کچھ دن پہلے مجھے ایک کال ریسیو ہوئی۔ ان ہی دنوں کئی ایس ایم ایس بھی آئے۔ جس میں مجھ سے کہا گیا۔ محترمہ آپ ایک عورت ہیں۔ عورت کا درد محسوس کرتے ہوئے معاشرے میں ہونے والے عورتوں کے خلاف ظلم پر اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔ حقیقت ہے اس ظلم کے خلاف آج ہر طرف آواز اٹھ رہی ہے کہ نور مقدم کو ظاہر ذاکر جعفر نے بڑی بے رحمی اور بے دردی سے قتل کیا ہے۔ درندہ قاتل کو عبرت ناک سزا دیتے ہوئے اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ اس لرزہ خیز واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس میں سفاک ملزم نے مقتولہ کا سر اس کے دھڑ سے الگ کر کے دور پھینک دیا۔ قاتل اس کے جسم کے کئی حصوں پر ظالمانہ طریقے سے چاقو کی کاری ضربات لگاتا رہا۔ سابق سفارت کار شوکت مقدم کی 27سالہ بیٹی نور مقدم وفاقی دارالحکومت کے تھانہ کوہسار کے علاقے سیکٹر F-7/4میں 20 جولائی 2021 کو ظاہر ذاکر جعفر کی اس بربریت کا شکار ہوئی ہے۔ جس کو ملزم نے اپنے گھر بلا کر ٹارچر کیا اور بعد میں اس کے قتل کے جرم کا مرتکب ہوا۔ اندوہناک واقعے کے وقت ملزم ظاہر کے سکیورٹی گارڈز موقع پر موجود تھے۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے سامنے ظلم ہوتا دیکھتا ہے تو وہ خاموش رہتا ہے وہ بھی ظالموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس وقت صرف قتل کرنے والا مجرم نہیں بلکہ ہر وہ شخص مجرم ہے جو یہ ہوتا دیکھتا اور سنتا ہے۔ لیکن اسکو نظرانداز اور ان سنا کر دیتا ہے۔ میرا دل دکھتا ہے۔ ہم دوسروں کے دکھ کو اپنا درد کیوں نہیں سمجھتے ہیں۔ نعوذباللہ کیا ہم خدا بن چکے ہیں۔ ہماری مرضی سے کسی کی جان نکلے گی۔ ایک سوچ ہے جس کا جواب سوچنے سے ہی مل جائے گا۔
جس وقت یہ بربریت ہو رہی تھی۔ اس موقع پر موجود لوگ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی نے ملزم کو روکنے اور نور کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ ملازمین کی جانب سے ظاہر کے والدین کو فون کر کے گھر کی صورت حال بتائی گئی لیکن انہوں نے بھی اس پر کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ ایک موقع پر نور نے ظاہر کی اذیت سے بچنے کے لئے بالائی منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی اور باہر کے دروازے کی طرف دوڑی اس نے سکیورٹی گارڈ سے بھی مدد مانگی۔ سکیورٹی گارڈ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ ظاہر نے پیچھے سے آ کر نورمقد م کو بالوں سے پکڑا۔ زمین پر پٹخا۔ وہ اس کا سر سیڑھیوں پر مارتا ہوا اسے دوبارہ اوپر لے گیا اور کمرے کو بند کر دیا۔ یہ سارا منظر گلی کے کچھ لوگوں نے بھی دیکھا۔ اس دوران چیخ و پکار کی آوازوں پر آس پاس کے لوگ ظاہر کے گھر کی طرف متوجہ ہو گئے تھے جو اس وقت مقتل گاہ بنا ہوا تھا۔ جس پر سکیورٹی گارڈ نے والدین کو فون پر تازہ صورت حال بتائی جس پر
ظاہر ذاکر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے اسلام آباد کے تھراپی سنٹر والوں کو فون کیا اور ان کو مذاق کے انداز میں بتایا کہ لڑکی اندر ہے اور ظاہر اسے solicite کر رہا ہے۔ اطلاع دینے کا انداز اتنا بھونڈا تھا کہ مرکز والے بھی حیران ہوئے۔ لیکن بحالی مرکز والے جب پہنچے اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ ملزم لڑکی کو موت کے گھاٹ اتار چکا تھا۔ تھراپی والوں نے کمرے کے اندر کا منظر دیکھا ان کے ہوش اڑ گئے۔ اس اثنا ملزم نے بحالی مرکز کی ٹیم پر بھی حملہ کیا۔ ظاہر کے تیز دھار آلے سے ٹیم کا ایک رکن زخمی بھی ہوا۔ ملزم نے فائر نگ کرنی چاہی لیکن گولی چل نہ سکی۔ اس وقت تک کسی ہمسائے کی اطلاع پر پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھی۔ پولیس والے بھی قتل کی اندوہناکی دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔ قاتل ظاہر پولیس کو دیکھ کر اپنی دولت اور امریکی شہریت کے نشے میں گھمنڈ پر اتر آیا۔ وہ ہر سوال پر یہی کہتا وہ امریکی شہری ہے۔ پولیس نے ملزم موقع پر آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا۔ بعد میں ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی اور 2 گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتا ر کیا گیا ہے۔ جو اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ نورمقدم کے قتل کو 10سے زیادہ روز گزر چکے ہیں لوگ آج بھی دہشت زدہ ہیں۔ اس قتل کو تاریخ کی بدترین درندگی کہا جا رہا ہے۔ جس میں ایک نہتی لڑکی کو اس بے رحمانہ طریقے سے موت دی گئی ہے۔ جس میں وہ چیختی، چلاتی اور تڑپتی رہی مگر قریبی لوگوں میں سے بھی کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ اس نے متعدد بار موبائل پر ویڈیو پیغام شیئر کرنا چاہا مگر وہ درندے کے نرغے سے نکل نہ سکی اور نہ ہی قاتل کی حیوانیت سے بچ سکی۔ اللہ تعالی غفور رحیم ہے۔ نورمقدم کی مغفرت فرمائے اور اس کے قاتل کو دنیا میں عبرت ناک انجام دے اور آخرت میں بھی جہنم واصل کرے۔
نورمقدم کی المناک موت رونگھٹے کھڑے کر دینے والا سانحہ ہے۔ اس واقعے کے رونما ہونے اور عورتوں کے قتل کے بڑھتے واقعات کے بعد پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے معاملے پر آنچ آ گئی ہے۔ عوامی سطح پر لوگوں کے چبھتے ہوئے سوالات کا رخ اس وقت اسلام آباد کے آزاد کلچر اور وہاں پھیلتی بے حیائی کی طرف ہے۔ اسلام آباد پر موقوف نہیں ملک بھر میں اغوا زیادتی اور قتل کی وارداتوں پر لوگوں میں تشویش کی لہر ہے۔ تاہم شہر اقتدار کو اپنے شفاف اور پُرامن تشخص کو واضح کرنا ہو گا۔ وفاقی دارالحکومت ملک کا انتظامی قبلہ اول ہوتا ہے۔ شہر قیادت میں بربریت کے واقعات عام ہوں۔ تو لوگ اسے شہر نہیں جنگل کا نام ہی دیں گے۔ پھر یہ جنگل راج دیگر شہروں اور علاقوں میں بھی ظلم کا بازار گرم کرے گا۔ جو نہایت افسوس اور شرم کا مقام ہے۔
اگر ملک میں اخلاقی پستی ہے۔ جنسی بے راہروی ہے۔ راہزنی قتل و غارت گری ہے۔ جگہ جگہ جرائم پل رہے ہیں۔ اشرافیہ دولت، اقتدار اور اختیار کے نشے میں اندھی کھیل رہا ہے۔ تو کرائم کے اس شتر بے مہار کو لگام دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرموں کی پرورش کرنے والے مافیا اور اس کو فروغ دینے والے اشرافیہ کا خاتمہ کر دیا جائے۔ انٹی ٹیررازم کا دائرہ کار بڑھا کر اس کو گھروں میں ہونے والی بربریت تک پہنچایا جائے۔ کوئی بھی ظلم ہو۔ اس کو دہشت گردی کے دائرہ میں لانا چاہئے۔ ظلم کو روکنے کے لئے ہر ظالم کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔
وقت آ گیا ہے یہ ثابت کیا جائے۔ پاکستان میں کوئی شخصیت طاقت ور نہیں۔ آئین اور قانون طاقت ور ہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین کو بہتر بنانے، قوانین پر عملددرامد کو یقینی بنانے، مجرموں کو سزائیں دینے کی شدید ضرورت ہے۔ خواتین کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح اور ذمہ داری ہے۔ نورمقدم کا ہولناک قتل خطرناک دہشت گردی ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسی درندگی اور حیوانیت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے واقعات ہماری سماجی اقدار کے منافی اور سوسائٹی پر بدنما داغ ہیں۔ لوگوں کا یہ شک دور کرنا ہو گا۔ موجودہ سسٹم کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں نورمقدم کا بہیمانہ قتل کیس، راولپنڈی میں نسیم بی بی سے زیادتی کے بعد 14ماہ کے بچے سمیت قتل کیس، حیدر آباد میں 4 بچوں کی ماں قرت العین کا قتل کیس اور وفاقی دارالحکومت میں عثمان مرزا کیس اور اس جیسے کئی اور واقعات درندگی اور بربریت کی بدترین مثالیں ہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ یہاں ہر کیس، ٹیسٹ کیس ہے۔
وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف شہروں میں نورمقدم کے قتل کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے کا پُرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بھرپور مذمتی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور گرماگرم بحث جاری ہے۔ وہیں نور مقدم کی ایک پرانی تصویر بھی شیئر کی جا رہی ہے۔ جس میں وہ ایک بینر اٹھائے ہوئے ہے جس پر لکھا ہے۔ انہیں لٹکا دو، انہیں تباہ کر دو۔آج انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نور مقدم کا بے رحم اور سفاک قاتل ظاہر ذاکر جعفر، جانور سے بدتر ہے۔ اس بدبخت کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ نور قتل کیس، ٹیسٹ کیس کا نقطہ آغازہونا چاہیے۔ نور کے ورثا صدمہ غم اور مایوسی کے عالم میں ہیں اور انصاف کے لیے امید کی کرن ڈھونڈتے ہیں۔ جیسے اندھیروں میں روشنی کی تلاش ہو۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.