ملک کا ایٹمی پروگرام اور عمران خان

141

پارلیمنٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اورسابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی تقریر کی گونج اب بھی کانو ں میں سنائی دے رہی ہے کہ عمران خان کو یہ اختیارکس نے دیا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی صورت میں ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کی بات کریں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اس پروگرام کے حوالے سے لچک کی بات کی ہی نہیں جا سکتی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایٹمی پروگرام نے کسی حد تک پاکستان کو ایک بڑی جنگ سے بچا رکھا ہے مگر یہ بات سو فیصد درست نہیں ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائیل ٹیکنالوجی کی وجہ سے پاکستان کی پوزیشن کا فی مضبوط ہوئی ہے اور بھارت میں یہ جرأت نہیں ہو رہی کہ وہ بین الاقوامی سرحد عبور کر کے ایک بڑی جنگ شروع کر دے ۔جہا ں تک یہ سوال ہے کہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوںکی حفاظت ممکن ہے تو یہ با ت درست نہیں ہے۔بھار ت کی ائیرفورس نے حالیہ برسوں میںہی سرحد کو عبور کر کے پاکستان علاقوں میں اپنے بم گرائے۔ اس وقت ہمارے بم او ر میزائیلو ں نے ہمارا دفاع نہیں کیاتھا۔ امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان میں گھس گئے اور ایبٹ آبا د میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کر کے چلے گئے لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔ خود احسن اقبال جس حکومت کا حصہ تھا اس میں امریکی ڈرون حملے ہوتے رہے اور ہماری سرحدوں کا تقدس پامال ہوتا رہا ہم کچھ نہ کر سکے۔ ایٹمی ہتھیار جنگ میں پہلا ہتھیار نہیں ہوتا بلکہ آخری ہتھیار ہوتا ہے جب یہ محسوس ہو جائے کہ ملک کی بقا خطرے میں پڑ چکی ہے تو اس موقع پر ایٹمی ہتھیارو ں کی طرف جایا جاتا ہے۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ ہزاروں میل دور امریکہ نے جاپان پر د و ایٹمی بم گرائے تھے اور جاپان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
ویسے بھی مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس پروگرام کا کنٹرول سول قیادت کے پاس نہیں ہے۔ اس پروگرام کو کس حد تک آگے لے کر جاناہے اسکا فیصلہ ملک کی سلامتی کے اداروں کے سپرد ہے۔بھٹو کے دور میں اس پروگرام پر تیزی سے کام شروع ہوا تھا اور ضیا کے دور میں اس پر بہت زیادہ کا م ہوا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کو یہ موقع دے دیا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو دنیا سے منوا لے اور اس نے بھی ایٹمی دھماکے کرکے چھٹی ایٹمی طاقت ہونے کا درجہ حاصل کر لیا۔بھارت نے جو ایٹمی دھماکے کیے تھے ان میں ایک دھماکہ اسرائیل کے ایٹم بم کا بھی تھا۔آج اسرائیل ایک غیر ظاہر شدہ طاقت کے طور پر موجود ہے اور تمام دنیا یہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کئی سو ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو ان سے چھین لیا گیا ، عراق کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر پابندیاں عائد ہیں۔ ان حالات میں ایک صرف پاکستان ہے جس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ترقی دے سکے۔مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کی صورت میں ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی بات محض اتنی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ بین الاقوامی ڈپلومیسی میں بہت سے باتیں کی جاتی ہے۔ ہم ایک ہی جگہ اٹکے ہوئے ہیں اور ہمارے دشمن نت نئی ترکیبیں اور راستے تلاش کر چکے ہیں۔ 
اس ملک نے بہت کچھ دیکھا ہے ۔ یہا ں انہونیاں ہوتی رہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو جس کے والد نے اس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا تھا اسے ملک کے سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ انہیں حکومت میں ا س لیے دی گئی ہے کہ بے نظیر نے امریکیوں کو یہ یقین دہانی کر ا دی ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرے گی۔وہ مذہبی طبقہ جو پاکستان بننے کا مخالف تھا وہ پاکستان کی حفاظت کرنے کا ٹھیکے دار بن گیا۔ یہ کہا جانے لگا کہ ان کی قیادت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئی تو پہلے ہفتے میں ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ نے ان پر واضح کر دیا کہ ایٹمی پروگرام ان کے لیے نو گو ایریا ہے۔ اقتدار سے فراغت کے بعد خود بے نظیر بھٹو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جب میں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے آرمی چیف سے بات کی تو انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ یہ پروگرام آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے بلکہ اس پروگرام کاکنٹرول براہ راست صدر کے پاس ہے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ میں نے صدر غلام اسحق خان سے اس پروگرام کی بابت کرنا چاہی تو انہوں نے بھی یہ کہہ دیاکہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو اس پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیاجائے۔  ملک کی منتخب وزیراعظم کا اس پروگرام سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہ سب کچھ بھٹو کی بیٹی کے ساتھ ہوا جو ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان دوسرے ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا تھا۔ ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے1989 میں ہونے والی ملاقات میں انہیں بتایا کہ پاکستان اور ایران نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک سمجھوتہ کیا ہے اور وہ یہ بات ان سے اس لیے کر رہے ہیں تاکہ اس سمجھوتے کے حوالے سے ان سے بھی یقین دہانی حاصل کر لی جائے ۔ بے نظیر بھٹو نے صدر اسحق اور آرمی چیف سے جب اس سمجھوتے بارے استفسار کیاتو ان دونوں نے انہیں کچھ بھی بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس وقت بے نظیر سے زیادہ اس کے ماتحتوں کو اس پروگرام کی جزیات کا علم تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکی امداد کے حصو ل کے لیے بے نظیر بھٹو نے امریکیوں کویہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ملک کاپروگرام پر امن مقاصد کے لیے استعمال ہو گا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو امریکیوں کو اس پروگرام کے حوالے سے یقین دہانی کرارہی تھیں جس پر ان کااختیار ہی نہیں تھا۔ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام کی مد میں امریکی امداد بھی لی جاتی رہی۔ اپنے دور میں وہ اس پروگرام کے حوالے سے ابہام کا شکار تھی تاہم دوسرے دور میں بے نظیر بھٹو نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور وہ ملک کی ایٹمی صلاحیت کے دفاع کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھی۔ یہ کہانیاں بھی سامنے آئیں کہ انہوں نے خفیہ طور پر پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کچھ سی ڈیز بھی شمالی کوریا کو سمگل کرائی تھیں۔ یہ تو بے نظیر کاحال تھا جس کے پاس عوامی طاقت بھی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اس پروگرام کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس کے بعد جو بھی وزیراعظم آئے وہ ا س پروگرام کے حوالے سے بس اتناہی جانتے تھے جتنا انہیں بتایا جاتا تھا۔ نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کیے لیکن ان دھماکوںکا فیصلہ خالصتاً ان کا نہیں تھا بلکہ ملک کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے ان کی پشت پر موجود تھے۔
اسے اس ملک کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ ا س پروگرام کا کلی اختیار سیاسی قیادت کے پاس نہیں  ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ بتایا جاتا کہ ڈاکٹر اے کیو خان جو کچھ کرتا رہا ا س میں سیاسی جماعتوں کو بھی حصہ جاتا تھا۔ ویسے پاکستان کی غالب اکثریت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ اے کیو خان نے یہ سب کچھ نہیں کیا اور انہیں صرف پھنسایا گیا ہے۔ اپوزیشن اور خاص طور پر مسلم لیگ ن ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی بات پر عمران خان کے لتے لے سکتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پروگرام پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کس حد تک رہناہے اس کا فیصلہ ملکی سلامتی کے ادارے ہی کریں گے۔ اسے کشمیر کے ساتھ جوڑا جائے یا کسی اور کے ساتھ نتھی کیا جائے کوئی بھی سیاسی قیادت اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ احسن اقبال شانت رہیں کیونکہ ملک کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میںہے۔

تبصرے بند ہیں.