!!!…عریاں تہذیب کو روکا جائے ورنہ

183


: اسد شہزاد

آج اگر کوئی مجھ سے یہ سوال پوچھے کہ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا

’’افتراق وانتشار‘‘

اب اگر اس پر غور کیا جائے کہ ایسی صورتحال کیونکر پیدا ہوئی تو حالات دیکھ لیں، واقعات ہم سب کے سامنے ہیں، استعماری طاقتوں نے مختلف طریقوں سے امت مسلمہ میں گمراہ کن نظریات رائج کیے اور پھر ان بے مقصد تصورات کے پھیل جانے سے مسلمانوں کی وحدت فکر ختم ہو گئی اور ہم مختلف نظریاتی ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے۔

یہ سارا خلفشار عقائد اور نظریات کا ہے، اب اس سے نکلنے کے لیے ایک صاف اور سیدھا راستہ ہے کہ ہم خالص اور حقیقی اسلام کی پیروی کریں، اسلام کے سوا ہم جس نظام کو اپنائیں گے، وہ ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جائے گا، اب آپ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ کہیں اشتراکی نظریات کا پرچار ہے، کہیں قومیت پرستی کا فلسفہ زور پکڑرہا ہے، کہیں تہذیب کے نام پر بے دینی سر اُٹھا رہی ہے اور ہمارے پاس وہ رہنما یا افراد نہیں، جو غیراسلامی قوتوں یا ان کے نظریات کا مقابلہ کرسکیں، اس کے لیے علمی، اسلامی اور فکری سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا، ورنہ آنے والے حالات بتا رہے ہیں کہ جدیدیت کے نام پر

جدیدیت کے نام پر اسلام کے بارے میں جو منفی راستے اپنائے جارہے ہیں اور جس طرح سوشل میڈیا پر نوجوان نسل کو مذہب سے دور کرنے کی کوششیںہو رہی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ہم آنے والے سالوں میں مزید شدید خطرات میں گھرے نظر آئیں گے۔

اسلام محبت کا مذہب ہے، امن اور سلامتی کا مذہب ہے، قوت اور صلاحیت کا مذہب ہے۔ ترقی اور فضیلت کا مذہب ہے۔ اکثر لوگ اسلام اور سوشلزم کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ نامناسب اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوندکاری درست نہیں، اسلام کا ایک مستقل اور مربوط معاشرتی نظام ہے اور سوشلزم ایک علیحدہ زندگی، لہٰذا دونوں کی نہ تو سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، یہاں تو ہر شخص کو زبان ملی ہے، وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے اور نیت تو اوپر والا ہی جانتا ہے، جو پوری کائنات کا بادشاہ ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان شکست کھا گئے ہیں، جو کسی بہت بڑی طاقت، بہت بڑی جماعت اور بہت بڑے سردار تصور کیے جاتے تھے، تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی شکست کا سبب ہمارا باہمی انتشار ہے۔ دوسرا ایک اور بڑا مسئلہ ماڈرن کہلوانے کے شوقین نوجوانوں نے مغربی تہذیب کو اپنانا شروع کردیا اور اس مادی چمک ودمک نے دراصل روح کا شعلہ بجھا دیا ہے۔ اسلام سے سرشار لوگوں کے دل ایمان کی روشنی سے منور رہتے ہیں اور وہ عریاں تہذیب کے فریب کاریوں کا شکار نہیں ہوتے اور ایک غیرت مند اسلامی معاشرہ عریانی کا ہلکا سا عکس بھی برداشت نہیں کرسکتا۔

اس طویل تمہید باندھنے کا مقصد آج کی نوجوان نسل کی بے راہ روی، نماز، قرآن سے دوری اور جس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعے تباہ کُن اثرات ہماری نسلوں کو جہاں دین اور قرآن سے بہت دور لے جاچکے ہیں، نئی نسل بربادی اور اپنی ہی تباہی میں گرتی جارہی ہے۔ یوٹیوب، فیس بک کے بے دریغ استعمال سے اس قدر گند گھروں کے اندر پھیلا دیا گیا، ہماری بچیاں اور ہمارے کم عمر بچے، اس گند میں دھکیل دیئے گئے، کہ نہ شرم رہی ،نہ حیا، نہ پردہ، نہ احترام، ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، جس گند کے بارے میں ہم سنا کرتے تھے، تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی تھیں، آج وہی گند موبائل کے ذریعے انہی استعماری اور یہودی قوتوں نے نسلوں کے اندر اتار کر جدیدیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی کسی حد تک تکمیل کرلی ہے۔

ہمارا معاشرہ بدتہذیبی اور پھیلائے گئے گند کا کبھی عادی نہیں رہا،قوموں کو تباہ کرنے کے لیے جو کام جنگوں کے ذریعے حاصل کیے جاتے تھے اب وہ کام (یو ٹیوب کے ذریعے) لیا گیا۔ ایک بٹن کے دبانے سے اس قدر بے ہودہ فلمیں، بے ہودہ گفتگو، بے ہودہ مضامین کے ذریعے مسلمان قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، اگر ان کا جلد تدارک نہ کیا گیا اورتباہی پھیلانے والے اس سیلاب کو نہ روکا گیا تو یہ، فحاشی دہشت گردی، قوم کو اس بندگلی کی طرف لے جائے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہو جائے گی، یہ وہ تباہی ہے، جس سے ہماری نوجوان نسل پھر خود کو سنبھال نہ سکے گی۔

٭…٭…٭

تبصرے بند ہیں.