ایک تھا بادشاہ صادق اور امین

110

ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وہ قادر مطلق علی کل شئی قدیر۔ اس نے دنیا کے انتظام و انصرام کے لیے اپنے بندوں کو مقرر کردیا۔ دنیا کے نقشہ پر موجود ایک ایسی ہی مملکت کے لیے ایک بادشاہ کو مقرر کیا تاکہ وہ اس کے مجبور بندوں کو زندگی کی سہولتیں دے سکے،کہتے ہیں کہ وہ نام خدا صادق اور امین تھا، پتا نہیں صادق اور امین کیسے ہوا۔ کسی کو کیا معلوم لیکن اسے آتے ہی صادق اور امین قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے پوچھا بادشاہ صادق اور امین نہیں ہوتے صدیوں پہلے خلفاء صادق اور امین ہوتے تھے۔ جن کے بارے میں حضرت علامہ نے کہا تھا ”سبق پڑھ پھر صداقت کا امانت کا دیانت کا، لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا“ کہا گیا ہمارا بادشاہ بھی آئندہ چل کر خلیفۃ المسلمین کہلائے گا۔ روایت ہے کہ 40 سال کی عمر تک وہ ساری دنیاوی آلائشوں میں ملوث داغ داغ تھا۔ اچانک فصیل شہر سیاست میں داخل ہوتے ہی ذمہ داروں نے اسے پکڑا مشک و گلاب ملے پانیوں سے غسل دے کر پاک صاف کیا اور خلعت فاخرہ پہنا کر تخت شاہی پر بٹھا دیا۔ اس سے پہلے کے لوگوں کو رخصت کردیا گیا۔ کیوں؟ تاریخ ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکی۔ تاریخ کے صفحات میں فیصلے بادشاہوں کی رخصتی اور زوال کے بعد لکھے جاتے ہیں ذمہ داروں نے کہا ہمارا صادق اور امین ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائے گا،راوی کہتا ہے لوگ خوشی سے پھولے نہ سمائے کئی روز تک ڈھول پیٹتے بینڈ باجے بجاتے رہے۔ سلسلہ مہینوں جاری رہا۔ تاریخ میں مہینوں کے دن بھی درج کیے گئے۔ اس دوران اللوں تللوں میں اتنا خرچ ہوا کہ خزانہ خالی ہوگیا۔ بادشاہ سلامت کو پتا چلا تو انہوں نے اپنے نو رتنوں کو طلب کیا۔ حاضر ہوئے کورنش بجا لائے کیا حکم عالی جاہ، عالی جاہ نے بے چارگی سے کہا خرچ کرنے کو کچھ نہیں بچا، خزانہ خالی کیسے ہوا؟ عرض کی عالم پناہ تخت نشینی کے جشن میں حلوے کی دیگیں پکتی رہیں۔ اب کیا ہوگا؟ بادشاہ نے مایوسی سے پوچھا۔ نورتنوں کو بہلانے کے سارے طریقے آتے تھے جھک کر سلام کیا کہا۔ ”اللہ تعالیٰ آپ کا اقتدار تا دیر سلامت رکھے۔ دوستوں پر بھروسہ کیجیے، اتنا دیں گے کہ خزانہ لبالب بھر جائے گا بلکہ چھلکنے لگے گا۔ عالی جاہ کہنا چاہتے تھے کہ دوستوں کو ہم پر بھروسہ نہیں نو رتنوں کو عالی جاہ کے چہرے پر چھائی مایوسی سے پتا چل گیا اس کمزوری کا احساس بھی تھا، دربار برخاست ہوا تو طے پایا کہ کسی قابل بھروسہ شخصیت کو دوستوں کے پاس بھیجا جائے، بھیجا گیا۔ خزانے کا پیندا بھرنے لگا، خزانہ بھرا تو عالی جاہ کے ساتھ نو رتنوں کو بھی پیٹ بھرنے کی فکر ہوئی۔ سیانے کہتے ہیں پیٹ بھرجائے تو باتیں سوجھتی ہیں۔ بڑے نصیحت کیا کرتے تھے کہ سو بار سوچو پھر بولو مگر پیٹ بھرے نو رتنوں کو سوچنے سمجھنے کی فرصت نہ مل سکی۔ مسلسل بولتے چلے گئے نو رتنوں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی بد قسمتی
سے عالی جاہ کو سمجھنے والے زیادہ سمجھانے والے کم تھے۔ سمجھانے والوں نے مصلحت کے تحت زبانیں بند رکھیں۔ کانوں کے کچے عالی جاہ کے عتاب شاہی کا خوف بھی تھا۔ عتاب شاہی سے نازل ہونے والے عذاب کو کون دعوت دے، بادشاہ سلامت کو سمجھ کر گفتگو کرنے والے چرب زبان درباری ہی سرخرو ہوئے۔ سرخروئی سراپا سے ٹپکنے لگی تو حماقتیں سر زد ہونے لگیں۔ اتنی حماقتیں سرزد ہوئیں کہ سلطنت زوال پذیر ہوگئی۔ تاریخ میں اس بادشاہ کا نام درج ہے۔ اسے احمق شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہانی کیوں یاد آئی۔ کم و بیش ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ سنگین حماقتیں ان دنوں ہم سے بھی سر زد ہو رہی ہیں۔ اچھے حکمران اپنے مشیروں کے علاوہ اپوزیشن کی کڑی تنقید کو مشوروں کا درجہ دے کر کمزوریوں پر قابو پا لیا کرتے تھے اپوزیشن کی نگاہیں عقاب کی طرح حکومتی کارکردگی کا تعاقب کرتی ہیں ان کی باتوں میں مشورے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے پوری اپوزیشن کو روز اول سے کرپٹ قرار دے کر سائیڈ لائن کردیا گیا۔ مشاورت میں وہ لوگ شامل ہوگئے جو شریک سفر نہ تھے۔ جن لوگوں نے سالہا سال محنت کی جدوجہد سے منزل پر پہنچایا وہ مایوس ہو کر کنج تنہائی میں جا بیٹھے۔ کتنے نام ہیں جو بلند آواز سے نہ سہی دھیمے لہجے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کی آوازسیاست کے عیار خانے میں طوطی کے شور کی طرح دب جاتی ہے۔ پالیسی سازوں میں اکثریت آئی ایم ایف کے عہدیداروں کی ہے۔ اقتصادی پالیسیاں وہی بناتے ہیں باقی سارے وزیر مشیر ڈھول پیٹنے کے لیے مستعد و متحرک، اتنے فعال کہ صبح سے شام تک بولتے ہیں لیکن تھکتے نہیں اقتصادیات اور معیشت کے ماہرین چیخ چلا کر تھک گئے کہ روپیہ روز بروز قدر کھو رہا ہے۔ ڈالر تیزی سے 200 روپے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بیٹھے بٹھائے قرضے اربوں کی تعداد میں بڑھ گئے ایک وزیر با تدبیر حماد اظہر نے مہنگائی کا راز پا لیا کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے درآمدی اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں لوگوں نے کہا اندرون ملک کی کہانی بھی سنائیے یہاں کون سی چیز سستی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ جنہیں عہدے پر باقی رکھنے کے لیے سینیٹر بنایا جا رہا ہے۔ آنے سے پہلے کہا کرتے تھے مہنگائی غلطیوں کا نتیجہ بڑا چیلنج ہے۔ اکھاڑے میں اترے تو اسی مہنگائی کا دفاع کرنے لگے۔ ”رہے اس کے بہانے ہی بہانے، بہانے ہی بہانے مار ڈالا“ کون سمجھائے کہ 19 سال کے دوران پہلی بار اپوزیشن سے مشاورت کے بغیر نیب چیئرمین کو توسیع دینے اپوزیشن کو کرپشن اور نا اہلی کے تھپڑوں سے عوام خوشحال نہیں ہوتے۔ ووٹنگ مشین صرف بہانہ، الیکشن میں دھاندلی پری پول رگنگ سے ہوتی ہے۔ ابھی دو سال باقی ہیں۔ 3 سال میں 3 بڑے سکینڈل بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری، تحقیقات کبھی تو ہو گی۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 2280 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق حکومت نے گزشتہ 3 سال میں 6910 ارب روپے قرضے لیے جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک حکومتی قرضوں کا حجم 4547 ارب روپے ہوچکا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے بیرونی قرضے جو اگست 2018ء میں 93 ارب ڈالر تھے پی ٹی آئی حکومت کے 3 سالہ دور میں 24 ارب ڈالر اضافے سے 117 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جس میں سے حکومت کو رواں مالی سال 4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں۔ قرضے کہاں لگے؟ صرف تختیاں بنوائی گئیں؟ 3 سال میں سکھر سے حیدر آباد، موٹر وے نہ بن سکی۔ کراچی سے حیدر آباد موٹر وے کو اپ گریڈ نہ کیا جاسکا۔ ترقی اور خوشحالی خواب، مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق 13 فیصد مہنگائی، ٹیکس وصولی پر زور، عوام کی جیبیں خالی، کسی نے کہا تھا۔ ”تھکن کے ساتھ اداسی بھی لے کے لوٹ آیا۔ بہت مصر تھا وہ بازار دیکھنے کے لیے“ عوام کی کھال باقی ہے۔ شنید ہے کہ پچھلے دنوں چھاچھرو میں ایک بیروزگار شخص نے اپنے 3 فاقہ کش بچوں کو بھوک سے تنگ آکر کنوئیں میں پھینکا اور خود بھی چھلانگ لگا دی۔ ایسے واقعات روز ہو رہے ہیں۔ وزیر مشیر اور ترجمان سارا سارا دن اپوزیشن کے پیچھے ڈنڈا لیے پھرتے ہیں۔ 20 مشینیں منگوالیں 23 کروڑ میں سے 20 افراد کو تنگدستی سے نجات نہ دلا سکے، ابو الاثر حفیظ جالندھری نے بڑی مایوسی سے کہا تھا۔ ”نظر آتی نہیں صورت حالات کوئی، اب یہی صورت حالات نظر آتی ہے“۔

تبصرے بند ہیں.