فطرتاً میں کسی شخص کی تعریف لکھنے سے ہمیشہ گریز پا ہی رہا ہوں لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی شخصیت کے کچھ پہلو بنی نوع انسان اور خصوصاً غریب لوگوں کے لیے باعث فلاح ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ستائش نہ کرنا بھی ایک قسم کا بخل ہے۔میری زندگی کا تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیوروکریسی کے ساتھ گزرا ہے، خصوصاً پنجاب میں کام کرنے والی بیوروکریسی کیساتھ۔بدقسمتی سے اس ملک کی بیوروکریسی کا امیج (Image) اس ملک کے عوام کی نظروں میں کوئی خاص پسندیدہ نہیں ہے، لیکن ان میں کچھ لوگ ضرور ایسے ہیں جن کی زندگیاں لوگوں کی مدد کرتے اور انہیں ریلیف مہیا کرتے گزری ہیں۔ آ پ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے میں نے پاکستان کے درویش صفت اور عام آدمی سے محبت کرنے والے سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم کی شخصیت کے کچھ شاندار پہلوؤں کا ذکر اپنے ایک کالم میں کیا تھا۔ سچ پوچھیں ڈاکٹر صاحب کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنے پر میرا دل دُکھ سا گیا ہے۔آج سے چند روز پیشتر پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ میں اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے خطاب میں سابق بیوروکریٹ جی ایم سکندر کا ذکر کیا اور اُن کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ بنانے کے پراجیکٹ میں انہوں نے بہت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ جی ایم سکندر کی انہی خدمات کے پیش نظر میں آج اُنہیں اس بلڈنگ کی افتتاحی تقریب میں ساتھ لایا ہوں تاکہ ہم سب مل کر ان کی ان خدمات کا اعتراف کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی ایم سکندر ایک لمبا عرصہ اُن کے پرنسپل سیکریٹری رہے ہیں۔ اُن کی خاص خوبی تھی کہ وہ کئی مشکل مراحل میں ہمیں اور حکومت کو احسن طریقے سے نکال لے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری اگرچہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن میں انہیں کہوں گا کہ وہ جی ایم سکندر کے foot prints کو follow کریں جس کے نتیجہ میں حکومت اور اس کے اتحادی ایک اچھی فضا میں آگے بڑھتے رہیں گے۔ یقیناً اس سے عوام کے لیے آسانیوں کا بندوبست ہوتا رہیگا۔
میں جی ایم سکندر کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ایس اینڈ جی اے ڈی (S&GAD) میں ڈپٹی سیکریٹری تھے۔وہ ایک سادہ اور درویش منش انسان ہیں جن میں بیوروکریسی میں عموماً پائے جانے کسی complex کا کوئی وجود نہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ وہ کسی چپڑاسی اور چوکیدار سے بھی اسی طرح ملتے ہیں جیسے وہ چیف سیکریٹری سے ملتے
ہیں۔فطرتاً سادہ لوح ہیں جس کا اثر پوری فیملی پر نظر آتا ہے۔اگر مصروف نہ ہوں تو اپنے گھر آنے والوں کو ویلکم کہتے ہیں اور گھر سے جانے والوں کو باقاعدہ باہر جا کر خدا حافظ کہتے ہیں۔ اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ ایک دن میں سکندر صاحب کے گھر کسی کام کے سلسلے میں گیا۔ اُن دنوں وہ بہاول پور ہاؤس یعنی جی او آر ٹو میں رہتے تھے۔ ملاقات کے بعد مجھے باہر نکلتے دیکھ کر میرا ڈرائیور میرے پاس گاڑی لے آیا۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا لیکن سکندر صاحب مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے کھڑے رہے۔ میرا ڈرائیور جی ایم سکندر صاحب کو بائی فیس (by face) نہیں جانتا تھا۔ کوٹھی سے نکلنے کے بعد کہنے لگا سر سکندر صاحب کا ڈرائیور بہت عزت دینے والا تھا۔ جب تک ہم کوٹھی سے نکل نہیں گئے وہ ہمیں خدا حافظ کہنے کے لیے کھڑا رہا۔ میں نے اُسے کہا ”بے وقوفا‘ وہ تو سکندر صاحب خود تھے اور وہ ہر گھر آنے
والے کو اسی عزت سے خدا حافظ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت غریب اور لاوارث لوگوں کی مدد کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ انہیں ایسے لوگوں کی مدد کر کے یک گونہ سکون ملتا ہے۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہاوس میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور مختلف اقسام کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کام کیا ہے۔ جب نواز شریف وزیراعلیٰ تھے تو سکندر صاحب نے بطور ایڈیشنل سیکریٹری ان کے ساتھ کام کیا۔ نواز شریف ایک بہت کھلے دل کے انسان تھے خصوصاً جب خرچ ہونے والے فنڈز سرکار کے خزانے سے جا رہے ہوں۔ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد پنجاب غلام حیدر وائیں کے حوالے کر دیا گیا تھا جو کہ بند مُٹھی والے وزیراعلیٰ تھے لیکن سکندر صاحب لوگوں کے کام ان سے بھی نکلوالیتے تھے۔ پھر منظور وٹو کا دور آگیا اور سکندر صاحب نے ان کے ساتھ بھی احسن طریقہ سے اپنا وقت گزارا۔ ان کی وزیراعلیٰ ہاوس پوسٹنگ کے دوران ایک پرابلم غریب عوام کو یہ تھی کہ وہ ان تک پہنچ نہیں سکتے تھے کیونکہ انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس کوئی گھسنے نہیں دیتا تھا۔ لیکن سکندر صاحب نے اس کا حل نکال لیا تھا، اور وہ یہ کے دفتر جانے سے پہلے وہ غریبوں کو اپنی کوٹھی میں ہی مل لیتے تھے۔ وہیں انہوں نے ان کے بیٹھنے کا بندوبست کر لیا تھا اور وہیں سے انہیں لیٹرز اور ڈائریکٹو مل جاتے تھے۔ لیکن اس پر بھی ہمارے کچھ صاحب لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی۔مجھے یاد ہے ایک سیکریٹری صاحب جو بعد میں چیف سیکریٹری بن گئے تھے سامنے کی کوٹھی میں رہتے تھے اور عوام کی یوں آمد و رفت سے بہت نالاں رہتے تھے، کہتے تھے جی ایم سکندر نے جی او آر ون کا ماحول ہی خراب کرکے رکھ دیا ہے۔ لیکن جی ایم سکندر کا یہ چشمہ فیض ہمیشہ جاری رہا۔ وہ ان لوگوں کے حالات سے آگاہی بھی رکھتے ہیں جنہیں ان کی مدد کی ضرورت رہتی ہے اور وہ اپنی مدد انہیں پہنچاتے رہتے ہیں لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے۔ میرے خیال میں سول بیوروکریسی کے نوجوان افسران کو جی ایم سکندر کی شخصیت ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے رکھنی چاہیے جنہیں غریبوں کو گلے ملنے سے کوئی کوفت نہیں ہوتی۔ ان کی پریشانیاں انہیں پریشان کر دیتی ہیں اور وہ ان کی مدد کے لیے کبھی کس کو فون کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی کسی کو۔لیکن سچ پوچھیں آپ کو موجودہ دور کے افسران میں کوئی جی ایم سکندر اور ڈاکٹر ظفر الطاف نظر نہیں آتا۔ جی ایم سکندر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ ایک اور بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں یا ان کے لواحقین کی فوتیدگی کی صورت میں ان کے جنازوں میں بڑی باقاعدگی سے اور بر وقت پہنچتے ہیں۔ اللہ انہیں صحت و سلامتی سے نوازے رکھے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کی اپنے معاشرے سے امیدیں قائم رہتی ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.