(دوسری اور آخری قسط)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ نے بہت سے اچھے فیصلے بھی کئے اور تمام دبائو کو مسترد کر دیا و ہ فیصلے آج بھی عدلیہ کا جھومر ہیں ۔ان فیصلوں میں ایک فیصلہ عاصمہ جیلانی کیس کا ہے جس کاذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔
عاصمہ جیلانی کے مشہور مقدمہ میں برطانوی دور میں مارشل لاء کی تفصیلی تاریخ بیان کی گئی تھی اور اس کا ماضی کے دنوں سے موازنہ کیا گیا ۔ اس کیس میں دو اپیلیں مس عاصمہ جیلانی کی جانب سے پنجاب ہائی کورٹ میں اپنے والد ملک غلام جیلانی کی رہائی کیلئے دائر کی گئی تھیں اور دوسری مسز زرینہ گوہر نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے شوہر الطاف گوہر کی آرٹیکل کے تحت رہائی کے لیے دائر کی تھیں۔ ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہر کی نظر بندی 1971 کے مارشل لاء ر یگولیشن نمبر 78 کے تحت کی گئی تھی جسے بالترتیب لاہور اور سندھ ہائی کورٹس میں چیلنج کیا گیا تھا۔ دونوں ہائی کورٹس نے کہا کہ ان کا اس پر کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے ۔ عاصمہ جیلانی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی جہاں انہوں نے کہا کہ یہ ملک کوئی بیرونی ملک نہیں ہے جس پر کسی فوج نے حملہ کیا ہو جس کے سربراہ جنرل یحییٰ خان تھے اور نہ ہی یہ کوئی اجنبی علاقہ تھا جس پر کسی نے قبضہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ان حالات میں مارشل لا نہیں لگ سکتا تھا۔ پاکستان کا اپنا قانونی نظریہ، قرآن پاک اور قرارداد مقاصد تھا۔ اس لیے مارشل لاء کبھی بھی آئین سے بالاتر نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یحییٰ خان نہ تو فاتح تھے اور نہ ہی پاکستان ایک مقبوضہ علاقہ تھا اور اس طرح انہیں ‘غصہ کرنے والا’ قرار دیا گیا اور ان کے تمام اقدامات کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جب عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ جاری ہوا تو یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھے اور اس وقت بھٹو کا مارشل لا تھا اور وہ سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر تھے۔ عاصمہ جیلانی کے کیس نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار کی۔ اس کیس کی پیروی 1972ء کے عبوری آئین اور پھر 1973ء کے مستقل آئین کے ذریعے کی گئی۔ عاصمہ جیلانی کے کیس میں عدالتی فیصلے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو مارشل لاء ہٹانے پر مجبور ہوئے۔
ویسے تو عدلیہ کی تاریخ اور بھی بہت سے اچھے فیصلوں سے بھرپور ہے جسٹس کارنیلیس اور جسٹس بھگوان داس جیسے جج بھی ہماری عدلیہ میں ہی تھے جبکہ جسٹس مشتاق ،جسٹس قیوم ،اور جسٹس منیر جیسوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔بھاگ بھاگ کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے بھی موجود ہیں اور ایسے میں نوکری کو ٹھوکر مارنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔لیکن افسوس کہ آج تک موجودہ حکومت سمیت ہماری کسی بھی حکومت چاہے وہ مارشل لاء ہو یا سول حکومت کسی نے بھی نظام عدل کو درست کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا کسی حکومت کے دور میں ججوں کو پرچیاں گئیں اور کسی حکومت نے ججوں کی مراعات اور تنخواہیں بڑھا کر ہمدردی لینے کی کوشش کی ۔کوئی برطانوی انصاف کی مثالیں دیتا رہا اور کوئی ریاست مدینہ کی لیکن آج تک باتیں صرف مثالوں تک محدود ہیں ۔عملی اقدامات صفر ہیں ۔
اگر ماضی میں جھانکا جائے تو ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ویب سائٹ پر جسٹس (ر)قیوم ملک کا "پس منظر” رکھا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ملک قیوم نے بدانتظامی کے الزامات کے بعد 2001 میں بینچ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 15 اپریل 1999 کو، مسٹر قیوم کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو ججوں کے پینل نے بے نظیر بھٹو اور شوہر آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں مجرم قرار دیا۔ انہیں پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔جیل میں، ہر ایک کو 8.6 ملین ڈالر جرمانہ، پانچ سال کے لیے پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر نااہل قرار دیا گیا، اور ان کی جائیداد ضبط کرنے پر مجبور کیا گیا۔فروری 2001 میں، برطانیہ کے سنڈے ٹائمز نے 32 آڈیو ٹیپس کے ٹرانسکرپٹس پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ مسٹر قیوم نے محترمہ بھٹو اور مسٹر زرداری کو "سیاسی وجوہات” کی بنا پر سزا سنائی۔اخبار کی طرف سے نقل کی گئی نقلوں سے پتہ چلتا ہے کہ جسٹس (ر)قیوم ملک نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے اینٹی کرپشن چیف سیف الرحمان سے سزا کے بارے میں مشورہ طلب کیا: "اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ اسے کتنی سزا دینا چاہتے ہیں؟”اپریل 2001 میں اس ثبوت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جوڑے کی اپیل کو برقرار رکھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے پیشہ ورانہ بدانتظامی کے مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے، جسٹس (ر)قیوم ملک نے جون 2001 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا انتخاب کیا۔لیکن بدقسمتی سے ہر بات ثابت ہونے کے باوجود انہیں کوئی سزا نہ دی گئی وہ نہ صرف باعزت زندگی بسر کرتے رہے بلکہ اٹارنی جنرل بھی بنایا گیا۔
عدلیہ سے متعلق افراد کی ٹیپ آنے کا سلسلہ جو جسٹس قیوم سے شروع ہوا تھا وہ آجکل عروج پر پہنچ چکا ہے حال ہی میں جسٹس ثاقب نثار کی ٹیپ بھی آئی ہے۔ قبل ازیں نواز شریف کیس میں ہی ارشد ملک کا بیان ساری دنیا سن چکی ہے ۔ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات پر بھی کوئی سو موٹو نہیں ہوا۔یہ درست ہیں یا غلط کیا ان کا فیصلہ عدلیہ نے نہیں کرنا؟ اسی عدلیہ کے پاس سو موٹو کا اختیار موجود ہے لیکن ان معاملات پر خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔اگر جسٹس قیوم والے معاملے میں عدلیہ کوئی اقدام اٹھا لیتی اور انہیں سزا دا دیتی تو بہت سے واقعات جنم ہی نہ لیتے۔ آج ہم نے ان باتوں کا پوسٹ مارٹم نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور اگر ہم پوسٹ مارٹم کر کے اصل حقائق تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر آئندہ کسی حکومت کی جرأت نہ ہو گی کہ وہ ایسا کوئی کام کرے جو عدلیہ کے وقار کے لئے نقصان دہ ہو، اس سے عدلیہ کا وقار بھی بلند ہو گا ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ورنہ شاید انصاف فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں آخری نمبر ہمارا منتظر ہو گا۔(ختم شد)
تبصرے بند ہیں.