا ہے تو اس پر من و عن عمل درآمد کیا گیا لہٰذا اب وہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ان کے دل میں عوام کا درد اٹھ آیا ہے۔ چلئے یہ تجزیہ درست نہیں ہے تو وہ عوام کا اعتماد کیوں حاصل نہیں کرسکیں اور میدان عمل میں آکر حکومت کے لیے درد سر کیوں نہیں بن سکیں؟
بہرحال اگر وہ منی بجٹ کو پاس نہ کروانے میںکامیاب ہو جاتی ہیں تو لوگ انہیں یہ ضرور کہیں گے کہ وہ ان کے ساتھ مخلص ہیں ان کا بھلا چاہتی ہیں نتیجتاً آنے والے عام انتخابات میں وہ ان کی ہمدردیاں سمیٹ سکتی ہیں یوں سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا مگر یہ سوال بھی پیدا ہو گا کہ کیا عمران خان حکومت کے کئے گئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروںسے معاہدے قائم رہیں گے یا ان میں کوئی ترمیم ہو گی؟
ہمیں نہیں لگتا کہ مالیاتی اداروں کے معاہدوں کو ختم یا ان میں کوئی ترمیم کر سکیں گی کیونکہ انہیں اقتدار سے بہت محبت ہے جو ان کے دلیرانہ فیصلوں
سے ڈگمگا سکتا ہے کسی خطرے میں پڑ سکتا ہے لہٰذا وہ محض رولا ڈال رہی ہیں انہیںموجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم نہیں کرنا نہ ہی اسے اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے سے روکنا مقصود ہے۔ اگر کوئی مقصد ہے تو عوام کو بیوقوف بنانا ہے وگرنہ سچی بات یہی ہے کہ یہ اشرافیہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ان سب نے عوام کی خاطر کسی مالیاتی ادارے یا طاقتور حلقے کے سامنے کھڑا نہیں ہونا۔ انہوںنے یہ طے کر رکھا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف بولنا ہے۔ بیانات جاری کرنا ہیں اور مظاہرے کرنا ہیں اور ایسا مسلسل ہو رہا ہے۔
ہم آصف علی زردری چیئرمین پی پی پی کی ایک حالیہ پریس کانفرنس دیکھ سن رہے تھے جس میں نواز شریف کو جلی کٹی سنائیں جبکہ اس سے پہلے وہ ان سے جپھیاں بھی ڈالتے نظر آئے ہیں مل کر عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کا عہد کر چکے ہیں لہٰذا ان کی باتوں سے اثر قبول نہیں کرنا چاہیے موجودہ حکومت کو گرانابھی کوئی نہیں چاہتا کیونکہ معاشی و سماجی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ معمولی اصلاحات سے بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے انہیں صحیح کرنے کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے جو کوئی بھی نہیں لانا چاہتا بس اسی طرح زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنا چاہتا ہے کہ ایک اقتدار میں آجائے تو اسے تسلیم نہ کرو اس کو پریشان کیے رکھو، مہنگائی کیے جاؤ حقوق چھینتے جاؤ، مافیاز کو مکمل آزادی دیتے رہو، طاقتوروں کو اور مضبوط بناتے جاؤ اور اپنی باری لینے کے لیے واویلا کچھ اس طرح سے کرو کہ عوام کا دل پسیج جائے اور وہ دوبارہ انہیں اپنے سر پر بٹھانے کے لیے آمادہ وہ جائیں۔
یہ سیاسی کھیل اب تک بہ احسن طریق جاری و ساری ہے۔ حکومت کو جو ہر خرابی اور برائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہاہے غلط نہیں ہے مگر پہلے بھی تو یہ سب موجود تھا لہٰذا
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اب آتے ہیں حکومت کی حکمت عملی کی طرف کہ وہ مہنگائی اور نئے نئے ٹیکسوں سے جو عوام کی کھال اتار چکی ہے اور اتار بھی رہی ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اور ان کو مطمئن کرنے کے لیے پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے کمی کر دی ہے اس طرح کاروبار کرنے کے لیے قرضوں کو بغیر شخصی ضمانت کے دینے کا اعلان کیا ہے تا کہ بیروزگاری پر ایک حد تک قابو پا یا جا سکے ۔ صحت کے ضمن میں اس نے قومی شناختی کارڈ کو بطور ہیلتھ کارڈ قرار دے دیا ہے جس سے قریباً سات لاکھ روپوں کی دوائیں وغیرہ خرید کی جا سکیں گی۔
ان اقدامات سے وہ منی بجٹ پر ہونے والی تنقید کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی کیونکہ حکومت یہ ’’سہولتیں‘‘ آسانی سے نہیں دے سکے گی وجہ اس کی یہ ہے کہ قرضوں کا حصول انتہائی پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بینک بغیر ضمانت کے یا کسی دوسری شکل میں قرضہ دے دیں۔ صحت کارڈ کی بھی شرائط ہوں گی اور ان پر عمل کرنا لازمی ہو گا مگر تشویش میں مبتلا کرنے والا یہ پہلو ہے کہ مذکورہ ’’سہولیات‘‘ پر اٹھنے والی رقوم کی وصولی ہماری چالاک حکومت اپنے منی بجٹ کے ذریعے کرے گی اور وہ وصولی دو تین گنا ہو گی پھر اس کارڈ سے کتنے لوگ استفادہ کر سکیں گے یہی کہ چار پانچ کروڑ، باقی ان کے اخراجات برداشت کریں گے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ایک مداری ہے جو آنکھ کو دھوکا دینے کی ماہر ہوتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ عوام کو ریلیف دے سکے۔ اس نے لوگوں کو دبا کر رکھنا ہے ویسے بھی وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ خوشحالیوں کے در وا کر سکے ۔ اسے صرف خزانہ بھرنا ہے مگر خرچ عوام پر نہیں کرنا خواص پر کرنا ہے سو وہ کر رہی ہے ۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں عوام جاگتے ہی نہیں اگرچہ وہ باں باں کر رہے ہیں صبح شام عمران خان کو برا بھلاکہہ رہے ہیں مگر ابھی تک دہلیز کے اندر ہیں۔ پی پی پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر احتجاج کی راہ پر آرہی ہے مگر وہ ڈھیروں افراد کو اس پر نہیں لا سکے گی کیونکہ عوام کی اکثریت بد دل ہو چکی ہے کہ یہ سب ایک ہیں بس انہیں بیوقوف بنایا جا تا ہے اور کچھ نہیں۔
حرف آخر یہ کہ منی بجٹ سے ایک بار پھر کہرام مچ جائے گا۔ آخر سوچنے والے دماغ کہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ ذمہ داران کو کیوں عوام کی بے بسی اور مفلوک الحالی کا علم نہیں ، اگر ہے تو وہ کیوں بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں ان کی اخیر دیکھنا ہے کہ جب وہ تخت گرا دیں گے اور تاج اچھال دیں گے!

تبصرے بند ہیں.