سرخیاں ان کی……؟

116

٭……نیند نیند میں سفر……؟
٭…… عالمی برادری کا رویہ، منفی سیاست، معاشرتی تعصبات، عوامی اخلاقیات، وفاقی بجٹ اور مہنگائی پے مہنگائی، پاکستان کی سفارتی اور سیاسی حکمت عملی، چین یا امریکہ سے دوستی، خطے کے حالات، سرحدات پے خطرات اور ملکی حالات، یہ وہ گمبھیر موضوعات تھے جن پے قلم تھامے کئی کاغذ پھاڑے…… کہ کیا لکھوں، کیسے لکھوں …… سوچتے سوچتے، رات کے نہ جانے کون سے پہر نیند کی وادی میں جا اترا؟ اب میرے سامنے ایک مختصر سی دنیا تھی۔ جس میں رشتے ناتے تھے۔ دوستی دشمنی تھی، پیار تھا، نفرت تھی، ممتا تھی، کھوکھلے وقار کے حصار تھے، صداقت تھی، اناج تھا، بھوک تھی، غربت تھی، دولت کا خمار تھا، بانجھ مائیں اور اپاہج دوستیاں تھیں۔ خالی جھولیاں اور تعمیر و ترقی کے دلفریب نعرے تھے۔ دشت، صحرا، سمندر، دریا، پہاڑ، چمن، تتلیاں، منافقت کا تعفن، اور خلوص کی مہک تھی۔ غیرآباد مسجدیں، ریاکاری کے سجدے، یہ سب کچھ دیکھتے میں نے کئی بار اپنی روح کے اندر زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے۔ کئی بار میری سوچ چکرا کر گری اور پھر میں سنبھل کر خوابوں کے ایسے جزیرے میں جا نکلا۔ جہاں پتھر کے پھول اور پتھر کی تتلیاں تھیں۔ اچانک مجھے یوں لگا جیسے میں کسی جادونگری میں الجھ کر رہ گیا ہوں، لیکن دماغ یہی کہہ رہا تھا کہ ہم سب انسان ہیں، ایک ہی طرح سے پیدا ہوتے ہیں، ایک ہی طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں، یہاں تک کہ خالق کائنات بھی ہمارے اندر موجود ہے اور اس کی اپنے وجود کے اندر موجودگی کی وجہ سے ہم سچ اور جھوٹ کو بخوبی پہچان سکتے ہیں۔ انسان دنیا کے کسی خطے میں رہتا ہو۔ وہ کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کا کوئی مذہب ہو، وہ کوئی زبان بولتا ہو، لیکن سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنے والی حِس اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔؟ لہٰذا میں صرف اس بات کا خواہشمند نہیں کہ انسان صرف سچ بولے اور جھوٹ سے ہلاک ہو۔ بلکہ انسان صرف انسانوں کی طرح زندگی بسر کریں بھیڑیوں کی طرح نہیں۔ جس کی ذرا آنکھ لگ گئی اس کی خبر نہیں۔ جس کو کمزور پایا چیرپھاڑ کر کھا گئے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے؟ کہ جہاں بھیڑ اور بھیڑیئے میں ٹھن جاتی ہے۔ وہاں بھیڑیئے سے بھی کوئی بڑا درندہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اچانک اذان صبح میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ جونہی میں مسجد میں داخل ہوا۔ مسجد ویران تھی۔ چند نمازی تھے۔ مگر مولانا صاحب گرجدار آواز میں خطاب فرما رہے تھے۔ وہی تقدیر کی چیرہ دستیاں، انسان کی مجبوریاں اور بے عملی کے سبق دہرائے جا رہے تھے اس انسان کا ذکر پوری تقریر میں کہیں بھی سنائی نہ دیا۔ جو سمندروں کو خشک کر سکتا ہے۔ جسے تسخیر کائنات کا حکم ہے جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ جو ستاروں پر کمند ڈال سکتا ہے۔ جو زمین کا ورارث ہے جو فخرِ کائنات ہے۔ مگر سادہ لوح مسلمان صرف جنت کا 
حال سن کر خوش ہو رہے تھے اسی خوشی میں دوزخ جیسی زندگی بسر کرنے پر راضی تھے۔ اور لوگ ان کی باتوں پر صدق دل سے ایمان لا رہے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے نہیں صرف مانتے ہیں؟ مسجد سے باہر آیا تو سوچنے لگا کہ اسلام تو عمل اور ایکشن کا دین ہے۔ مگر جس طرح ہمارے ہاں جمہوریت جمہور کے بغیر فریب اور لالچ کے گرداب میں دب گئی ہے بلکہ اس بدبخت مغربی جمہوریت کے نام پر بت پرستی کرائی جاتی ہے اور بھوک، بیماری، جہالت کے مارے عوام کو سنہرے خواب دکھا کر کروڑوں ووٹروں کو سیاسی غلامی کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے اور پیدل سفر کرتے کچہری آن پہنچا۔ چھوٹی عدالتوں کے کمروں میں سرعام کیا کچھ دیکھا۔ نہ ہی لکھوں تو بہتر ہے؟ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ میں سچ کے جرم میں توہین عدالت بھگت چکا ہوں۔ مگر مجبور ہوں کہ جب قلم تھاما تو اپنے رب سے سچ لکھنے اور کبھی نہ جھکنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا گزشتہ تینتیس برس میں کئی بار حراساں کیا گیا۔ گردن پر کلاشنکوف رکھی گئی مگر میرا سفر جاری رہا۔ کیونکہ میرا ایمان ہے جس نے پیدا کیا ہے وہی موت دے گا۔ کل ہمارے والدین اپنے بچوں سے جدا ہوئے تھے۔ کسی وقت ہمیں بھی اپنے بچوں سے جدا ہو کر اپنے ماں باپ کے پاس چلے جانا ہے۔ پھر ڈر کیسا؟…… بہرحال، اب میرے سامنے کئی نوجوان ہتھکڑیوں میں جکڑے بے بس تھے۔ قانون انہیں کس طرح رلائے گا۔ کیا سزا دے گا نہیں معلوم؟ کیونکہ کسی فلاسفر نے کہا تھا جب میں بچہ تھا تو میں نے ایک روٹی چرائی تھی۔ قانون نے مجھے گرفتار کر کے چھ ماہ کی سزا سنا کر جیل میں مفت کی روٹیاں کھلائی تھیں، بس یہی عوامی عدالت ہے۔ بلکہ میں تو اکثر پوچھتا ہوں؟ کہ ایک انسان قاتل مار دیتا ہے۔ قاتل کو قانون مار دیتا ہے مگر اصل قاتل کون کہلائے گا؟۔ یہ سب سوچتے دیکھتے انصاف گاہ سے باہر نکلا تو سامنے نوجوان ڈاکٹرز اپنے تاریک مستقبل کا احتجاج کر رہے تھے۔ مگر ان پر لاٹھیاں برسائی جا رہی تھیں۔ حالانکہ پیار محبت سے بھی معاملہ سلجھایا جا سکتا تھا۔ کیونکہ مارنے اور مار پیٹ کھانے والے دونوں ہی اسی دھرتی ماں کے بیٹے تھے۔ ایک بچہ لہولہان دیکھ کر میں آگے بڑھا۔ اسے نہ مارو یہ لاٹھیاں مجھے مار لو۔ میں نے ایک سپاہی سے کہا۔ اتنے میں ایک پولیس افسر غصے میں نہ جانے کیا کچھ کہہ گیا؟ میں نے کہا، قصور شاید تمہارا بھی نہیں؟ قصور اس کرسی کا ہے! جو انگریز کے دور سے تھانے میں پڑی ہے۔ وطن کا بیٹا، جب اس بدیشی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کی سوچ آزادی اور غلامی کے درمیان لٹک جاتی ہے اور اس کی سوچوں میں بے حسی کا زہر بھر جاتا ہے پھر وہ اپنے مظالم کا غصہ عوام پے نکالتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتا کہ وہ بھی صاحب اولاد ہے؟ اور قوم کے یہ بچے جو کائنات کو مٹھی میں لے کر بھینچ سکتے ہیں وہ جب ڈگریاں لے کر دربدر کی ٹھوکریں کھا کر، شام کو گھر مایوس لوٹتے ہیں تو گمراہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ نشہ باز، کچھ جوئے باز، کچھ دوسروں کا کھلونا اور کچھ اپنی اپنی گھریلو مجبوریوں سے تنگ پہلے چھوٹے چھوٹے چور، پھر بڑے بڑے ڈاکو بن جاتے ہیں۔ ہمارا قانون ان کے دکھوں کا مداوا تو نہیں کرتا۔ مگر انصاف کے نام پر انہیں جیل میں ضرور بند کر دیتا ہے۔ حالانکہ جیلوں کی جگہ یونیورسٹیاں اور ان کے روزگار کے لیے فیکٹریاں بھی تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ شاید اسی لیے اکثر میں کہتا ہوں ہمارا نوجوان جو ہمارا قومی مستقبل ہے خود گمراہ نہیں ہوا، خود مجرم نہیں بنا بلکہ ان کی بربادی کے ذمہ دار ہم ہیں۔ ہمارا دن رات کا جھوٹ ہے۔ ہمارے رویے میں۔ جنہوں نے ان کے ذہنوں کو غلط راستوں پر ڈال دیا ہے۔ اس لیے مجرم یہ نہیں بلکہ ان کے مجرم  ہم ہیں! کیونکہ ان کے بیدار ذہن اور گرم لہو مل کر کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر جب ہم انہیں صرف استعمال کریں گے انہیں منزل کا پتہ نہیں دیں گے۔ تو وہ بپھرتے دریاؤں کی طرح اپنے راستے بدل کر تباہی پھیلائیں گے۔ وہ چور بنیں گے، راہزن بنیں گے، قاتل بنیں گے اور نہ جانے کیا کیا کچھ بنیں گے؟…… جبکہ حصول وطن کی جدوجہد کی تاریخ گواہ ہے جس کے سرگرم کارکن نوجوان ہی تھے۔ جو اپنے مقاصد میں کامیاب اس لئے ہو گئے کہ ان کے باعمل اور بااصول رہنما ان کی رہنمائی کر رہے تھے۔ نہ کہ ان کے ذہنوں پر سوار تھے اور پھر وہ نوجوان نسل کا قافلہ آزادی حصول وطن کی منزل تک آن پہنچا۔ پھر عظیم رہنما اپنا فرض ادا کر کے ایک ایک کر کے سوتے گئے۔ راستے پھر بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔ منزل پھر گردِ راہ میں دب کر رہ گئی۔ اس لئے کہ آج ہم آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے بلکہ ہاتھوں سے ٹٹولنے کے عادی ہو گئے ہیں جس کے جتنے بڑے ہاتھ ہیں وہ اتنا بڑا لیڈر ہے؟ مگر یاد رکھیں، ہاتھ نہ کسی نظریے کو محسوس کر سکتے ہیں نہ آزادی کو چھو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں غیرمادی ہیں! جبکہ ہم صرف مادہ پرست بن کر رہ گئے ہیں؟لہٰذا تیزی سے بدلتے وقت کاتقاضا ہے کہ ہم خود اپنا حقیقت افروز تجزیہ کریں اور یہ حقیقت بھی تسلیم کریں کہ ہم خود اپنے سفاک دشمن ہیں۔ کوئی دوسرا ہمارا دشمن نہیں ہے؟ کیونکہ ڈر اور خوف سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہوتا اور اسی میں ہم مبتلا ہیں مگر یاد رکھیں کہ بہادرہی نہیں محبت کی طرح حکمت و دانائی بھی کسی خاص فرد، قبیلے یا قوم کی میراث نہیں ہوتی۔ ہمارے معزز سیاستدانوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ محبت، حکمت و دانائی اور بہادری کا راستہ اپنا کر روایت شکن بنتے ہوئے روایتی سیاست ترک کر دیں۔ تاریک اور طویل سرنگ سے باہر نکل کر اتحاد، تنظیم، یقین محکم پے مبنی ایسی نئی سیاست کا آغاز کریں جو ہم سب کو ہم آغوش کر دے۔خوشیوں اور خوشحالی سے مالامال کر دے اور ہم متحد و منظم ہو کر اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لیں۔ ایسی منزل جو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے۔ میرے پسندیدہ شاعر استاد اعظم غالب نے کہا تھا۔
دِل ناتواں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

تبصرے بند ہیں.