موجودہ حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن کی سرکردہ جماعتوں پر مشتمل مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بنائی گئی۔ اس اتحاد میں فیصلے جمہوری انداز سے نہ کے گئے اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی بھر پور کوشش کے باوجود بھی پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اتحاد میں دوبارہ شامل نہ کیا گیا۔ پی ڈی ایم ٹوٹنے سے نہ صرف اپوزیشن کی سیاست کمزور ہوئی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو تقویت ملی اور حصہ بقدر جثہ کے حصول کے لیے باقی سیاسی جماعتیں انہی کی طرف دیکھنے لگیں۔ لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتیں مفاہمتی بیانیے کی طرف چل پڑی ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کا مزاحمتی بیانیہ دم توڑ چکا ہے اور احتجاجی سیاست کے سرخیل مولانا فضل ارحمان کا رنگ بھی مسلم لیگ ن کی طرف سے ساتھ نہ دینے پر پھیکا پڑ چکا ہے۔ شہباز شریف کی مداخلت سے مسلم لیگ ن کا تمام تر احتجاج بھی اب شفاف انتخابات تک محدود ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی پہلے ہی مفاہمت کی قائل ہیں۔ اب لگ رہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی مزاحمتی تحریک کے گندے کپڑے اور خود کو اسٹیبلشمنٹ کی مفاہمتی بارش میں پاک کرنے کو تیار ہیں۔
پی ڈی ایم نے ابتدا میں جلسوں کی ایک سیریز کا انعقاد کیا جن میں حکومت اور فوج پر بھی براہ راست تنقید کی گئی، اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور اسلام آباد میں حکومت کے خاتمے تک دھرنے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ سب کچھ نہ ہو سکا اور پی ڈی ایم مسلم لیگ ن اور جمعیت علما ء اسلام کی انا کی جنگ کے باعث ٹوٹ گیا۔دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکال دیا گیا اور پی ڈی ایم عملاً غیر فعال ہو گیا۔ مسلم لیگ ن میں سے بھی مسلسل احتجاج کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور یہ کہا جانے لگا کہ مولانا فضل الرحمان کا سٹیک پر کچھ نہیں جبکہ مسلم لیگ ن کو اس ملک کے عوام نے تین بار مینڈیٹ دیا اس لیے مسلم لیگی قیادت کو اپنی
علیحدہ پالیسی وضع کرنی چاہیے۔ ابتدا میں تو یہ باتیں کونے کھدروں میں ہوتی تھیں لیکن آج مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بھی بیانیہ پر اختلاف کو تسلیم کرتی ہے۔ بلکہ فی الوقت مفاہمتی بیانیہ مسلم لیگ کے مزاحمتی بیانیہ پر حاوی ہے۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ ن ایک آدھ کے علاوہ جملہ لیڈرشپ اب سابقہ تمام مطالبات سے بظاہر دستبردا ہو کر صرف شفاف انتخابات کے مطالبے پر آ کر ٹک گئی ہے۔ جس کی بڑی مثال مسلم لیگ ن کا پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کا حصہ بن کر اس سے متعلق قانون سازی میں حصہ لینے کا فیصلہ تھا۔ شہباز شریف تو شروع سے ہی احتجاجی سیاست کے خلاف تھے اور ہر معاملہ آئین و قانون کے ذریعے ہی حل کرنے کے حامی تھے۔ وہ مسلم لیگ ن میں ٹکراؤ کے بجاے مفاہمتی بیانیے کی پنیری لگاتے رہے جو اب پھل پھول رہی ہے۔ اس حوالے سے بڑے غیر محسوس طریقے سے نواز شریف بھی شفاف الیکشن کی شرط پر مفاہمتی بیانیے کی بات کر رہے ہیں۔ شاید شہباز شریف انہیں باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اداروں سے ٹکراؤ مسلم لیگ ن یا اس کے ورکروں کی کبھی بھی پالیسی نہیں رہی اور جب جب مسلم لیگ نے ٹکراو کی پالیسی اپنائی اسے نقصان ہوا۔ رانا ثنا اللہ نے بھی اے آر وائی کے ایک ٹی وی شو میں کہہ دیا کہ شفاف انتخابات کی یقین دہانی کرا دیں ہماری مفاہمت ہی مفاہمت ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا سارا زور شفاف انتخابات پر ہے۔ آخر مسلم لیگ ن کا مفاہمتی بیانیے کی طرف جھکاء کی وجہ کیا ہے؟ بظاہر جو وجہ سمجھ آتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ان کے خلاف مقدمات اور سزا کی وجہ سے 2023 کے انتخابات میں جگہ نہ مل سکے اس لیے مسلم لیگ ن اب مزاحمتی بیانیے سے ہٹ کر مفاہمتی بیانیے کو ترجیع دے رہی ہے۔ اب قیادت اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانے میں لگی ہے کہ اب ان کی ساری توجہ شفاف انتخابات ہیں اور اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں برابری کا موقع دے۔ بظاہر مفاہمتی بیانیہ مسلم لیگ ن میں جڑ پکڑ رہا ہے لیکن مریم نواز شریف سمیت کچھ لوگ اب بھی ہیں جو مزاحمتی بیانیے پر شدت سے ٹکے ہوئے ہیں۔ میری رائے میں شاید یہ Good Cop Bad Cop کی حکمت عملی ہے کہ جب ضرورت پڑے مزاحمتی بیانیے کی طرف پلٹا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمل میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت تنہا رہ گئی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے مسلم لیگی قیادت سے گلے شکوے بھی کیے۔ لیکن مسلم لیگ ن اپنے فیصلے پر قائم ہے اور مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ مولانا کے فرزند اسعد محمود نے بھی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کو وسیع کرنے کی بات کی ہے۔ میری رائے میں حکومت کو اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
فی الوقت تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں 2023 کے انتخابات میں لگی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکال کر ان انتخابات میں سولو فلائیٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور بلوچستان کی کچھ قوم پرست جماعتیں شاید ان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں۔ لیکن مسلم لیگ ن پنجاب کے کیک میں سے کسی کو حصہ دینے کو تیار نہیں اور شاید کسی سے اتحاد کی بجائے اکیلے انتخابات کو ترجیح دے رہی ہے۔
سندھ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور گزشتہ انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ کراچی کے ووٹروں پر سے ایم کیو ایم کا تسلط یا خوف دور ہو چکا ہے اور کراچی کا ووٹ بینک پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایک مذہبی جماعت میں تقسیم ہو چکا ہے۔ یقینا اس تقسیم کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں نئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں گو کہ ان کی عوام میں وہ پذیرائی نہیں کہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکیں لیکن کچھ حلقوں میں ان کے امیدوار کسی کی جیت یا ہار پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.