قانون کا ڈنڈا

137

دوستو،جنوبی کوریا رقبے میں ہمارے پنجاب سے آدھا ہے آبادی پنجاب کی آدھی سے بھی کم ہے۔ افرادی قوت زیرو ہے۔ کوریا میں تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں حتیٰ کہ اپنی ضرورت کی سبزی اور پھل بھی باہر سے منگواتاہے اور انتظام ایسا اعلیٰ ہے کہ تیل گیس بجلی پھل سبزی آج تک کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی کم ہوئے ہیں نہ کبھی اچانک مہنگے ہوئے ہیں۔ ہر چیز ہر وقت عام دستیاب اور امیر غریب کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ کسی قسم کی معدنیات نہ ہونے اور افرادی قوت بھی کم ہونے کے باوجود کوریا دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کوریا کی بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔کوریا میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 15000 روپے کے برابر بنتی ہے۔کورین مزدور ایک دن کی کمائی سے 80 لیٹر پٹرول، یا 55 لیٹر دودھ یا 25 کلو چکن یا 10 کلو مٹن یا 20 کلو سیب خرید سکتاہے۔ گھر میں دن رات AC چلائیں تو بجلی کا بل 7000 روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ 2 دن کی کمائی سے ایک فیملی پورے ماہ کی خوراک خریدسکتی ہے۔ ایک ماہ کی کمائی سے چمچ پلیٹ سے لیکر فریج ٹی وی اسے سی تک گھر کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ مزدور پندرہ دن کی کمائی سے کار خرید سکتا ہے۔ کوریا نے ایک بار چند ارب لگا کر سب ادارے کمپیوٹر سے منسلک کر دیئے تھے اب پچھلے تیس سال سے کبھی مردم شماری نہیں ہوئی مگر سالانہ اور ماہانہ کتنی شادیاں اور طلاقیں ہوئیں، کتنے فوت اور کتنے بچے پیدا ہوئے، کتنے BA، MA پاس ہوئے، کتنے بچے سکول نہیں جارہے یہ سب ہر شہر، ضلع، یونین کونسل تک کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ انسان نے جب بھی قانون فطرت سے بغاوت کی ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا ہے نظام کائنات جس ایک نظرے پہ چل رہا ہے وہ ہے“سزا اور جزا”۔۔دنیا کا کوئی بھی مذہب دیکھ لیں اس میں واضح طور پر سزا اور جزا کا نظریہ موجود ہے۔ یہ سزا اور جزا کا ہی نظریہ ہے جس کے تحت انسان مذہب کی طرف مائل ہوتا ہے اچھے کام اور دوسروں سے بھلائی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور برے کام اور برائی سے اجتناب کی کوشش کرتا ہے۔ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں کہ اگر مذہب میں سزا اور جزا کا نظریہ نہ ہوتا تو اس دنیا کا منظر کیا ہوتا؟ حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتے سزا اور جزا کے نظریے پر وہ بھی یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ سزا اور جزا کا نظریہ حقیقت میں اصول کائنات ہے اسی نظریے پہ ہی معاشرے اور ریاستیں قائم ہیں۔
بات ہورہی تھی،سزا اور جزا کی۔۔ہمارے ملک میں اس نام کی کوئی شئے ہمارے خیال میں موجود ہی نہیں۔ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔۔بابا جی کہتے ہیں۔۔ایسا شخص جو قانون کو سمجھتا ہو لیکن عمل نہ کرتا ہو، اسے ”وکیل“ کہتے ہیں۔۔حکومت عوام سے باربار کہتی ہے کہ ذمہ دار شہری بنیں۔۔ لیکن ہم توپانی پی کر بوتل کوبھر کر فریج میں رکھنے کے بعد کافی دیر تک اپنے آپ کو ملک کا ذمہ دار شہری سمجھتے رہتے ہیں۔۔آپ کے اردگرد بھی کوئی ایسا ذمہ دار شہری موجود ہو جو لوگوں کو کورونا سے بچنے کے نسخے بتاتا رہا ہو، ہمیں اس سے ملوادیں، ہمیں اس سے صرف ایک معصومانہ سوال پوچھنا ہے کہ کیا انہوں نے بھی کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہے؟؟۔۔حکومت سندھ کراچی میں تین سو روپے بلدیاتی ٹیکس بجلی کے بلوں میں لگانے کا فیصلہ کرچکی ہے جب کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس بھی نافذ کردیا جائے، یعنی جتنے کی عوام بجلی استعمال نہیں کرتے اس سے دگنی،تگنی رقم تو مختلف اقسام کے ٹیکسوں میں دینی پڑ جائے گی۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔ ابا جی نے مجھے بجلی کا بل جمع کرانے کے لیے پیسے دیے، میں نے ان پیسوں سے لاٹری کا ٹکٹ خرید لیا۔ گاڑی انعام میں رکھی گئی تھی۔ جب گھر پہنچ کر ابا جان کو صورتحال بتائی تو خوب مار پڑی، لیکن اگلے ہی دن صبح صبح جب سب سو کر اٹھے تو دروازے پر کھڑی گاڑی دیکھ کر سب کی چیخیں نکل گئیں۔سب سے زیادہ چیخیں میری بلند تھیں۔ کیوں کہ گاڑی کے الیکٹرک والوں کی تھی جو میٹر کاٹنے آئے تھے۔اباجی نے اس موقع پر مجھے ایک بار پھر خوب تسلی اور دل سے ”چھترول“ سے نوازا۔۔
باباجی فرماتے ہیں۔۔کچھ رشتے داروں کو اپنے ذاتی معاملات سے ایسے دور رکھنا پڑتا ہے جیسے دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔۔آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اور میڈیا میں ہمیشہ دو طرف کے لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔مشرقی لوگ اور مغربی لوگ۔۔باباجی کاسوال یہ ہے کہ۔۔کیا شمال اور جنوب میں کوئی نہیں رہتا۔؟؟باباجی باغ و بہار قسم کی شخصیت کے مالک ہیں، ان کے گھر والے اور حلقہ احباب میں شامل تمام ہی دوست ان کے کھانے کی بہت تعریف کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت اچھا پکاتے ہیں، بلکہ سب کہتے ہیں کہ۔۔باباجی بہت ہی کھاتے ہیں۔ہم نے ایک بار باباجی سے پوچھ ہی لیا۔۔اتنا پیٹ نکالا ہوا ہے وزن کم کیوں نہیں کرتے؟باباجی جو کہ کرسی پر نیم دراز کیفیت میں براجمان تھے، لیٹے لیٹے بریانی کی پلیٹ میز سے کِھسکا کر پھیلی ہوئی توند پر رکھی اور مسکرا کر کہنے لگے۔۔تو پھر بریانی کی پلیٹ کہاں رکھا کروں گا؟؟باباجی کی ہی تازہ تحقیق سامنے آئی ہے، اپنی ریسرچ میں باباجی نے دعویٰ کیا ہے کہ۔۔جسم کا سب سے غیر محفوظ حصہ ناک ہے۔۔!!کیونکہ یہ ذرا ذرا سی بات پر کٹ جاتی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ملک نہ تو معدنیات سے ترقی کرتے ہیں نہ افرادی قوت سے کرتے ہیں نہ باتیں کرنے اور شور مچانے سے ترقی ہوتی ہے۔ ترقی صرف ایماندار اور مخلص قیادت سے بھی نہیں ہوتی۔ انصاف، سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل نظر آنا چاہئے۔ جس ملک میں قانون کا ڈنڈا نہیں چلتا وہاں کبھی ترقی کا پہیہ نہیں چلتا۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

تبصرے بند ہیں.