تقریباً دس ماہ قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ ہر اہم مسئلے پر نظر ثانی اور اصلاح کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لیکن چین کے متعلق ٹرمپ انتظامیہ سے وراثت میں ملنے والی منتشر اور متضاد پالیسی ہی جاری ہے۔ نئی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار امریکی اور چینی اعلیٰ حکام نے الاسکا میں ملاقات کی۔ یہ اجلاس، جس کو دونوں اطراف کے تحفظات بیان کرنے کا موقع قرار دیا جا رہا تھا، معمولی توقعات سے بھی بہرہ مند نہ ہو سکا۔
اس اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ امریکی حکومت کو سنکیانگ، ہانگ کانگ، تائیوان میں اٹھائے گئے چین کے اقدامات، امریکا پر سائبر حملے اور ہمارے اتحادیوں پر معاشی دباؤ کے حوالے سے گہری تشویش ہے۔ چین کی طرف سے ایسے اقدامات عالمی استحکام کے لئے کی جانے والی کوششوں کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ ملاقات میں امریکا کی طرف سے الزامات کی طویل فہرست پر چین کے اعلیٰ سفارتکار، یانگ جیچی نے حساب چُکتا کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سائبر حملوں کا ”چمپئن“ ہے اور امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست ہائے متحدہ کی جمہوریت کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔
تلخ جملوں کا یہ تبادلہ صرف اور صرف دنیا کے دو طاقتور ممالک کے مابین تعلقات میں خطرناک زوال میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے دونوں فریق
سخت اور کھردرا رویہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ یہ انداز دونوں ممالک کے باسیوں کے لئے تو خوش نما ہو سکتا ہے، لیکن اس سے حقیقت پسند سفارتی توقعات کے حصول میں شدید پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اب جبکہ تازہ ترین اطلاعات بھارت کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرز کے استعمال کے ذریعے چین کی جاسوسی کے حوالے سے آئی ہیں تو اس پر چین کا غضبناک ہونا فطری عمل ہے۔
اب جب کہ ہر حکومت کا یہ کہنا ہے کہ امریکا کو چاہئے کہ وہ تحمل مزاجی اپنائے اور تناؤ کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرے، چاہے اس کو چین کے حالیہ اقدامات پر سنگین تحفظات ہی کیوں نہ ہوں۔آگے بڑھنے کا ایک راستہ یہ ہو گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی عائد کردہ کچھ پابندیوں کو ختم کر دیا جائے، جیسے تعلیمی ویزوں کے اجرا پر پابندی، چینی صحافیوں کی بے دخلی اور قونصل خانے بند کرنا۔
بائیڈن انتظامیہ نے چین کے حوالے سے اپنی پالیسی کو ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کی نسبت زیادہ اہم سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکا چین سے ”انتہائی مسابقت“ چاہتا ہے لیکن تنازع نہیں۔ مسٹر بلنکن نے رواں ہفتے ٹوکیو کے اپنے سرکاری دورے کے دوران کہا، ”چین کے ساتھ تعلقات بہت پیچیدہ ہیں، اس کے معاندانہ پہلو ہیں، اس کے مسابقتی پہلو ہیں اور اس کے باہمی تعاون کے پہلو بھی ہیں“۔ اس سب کے باوجود ابھی تک بائیڈن انتظامیہ بھی ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
حلات میں بہتری کی کوشش کے بجائے تین ماہ قبل واشنگٹن نے 24 چینی عہدیداروں پر ہانگ کانگ میں سیاسی آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ بننے کے باعث پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اگرچہ یہ اہلکار چینی کمیونسٹ پارٹی کے حکم پر عمل پیرا تھے۔ ان میں سے کسی کے بھی بیرون ممالک اثاثے نہیں ہیں۔ وہ روسی طرز کے کلپٹوکریٹس نہیں جن کے سوئٹزر لینڈ میں لاکھوں ڈالر پڑے ہوں، وہ صرف اپارٹکس ہیں۔ ان پر پابندیوں سے نئی انتظامیہ کو چین کے حوالے سے تو نرم رویہ رکھنے کے الزامات سے بچایا جا سکتا ہے لیکن یہ بیجنگ کے طرز عمل کو تبدیل کرنے میں معاون نہیں ہوں گی۔
بلنکن کا تائیوان کو ایک ملک قرار دینے کا بیان صرف ان لوگوں کے لئے خوش کن تھا جو 23 ملین آبادی کے حامل اس جزیرے کو کامیاب جمہوریہ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن چین ایک طویل عرصہ سے تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس نے یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ کو ”ملک“ کا لفظ استعمال کرنے پر تنبیہ کی ہے۔ عہدہ چھوڑنے سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اس دو رُخی پالیسی کو ختم کر دیا اور اہلکاروں کو تائیوان کا حوالہ دیتے وقت اس اصطلاح کو استعمال کرنے کی ہدایت کی، اور اب بائیڈن انتظامیہ اسی پر عمل پیرا ہے۔
مسٹر بائیڈن کی اب تک کی امریکا کی چین پالیسی کو ازسر نو مرتب کرنے کی سب سے مؤثر کوشش یہ رہی ہے کہ امریکی اتحاد اور بین الاقوامی وعدوں کو دوبارہ سے تقویت دی جائے۔ بائیڈن جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا کے رہنماؤں کے ہمراہ بحر الکاہل کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے تدارک کے لئے مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے حل طلب تمام اہم امور مثلاً ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے عائد کردہ تجارتی پابندیاں، بحیرہ جنوبی چین میں چین کی فوجی توسیع، تائیوان کو اسلحہ کی فروخت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ نہ ہی چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے ”ہواوے“ کے بارے میں پالیسی واضح کی ہے جو ناصرف مغربی ممالک کو سستی ٹیکنالوجی کی پیش کش کرتی ہیں بلکہ چینی انٹیلی جنس خدمات کے لئے ”ٹروجن ہارس“ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن بائیڈن کی جانب سے اعلان کردہ چین پالیسی کے بارے میں امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے جامع جائزہ کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ احتیاط ایک غلطی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں زوال کو فوری طور پر کم کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔
اول، بائیڈن انتظامیہ کو چین میں پیس کارپس اور فلبرائٹ سکالرشپ پروگراموں کو دوبارہ شروع کرنے کی پیش کش کرنی چاہئے، یہ کلیدی طریقہ ہے جو گزشتہ دہائیوں کے دوران امریکیوں نے اس ملک کے بارے میں سیکھا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کو تنہا کرنے کی کوشش میں یہ دونوں سکالر شپس منسوخ کر دی تھیں۔ نتیجہ ٹرمپ کی خواہشات کے برعکس ہوا اور امریکا کی سکالرز اور تجزیہ کاروں کی نئی نسل کو تربیت دینے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا۔
دوم، اس کے بدلے میں امریکی حکومت کو چین کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹس کو مذموم پروپیگنڈہ مشینیں کہنا بند کر دینا چاہئے۔ یہ بڑے پیمانے پر ثقافتی مراکز ہیں اور بہت سے دوسرے ممالک کے تعلیمی اداروں کی طرح ہیں، جو اپنی ایک اچھی شبیہ کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں کو کنفیوشس انسٹی ٹیوٹس پر اپنا نصاب مسلط کرنے سے روکنا چاہئے، کوئی یونیورسٹی غیر ملکی حکومت کو اپنا نصاب مرتب کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ لیکن تعلیمی مراکز اپنا کام کرنے کے اہل ہوں، جیسا جرمنی کے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ یا برطانوی کونسلیں کرتی ہیں۔
تین، بائیڈن انتظامیہ کو گزشتہ برس ٹرمپ حکومت کی جانب سے بے دخل کیے جانے والے چینی صحافیوں کی کچھ تعداد کو ریاست ہائے متحدہ میں واپس آنے کی اجازت دینی چاہئے، بشرطیکہ بیجنگ بھی امریکی نیوز تنظیموں کے منظور شدہ صحافیوں کا ایک بار پھر خیرمقدم کرنے پر راضی ہو جائے اور انہیں ہراساں نہ کرنے کا عہد کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات نے چین کو سمجھنے کی امریکی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ سابق صدرکے اقدامات کے باوجود اب بھی چین کے بہت سارے رپورٹرز، سفارت کار اور دسیوں ہزار طلبا امریکا کے موجود ہیں۔
چار، امریکی حکومت کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین، جو امریکا جانا چاہتے ہیں، کے ویزوں پر عائد پابندیاں ختم کرنی چاہئیں۔ یہ پالیسی امریکیوں کو سی سی پی کے مبینہ طور پر بد اثرات سے بچانے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی تقریباً 90 ملین ممبروں پر مشتمل ہے، جن میں سے بیشتر نچلے درجے کے سرکاری ملازم ہیں، جو کسی برائی شامل ہیں نہ کسی کے پیروکار، انہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔آخر میں، چین کو ہیوسٹن میں اپنا قونصل خانہ کھولنے کی دعوت دی جانی چاہئے، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے جاسوسی کے الزام میں پچھلے سال بند کر دیا تھا۔ اس کے بدلے میں، چینی حکومت امریکا کو چینگڈو میں اپنا قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے گی، جسے بیجنگ نے جوابی کارروائی میں بند کر دیا تھا۔
یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں لیکن اعتماد پیدا کرنے کے لئے معنی خیز ثابت ہو سکتے ہیں اور بعد میں کٹھن مسائل جیسے تائیوان کے ساتھ جنگ کا خطرہ، جنوبی بحیرہ چین میں تنازعات یا صنعتی جاسوسی پر زیادہ بہتر گفت وشنید کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ نیز: ان اقدامات میں سے کوئی بھی تحفہ نہیں ہے، ہر ایک کے بدلے میں کچھ درکار ہے۔ اسی طرح، وہ تعلقات میں بہتری لانے کے لئے بیجنگ کی خواہش یا رضامندی کا امتحان ہوں گی۔ اگر بیجنگ ان کو مسترد کرتا ہے تو واشنگٹن اس مسئلے کی سنگینی کو زیادہ واضح طور پر جان لے گا۔ معمولی اقدام سخت فیصلوں کی نسبت بہتر نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں کہ آخر کار حقیقت پسندی کو ہی اپنانا پڑے گا۔
(بشکریہ: دی نیویارک ٹائمز)
Next Post
تبصرے بند ہیں.