غذائی قلت کا خدشہ: کوئی منصوبہ بندی نہیں

201

زراعت نسلِ انسانی کی بقا کی ضامن ہے اور یہی ہماری  ملکی معیشت کی کایا پلٹ کر ملک کو خود کفالت کی منازل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ زرعی خود کفالت میں ہی قوم کی سربلندی ہے اور جس ملک میں اناج نہیں اس کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی ساری شان و شوکت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ روس جو کرہئ ارض کے چھٹے حصے پر پھیلا ہوا تھا اور دنیا کی سپر پاور تھی۔ اسے بھی غذائی قلت کی وجہ سے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ اور اب وہ سپر پاور کے اعزاز سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ پاکستان میں ہر کوئی زراعت کی اہمیت جانتا ہے اور اربابِ اختیار بیان دیتے رہتے ہیں کہ قدیمی زراعت کو سختی سے کاروباری خطوط پر منظم کر دیا جائے گا۔ ان تمام خوش آئند بیانات کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے کاشت کار خصوصاً چھوٹے کاشت کار اقتصادی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔  ہماری 60 فیصد زمین ایسے لوگوں کے پاس ہے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں، سرمایہ نہیں ہے، ان کے پاس جدید انفارمیشن بھی نہیں ہے،وہ اچھا بیج اور کھاد افورڈ نہیں کر سکتے ہیں۔
غذائی خود کفالت کے مسئلہ پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ موجودہ وقت میں گندم، چینی اور دوسری اجناس کا جو بحران آیا اس نے ملک میں سنگین انارکی پھیلا دی۔ خوردنی تیل الگ مستقل روگ ہے جس کی درآمدپر ہر سال اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان برسہا برس تک اپنا بہترین پیاز شرقِ اوسط کے ممالک کو برآمد کر کے قومی ذرائع آمدنی میں اضافے کا سبب بنتا رہا ہے لیکن اس وقت یہ ایکسپورٹ تقریباً صفر کے درجے کو پہنچ چکی ہے۔ بلوچستان کے علاقے خضدار کا پیدا کردہ پیاز اپنی کوالٹی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین فصل شمار ہوتی تھی لیکن اب پاکستان اس نعمت سے محروم ہو چکا ہے کیونکہ بلوچستان کی سیاسی ابتری اور وہاں دہشت گردی کے آئے روز کے سانحات نے پیاز کاشت کرنے والے کسانوں کو علاقے سے بھگا دیا ہے۔ وزیرستان کا آلو پیاز بھی زرِ مبادلہ کمانے کا باعث بنتا تھا لیکن وہاں کے حالات نے زراعت اور کسانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہوتا رہا ہے جو بہترین اور سب سے زیادہ کپاس پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر اسی وجہ سے قومی خزانے کے لئے سونے کی مرغی ثابت ہوتا رہا ہے کہ کپاس کی مصنوعات پاکستان کی کل
ایکسپورٹ کا 60 فیصد رہی ہیں جو زرِ مبادلہ کمانے کا شاندار ذریعہ تھیں۔ اب اس میدان میں بھی زوال کا گراف زمین کی طرف تیزی سے گر رہا ہے۔ اس کے نہایت منفی اثرات قومی خزانے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب  پاکستان کی پہچان زراعت تھی یہاں سے زرعی اجناس ایکسپورٹ ہوتی تھیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ہم اربوں ڈالر کی گندم، چینی امپورٹ کر رہے ہیں۔ کپاس جو کبھی وافر ایکسپورٹ ہوتی تھی وہ بھی باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ پچھلے سال 88 کروڑ کی کاٹن درآمدکی گئی، رواں سال کاٹن امپورٹ بل ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ رواں سال زرعی شعبے کی گروتھ میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے11 ماہ میں پچھلے سال کی نسبت 53 فیصد زائد اشیائے خورو نوش درآمد کی گئیں۔382 ارب روپے کا پام آئل، 158 ارب روپے کی گندم، 99 ارب روپے کی دالیں، 86 ارب کی چائے، 32 ارب روپے کے مسالحہ جات اور تقریباً 21ارب روپے کی چینی درآمد کی گئی۔کہنے کو رواں برس ملک میں گندم کی 27 ملین ٹن بمپر فصل ہوئی ہے لیکن اسٹرٹیجک ذخائر کے لئے 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آج ہم غذائی قلت کا شکار ملک بن چکے ہیں۔
عالمی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ہماری ہر فصل کی فی ایکڑ پیداوار بیشتر ممالک سے کم ہے۔ غیر اقتصادی پیداواری یونٹ معاشی محرومیوں کی زندہ تصویر ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں ہم زراعت میں صرف یہ ا نقلاب لائے ہیں کہ ہمارے 90 فیصد کاشت کار معاشی لحاظ سے بد حال ہیں۔ مسلم ممالک میں ترکی، مصر جو کہ ہم سے پیچھے تھے اب بہت آگے نکل چکے ہیں اور تھائی لینڈ جیسا پسماندہ ملک بھی اب زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اگر چہ کہنے کو تو یہاں زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن عملاً یہ ہوا کہ بڑے زمینداروں اور افسروں کی دھوکہ دہی سے ابھی تک ان اصلاحات کو صحیح معنوں میں نافذ ہونے ہی نہیں دیا۔ اب بھی بڑے زمیندار نہری زمین کے وسیع و عریض قطعات پر قابض ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑے زمیندار اب بھی غریب مزارعوں پر مسلط ہیں اور انہوں نے قیامِ پاکستان سے ہماری سیاست کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ ملک ان لوگوں کے نزدیک ایک کھیل تماشہ ہے بلکہ پاکستان کی سیاست ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ ایک ہی خاندان کے نسل در نسل پانچ پانچ افراد اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ یہ خاندان آپس میں ہی رشتہ داریاں کرتے ہیں۔ پاکستان اس وقت پوری طرح چند سو جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ملک میں زراعت کے شعبہ میں خستہ حالی اور نئے نئے شہروں کی تعمیر اور زرعی زمین کے دھیرے دھیرے فقدان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اس وقت جب کہ ہم صرف توانائی بحران کی بات کرتے ہیں، زراعت اور آنے والے طوفان کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔ صرف اس وقت ملک میں گندم، چینی، سبزیوں اور کھانے کے تیل کا فقدان ہوتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے۔ ہر طرف زراعت میں ناقص حکمتِ عملی کی باتیں سنی جانے لگ جاتی ہیں۔ ایسے میں ہر حکومت گندم، گنے کے کاشت کاروں اور عوام کو دلاسے، تسلیاں اور امیدوں کا لولی پوپ تھما کر انہیں وقتی طور پر خاموش کر دیتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی معاشیات بہت حد تک زراعت پر منحصر ہے کیونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ یہ ہماری قومی معاشیات کا بڑا حصہ مہیا کرتی ہے اور اندازے کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی اس پیشے سے منسلک ہے۔ ہماری زراعت کا زیادی تر انحصار پانی پر ہے، جو تقریباً 4 ہزار میل لمبی نہروں پر مبنی ہے۔ یہ دنیا کا وسیع ترین نہری سسٹم ہے۔ زیادہ تر پانی دریائے سندھ سے آتا ہے جب کہ تھوڑا بہت پانی پنجاب کے دوسرے دریاؤں سے بھی حاصل کیا ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک خاص طور پر ہمارے اپنے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو زراعت، باغبانی، خوراک سے متعلق ٹیکنالوجی اور ان چیزوں سے متعلق اچھی تعلیم وتربیت دی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو معاشیات و انتظامات کی تعلیم دی جائے جس کا تعلق زراعت، خوراک اور ان سے متعلق صنعتوں سے ہے۔ دو بہت بڑی مشکلات یا مراحل جن کا پاکستان کو فوری اور فوری سامناہے وہ ہے آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور شہری و رہائشی سکیموں کا بے انتہا پھیلاؤ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب میں ہے۔ خاص طور پر فیصل آباد، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان وغیرہ میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین ضائع ہو رہی ہے۔ جس پر رہائشی سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت اچھی زرخیز زمین سیم و تھور کا شکار ہو کر بیکار ہوتی جا رہی ہے۔ ہم تمام زرخیز اور قابلِ کاشت زمینوں پر عمارتیں بنا رہے ہیں۔ اور پھر چند سال بعد فصلیں اگانے کے لئے زمین ہی نہیں ملے گی۔ اگر ہمیں مستقبل میں غذائی قلت سے بچنا ہے تو زراعت پر دھیان دینا پڑے گا۔

تبصرے بند ہیں.