سال 2020 میں آزادی کی تحریکیں

407

رضا مغل

عظیم مارکسی استاد لینن کا قول ہے کہ ایک انقلابی نظریے کے بغیر کوئی تحریک نہیں چل سکتی جن تحریکوں کی قیادت نے وقت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنی تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں وہ تحریکیں کامیاب ہوئیں، جبکہ غلط اور فرسودہ نظریات کے ساتھ چلنے والی تحریکیں حتمی تجزیے میں صرف ہوا کا جھونکا ثابت ہو کر سماج پر حکمران طبقے اور ریاست کے جبر میں مزید اضافے کا موجب بنیں کشمیر سے لیکرفلسطین تک اور خالصتان سے لیکر بھارت میں چلنے والی درجنوں آزادی کی تحریکوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان تحریکوں میں خالصتاً جبر سے آزادی حاصل کرنے کا انقلابی جذبہ عیاں ہے ، 10 دسمبرکو دنیا بھر میں کشمیریوں نے انسانی حقوق کے عالمی دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا، جس کا مقصد دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کروانا تھا،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے مقبوضہ وادی میں مکمل شٹر ڈاؤن کیا گیا جبکہ کشمیر میں جاری آذادی کی تحریک کے نتیجے میں بھارت نے 1989 سے لے کر 2020 تک مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کوتہہ تیغ کیا گیا بھارتی فورسز کی جانب سے قتل کے مذکورہ واقعات کے نتیجے میں 32 ہزار 9 سو 10 خواتین بیوہ اور ایک لاکھ سے زائدبچے یتیم ہوئے جبکہ اسی عرصے میں بھارتی فورسز نے 12 ہزار ایک سو 75 خواتین کی بے حرمتی اور ایک لاکھ 94 ہزار 4 سو 51 املاک کو تباہ کیا،یکم جنوری 2020 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے لاک ڈاؤن کو 150 روز مکمل ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد زندگی تاحال قید ہے اور دنیا کی لاکھ مذمتوں کے بعد بھی کشمیریوں کو حق ارادیت نہیں دیا جا رہا،رواں سال یورپی ممالک کے سفرا نے ‘حکومتی سربراہی’ میں مقبوضہ کشمیر کے دو روزہ دورے سے متعلق بھارت کی دعوت مسترد کردی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کی،سربراہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کے بجائے لوگوں سے ملاقات کی مکمل آزادی دی جائے، مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کچھ سالوں سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز کے ایسے کارتوس استعمال کیے جا رہے ہیں تحقیق کے مطابق ان افراد میں سے 43 فیصد دوبارہ اپنی آنکھوں کی بینائی حاصل نہیں کر پائے تھے،یاد رہے کہ نومبر 1949 میں بھارت کا آئین تیار کیا گیا تھا جبکہ 26 جنوری 1950 کو یہ نافذ العمل ہوا تھا، اس سے قبل بھارت میں انگریز کا بنایا ہوا 1935 کا قانون نافذ تھا، اس دن کو دنیا بھر میں کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں،پچھلے 72 برس سے کشمیریوں کی فوجی طاقت کے ذریعے آواز کچل رہا ہے،حقیقت یہ ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ذات پات، نسل و برادری، مذہب اور رسم و رواج کے نام پر انسانی حقوق کی روزانہ تذلیل کرتے ہوئے حقوق انسانی کے چارٹرز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،مذہب، عقیدہ اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کا قتل عام کرنا، کاروبار اور جائیداد کو نذر آتش کرنا، معمول کی بات ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ سارے کام حکومت کی ناک تلے ہورہی رہے ہیں ، اور لاچار لوگوں کا ناحق خون بہایا جاتا ہے۔ جب لوگ اپنے پیاروں کے تڑپتے لاشے اور کاروبار اور جائیداد کو نذرآتش ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ہتھیار اٹھاکر اپنے حقوق کے لیے تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں جنہیں اندھی گونگی بہری دنیا تشدد سے تشبیہ دیتی ہے،عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام علاقوں میں فقط کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور صرف کشمیر سے ہی آزادی اور علیحدگی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا بھارت آتش فشاں بنا ہوا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے، کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب خالصتان ، تامل ناڈو، آسام، ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پورہ، میزورام سمیت شمال مشرقی بھارت کی کئی ریاستوں میں آزادی کی مضبوط تحریکیں چل رہی ہیں۔ حال ہی میں دلت کمیونٹی بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اس نے بھی احتجاج اور مظاہروں کا رستہ اپنا لیا ہے ، بھارت طاقت کے زور پرتحریکوں کو دبانیر کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے لیکن حق کیلئے یہ تحریکیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہیں، حالیہ دنوں میں جہاں کشمیرکی تحریک میں تیزی آئی، وہیں پورے بھارت میں آزادی کی دیگر تحریکوں میں بھی تیزی دیکھنے کو آئی ہے۔کشمیر کے علاوہ بھارت کے160سے زائد اضلاع پر ماؤنواز اور نکسلوں کاقبضہ ہے، آندھراپردیش، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا اور بوج مرہ وغیرہ کے92 ہزار مربع کلومیٹر پر ان باغیوں کی حکومت ہے، ان کی اپنی عدالتیں اور اپنا پولیس نظام ہے، انڈیاکی انتظامی اور فوجی مشینری ان کے سامنے مکمل طور پر پسپا ہو چکی ہے۔

کشمیرکے بعد دوسری لمبے عرصے تک چلنے والی تحریک خالصتان کی ہے جو بھار ت میں بسنے والے سکھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خاتمے کے لیے شروع کی۔ اور بالآخر یہ خالصتان کے مطالبے پر منتج ہوئی،سکھوں کی بیشمار تنظیمیں ہیں جواس تحریک میں شعلہ جوالا کا کام کر رہی ہیں، ان میں اکالی دل، ببرخالصہ وغیرہ قابل ذکر ہیں، سکھ بھی اب یونیورسٹیوں اوراسی طرح دیگر کئی ممالک میں اپنی تحریک کوزندہ رکھے ہوئے ہیں، چنددن قبل برطانیہ میں ہونے والے مظاہرے میں خالصتان تحریک کے لیے احتجاج کرنے والوں نے اس طرح کے نعرے لگائے،آسام میں مسلم یونائٹیڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام اور تری پورہ و منی پورہ وغیرہ میں بھی لوگ مسلسل آزادی کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کشمیر کی حالیہ تحریک میں آنے والی شدت کا اثر دوسری تحریکوں پر بھی پڑا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ دہرانے لگے ہیں۔ بھارت گیس کے اس غبارے کی مانند بنتا جا رہا ہے جو پریشر سے کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے،پاکستان پر عسکریت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کے الزامات لگانے والے بھارت کی اپنی حالت یہ ہے کہ سرکاری سطح پر فرقہ واریت و لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے اورریاست کے جارحانہ طرزِ عمل کی وجہ سے اس کی سرزمین پر لاتعداد علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم عمل ہیں اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ چند روز قبل برطانیہ میں چلنے والے پاکستان مخالف نیٹ ورک کو بند کر دیا تھا ،بھارت میں خود نچلی زات کے ہندوئوں کے ساتھ جو برتائو کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جن کے ساتھ آج بھی امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور اعلیٰ ذات کے ہندو انہیں مناسب مقام او ر حقوق دینے کو تیار نہیں ۔ بھارت کے انہی متعصبانہ رویوں کے سبب ملک بھر میں علیحدگی پسند تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود کے لئے نہایت مہلک ثابت ہو رہی ہیں،خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے بھارتی فوج کے مظالم کسے یاد نہیں جب سکھوں کی آبادیوں پرٹینک چڑھا دیئے گئے خالصتان تحریک کے رہنمائوں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انہیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا قتل عام کیا گیااور آخر کار سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کومسمار کر دیا گیا گو بھارت نے خالصتان تحریک کو دبا دیا مگر آزاد خالصتان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے جس سے ہندو ذہن خائف ہے کہ یہ تحریک کسی بھی وقت تختِ دہلی کو ہلا سکتی ہے، ہندو کی یہی وہ تنگ نظری پر مبنی روش ہے جس کی بنا پر دیکھتے ہی دیکھتے پورے بھارت میں 70کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں،ریاست آسام میں یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ برچھا کمانڈوز، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا،مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد ، گورکھا ٹائیگر فورس اور پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ قابل ذکرہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لشکر عمر ، البرق، الجہاد فورس ، تحریک جہاداسلامی ، حزب المجاہدین وغیرہ بھارتی قبضے کے خلاف سرگرم عمل ہیں جبکہ پنجاب میں ببر خالصہ انٹر نیشنل ،خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈوز، بھنڈرانوالہ ٹائیگرز، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی اور ریاست منی پورمیں پیپلز لبریشن آرمی ، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی ، کوکی ڈیفنس فورس اور ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل اور تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فوس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل والنٹیئر فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز،بنگالی رجمنٹ اور میز و رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ سمیت کئی تنظیمیں بھارت کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ آسام میں آزادی تحریک کی بنیاد یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے ڈالی اور مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار کیا جبکہ بعد میں مزید علیحدگی پسند جماعتیں بھی سامنے آئیں۔یہاں مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تحریک م یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام بھی کام کررہی ہے ۔ علاوہ ازیں بوڈو قبائل نے بھی اپنے علاقے بوڈو کی آزادی کے لئے بوڈو سکیورٹی فورس کے نام سے ایک ونگ بنا رکھا ہے۔ ناگا اور کوکی قبائل کی اکثریت پر مشتمل شمالی بھارت کی ایک چھوٹی سی ریاست مانی پور کے باشندوں کی پیپلزلبریشن آرمی آ ف مانی پور کے نام سے علیحدگی پسند تنظیم سرگرم عمل ہے ۔ ریاست تری پورہ میں نیشنل لبریشن فرنٹ آف تری پور ہ کے نام سے ایک تحریک چل رہی ہے جو ایک مضبوط عسکریت پسند گروہ سمجھا جاتاہے،میگھالیہ ریاست میں علاقائی خود مختاری کے حصول کے لئے سرگرم عمل نیشنل لبریشن کونسل کام کر رہی ہے اور اسی طرح ایسٹ انڈیالبریشن فرنٹ ریاست آرنچل پردیش میں بھارتی تسلط کے خلاف نبرد آزما ہے ۔ ریاست تامل ناڈومیں تامل زبان بولنے والوں پر جب زبردستی ہندی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہاں کے باشندے بھی بغاوت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،تحریکوں کو دبانے کے لئے بھارت نے 1958ء میں افسپا آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے نام سے ایک کالا قانون نافذ کیا جس کا مقصد فوج کو خصوصی اور لامحدود اختیارات دے کر علیحدگی پسندرجحانات کو دبانا تھا،اس کے تحت ایک عام سپاہی کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو غدارقرار دے کر اسے قتل کر سکتا ہے ۔اس قانون کا بھیانک انداز میں استعمال کیا گیا اور کشمیر، منی پور ہ ، آسام ودیگر ریاستوں میں نہ صرف علیحدگی پسندوں بلکہ عام شہریوں کے خون سے بھی ہولی کھیلی گئی ،بے دریغ قتل عام ہوا، املاک جلائی گئیں ،خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، غرض بھارتی فوج نے اس کالے قانون کی آڑ میں ہر جائز و ناجائز ذریعہ اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرڈالے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علیحدگی پسند تحریکوں میں اضافہ ہوا، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ نہ صرف بھارتی آئین سے متصادم ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے تحت بھارتی فورسزکو مکمل طور پر فری ہینڈدے دیا گیا ہے، اور کوئی ان سے باز پرس نہیں کر سکتا ،ایک طرف پاکستان، ترکی ایران، ملیشیا، چین اور روس کے مراسم قائم ہو رہے ہیں وہیں بھارت، امریکہ اسرائیل، سعودی عرب، جاپان اور آسٹریلیا ایک نیا بلاک بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔اس پس منظر میں جب کشمیر کے مسئلے کی عالمی حمایت کے حصول پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بات کو ذہن نشین کرنا لازمی ہے کہ پاکستان کے موقف کی حمایت محض چند مسلم ممالک تک محدود ہے حالانکہ نئے بلاک میں چین سمیت دوسرے ملکوں کی حمایت کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ چین، روس یا دوسرے ممالک پاکستانی موقف کی حمایت نہیں کرتے؟ فلسطین میں اسرائیلی تشدد کو کبھی یہودی دہشت گردی نہیں کہا جاتا یا عیسائی مسجد پر حملہ کرے تو وہ سرپھرا کہلاتا ہے لیکن مسلمان حملہ کرے تو وہ فوراً اسلامی دہشت گرد بن جاتا ہے فلسطین اور کشمیر میں حق نہ دینے پرلوگوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا، برطانیہ آج بھی کشمیر کو ہندوستان سے الگ نہیں دیکھنا چاہتا جو اس کی تھنک ٹینکس کے تجزیاتی مطالعوں میں واضح لکھا ہے۔ ظاہرہے کہ برطانیہ کی پالیسی امریکی پالیسی کی نقل ہوتی ہے وہ چاہیے فلسطین ہو، کشمیر ہو، افغانستان ہو یا عراق ہو،امریکی اور یورپی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کے مطابق جو چیز عالمی برادری کو سب سے زیادہ پریشان کررہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کشمیر کو آزادی دی جاتی ہے تو اس کے انتہا پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے کا خطرہ ہے،عالمی طاقتیں سمجھتی ہیں کہ ہندوستان کے کنٹرول سے آزاد ہونے کی صورت میں ہندوستان کی سرحدوں پر ایک اور اسلامی ریاست وجود میں آ سکتی ہے یا اگر الحاق پاکستان کی حمایت کی گئی تو اس سے اسلامی مملکت مضبوط ہو جائے گی جو آس پاس کے غیر مسلم ملکوں کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے،مغرب کے اکثر دانشور یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کی صورت میں طالبان اس خطے میں پھیل کر اپنا اثر رسوخ قائم کر سکتے ہیں جو پورے خطے کی نظریاتی سوچ کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بیشتر تھنک ٹینکس کشمیر کے لیے کسی نہ کسی حل کے لیے ہندوستانی آئین کے دائرہ کار میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں،چین بھی جموں و کشمیر کو آزاد مملکت کے روپ میں دیکھنے کا حامی نہیں ہے لیکن ریاست کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے کا بالکل حامی نہیں ہے، جس کی بڑی وجہ لداخ کی ساتھ ملنے والی اس کی سرحد ہے اور دوسری وجہ آزاد کشمیر میں سی پیک کا اس کا منصوبہ چین سمجھتا ہے کہ لداخ کے یونین ٹیریٹری بننے سے بھارت ایک تو سرحدی کشیدگی میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گا دوسرا وہ تبت میں نئی شورش کی وجہ بن سکتا ہے اور پھر شمالی پاکستان کے علاقوں سے گزرنے والی سی پیک راہداری بھارت کی فوجی ترجیحات میں سر فہرست رہے گی، لداخ سے ملنے والی حالیہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے تقریباً ایک ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا ہے اور ان میں وہ علاقے بتائے جاتے ہیں جو سی پیک راہداری کے تحفظ کیلیے انتہائی اہم ہیں،بھارت نے پہلے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کیا اور خیال ہے کہ جموں کو بھی الگ صوبہ بنا کر کشمیر کو محض وادی تک محدود رکھا جائے گا تاکہ دہشت گردی کی آڑ میں ایک تو تحریک آزادی کو ختم کیا جا سکے اور دوسرا وادی کے مسلم کردار پر شب خون مارنے میں آسانی پیدا کی جا سکے،عالمی سفارت کاری اور نظریاتی سوچ کے اس پس منظر میں کشمیر کی آزادی کے لیے حمایت کیسے حاصل ہو، اس پر کشمیریوں، پاکستان اور حامی ملکوں کو شاید ایک نئی اور مربوط حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی۔

70 اور 80 کی دہائی میں یہ تحریکیں بہت زور پکڑ گئیں اور پھر خالصتان تحریک کی سربراہی نئی نسل کے نوجوان جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی مقبولیت کے باعث ان کے ہاتھوں میں آنا شروع ہو گئیں، جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے مذہبی رہنما تھے اور سکھ مذہب کے احیاء اور فروغ کے لیے کوشاں تھے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جنگجو تنظیم سازی کے ذریعے بزورِ طاقت خالصتان کے علیحدہ ملک بنانے کی جدوجہد شروع کر دی جو آپریشن بلیو اسٹار میں ان کی اپنے سینکڑوں مسلح ساتھیوں کی ہلاکت کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی آپریشن بلیو سٹار نے سکھوں میں اتنا غم وغصہ پیدا کیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ گارڈز نے قتل کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہزاروں سکھوں کو ہنگاموں کے دوران قتل کیا گیا جس کا الزام سکھ رہنما کانگریس کی حکومت اور سرکاری افسران پر لگاتے ہیں۔ ان سارے واقعات نے ہندوستانی ریاست اور سکھوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی نفرت پیدا کر دی، ان واقعات کے بعد سے سکھ مسلح جدوجہد اور ٹارگٹڈ کارروائیوں کا آغاز ہوا یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا، اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے،حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اُسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔

خالصتان تحریک کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری آزادی کی تحریکوں کے پیچھے ایک تاریخی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں بسنے والی قومیں جغرافیائی، لسانی، تاریخی، اور قومی لحاظ سے اتنی متنوع اور مختلف ہیں کہ ان ساری قوموں کو مرکزی حکومت کے زیر سایہ چلانے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ تاریخی طور پر ہندوستان کے وسیع و عریض علاقے کو کبھی بھی بہت لمبے عرصے تک ایک مرکزی حکومت کے طور پر چلانا ممکن نہیں رہا، ہزاروں سال کی تاریخ میں مغلوں یا برٹش راج کے علاوہ کوئی بھی مرکزی حکومت پورے کے پورے ہندوستان کو چند عشروں یا پھر ایک آدھ صدی سے زیادہ اکٹھا چلانے میں کامیاب نہیں ہوئی،اسی وجہ سے زیادہ قومیں آزادی کی تحریکیں چلانے پر مجبور ہیں اور ہندوستان کے پڑوسی اس سے الگ نالاں رہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہر چیز کا الزام پاکستان پر ڈالا جائے، ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہ آزادی کی تحریکیں ان کے اپنے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے تو جنم نہیں لے رہیں؟ وادیوں کے لئے فلسطینی تحریکِ آزادی کا سوال ہمیشہ کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے،فلسطینی عوام کے روایتی انقلابی عزم اور استقلال سے بھرپور ہیں۔

فلسطینی عوام 73 سالوں سے ہولناک اسرائیلی سامراجی بربریت کا شکار ہیں، اسرائیلی ریاست نے لاکھوں فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ ایک وطن کے مطالبے کو خوفناک ترین جارحانہ اقدامات کے ذریعے کچلا گیا ہے، اس عمل میں لاکھوں زندگیاں ضائع ہوئی ہیں یا تباہ وبرباد ہو چکی ہیں،فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی جرائم میں مغرب برابر کا شریک ہے، اس مسئلے کے حوالے سے نام نہاد جمہوری حکومتیں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں ان کے تنخواہ دار ملازم یا تو بالکل خاموش ہیں یا پھر حقائق کو سفاکی سے مسخ کر کے اسرائیلی جنگی مشینری اور فلسطینیوں کو دو ہم پلہ فریقین کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ فلسطینی مزدوروں اور غریبوں کے دشمن ہیں اس کے باوجود فلسطینیوں کا جذبہ حریت جواں ہے، لبرلز اور این جی اوز کی تمام تر بھیک اور التجائیں ان حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتی، امریکی اور یورپی سامراج اسرائیلی ریاست کی حمایت کرتے ہیں،خطے میں موجود عرب نوازی بھی مختلف نہیں، وہ فلسطین پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ فلسطینی سوال کو اپنے تنگ نظر مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں، انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انقلاب کے نام سے ہی خوف سے لرزنے والے سعودی شاہی خاندان نے خطے میں ہمیشہ ردِ انقلاب کا ساتھ دیا ، وہ کئی سالوں سے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ میں فلسطینی تحریک کو عمومی طور پر اور اس تحریک کے بائیں بازو کو خصوصی طور پر برباد کر رہے ہیں،اور فلسطین کے دیگر نام نہاد دوستوں کی کیا صورتحال ہے؟ مصری ریاست سرگرمی سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی میں مصروفِ عمل ہے اور اردن کی ریاست مغربی کنارے پر اسرائیل کے سرحدی محافظ کا کردار ادا کررہی ہے،ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دنیابھر کے حکمران طبقات کو فلسطینی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے متحد ہوتے دیکھا جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو زیر کر لیا گیا،فلسطینی اتھارٹی کبھی بھی ایک حقیقی آزاد ریاست نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ہو گی۔ اس کا بنیادی مقصد اسرائیلی ریاست کے ایما پر فلسطینی عوام کو قابو میں رکھنا ہے اور اربوں ڈالروں سے نام نہاد قائدین کی تجوریاں بھرنا ہے، غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی سے لاکھوں فلسطینی قتل ہو رہے ہیں میں ان کا بھیانک کردار ان کے حقیقی مفادات کی عکاسی کے لئے کافی ہے،فلسطینی عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرنا محض اسرائیلی حکمتِ عملی ہی نہیں یہ ایک عمومی رضامندی ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ سمیت دیگر عالمی سرمایہ دارقوتیں شامل ہیں اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یواے ای اور اسرائیل معاہدہ فلسطینی شہداء کے لہو سے سنگین غداری ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی عرب دنیا دیگر مسلم ممالک پربھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے، فلسطینی عوام اپنی اور خطے میں موجود اپنے استحصال زدہ بہنوں اور بھائیوں کی قوتوں پر ہی انحصار کر سکتے ہیں،لبنان، عراق، ایران، مصر اور اردن میں طاقتور تحریکوں کا ابھار دیکھا ہے، یہ تحریکیں اسی حکمران طبقے کے خلاف ہیں جو فلسطینیوں کے استحصال میں برابر کا شریک ہے۔ ان ممالک کی عوام اور استحصال زدہ فلسطینیوں کے مفادات مشترک ہیں،اس لئے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ فلسطینی محنت کشوں کا پورے خطے کے مزدوروں، غرباء اور نوجوانوں کے ساتھ وسیع تر اتحاد بنایا جائے، مشرقِ وسطیٰ کے غلیظ حکمرانوں کے خلاف ایک عمومی جدوجہد کے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں، حکمرانوں کے خلاف عوامی غم و غصے اور مایوسی میں موجودہ بحران مزید اضافہ کرے گا،ہمیں فلسطینی عوام کی جمہوری حقوق کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے، تاہم آپ کا اعلامیہ غالباً ایسی جدوجہد کی دلالت کرتا ہے جو کہ سرمایہ داری کی حدود میں مقید ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غلطی ہے اور اسی خیال کی وجہ سے کہ فلسطینی آزادی سرمایہ داری سے ناطہ توڑے بغیر حاصل کی جا سکتی ہے، آج تحریک ایک بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے مسلم ممالک کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ؟ فلسطینی آزادی کی جدوجہد سامراج اور بحیثیتِ مجموعی سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد سے علیحدہ نہیں کی جا سکتی، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ماہرین نے کس شاندار انداز میں وہ سب کچھ بیان کر دیا جو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیا گیا ہے فلسطینی جدوجہد کو ہر صورت اس کا لازمی حصہ ہونا چاہیے ورنہ ایک کے بعد دوسری آزادی کی تحریک جنم لے گی اور لیتی رہے گی کیونکہ جہاں استحصال ہو وہاں مسلح جدوجہد شروع ہو جاتی ہے، جسے دنیا دہشت گردی سے جوڑتے ہیں لیکن حق دار کو حق نہیں دیتے، آنے والے قت میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں نئے اور زیادہ طاقتور انقلابات پھوٹیں گے۔ آنے والے کسی ایک لمحے میں یہ پوری صورتحال اسرائیل پر بھی اثر انداز ہو گی، اسرائیل میں موجودہ بحران آنے والے دور میں شدید سماجی انتشار کی نوید ہے۔ جس گہرے بحران میں وہ داخل ہو چکے ہیں اس کے شدید تازیانوں سے اسرائیلی سماج پر صیہونیوں کی گرفت کمزور ہو گی، خطے میں ایک عمومی انقلابی لہر کے ساتھ فلسطینی عوام کے لئے اسرائیل کی غریب عوام اور محنت کشوں کے ساتھ جڑنے کی راہیں ہموار ہوں گی،فلسطینی تحریک ایک ہتھوڑے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ظالم سماج کو توڑ سکتی ہے ، یہ اسرائیلی سامراج کے خاتمے کے لئے پیشگی شرط کے طور پرسامنے آئیگی،فلسطین کی مقدس جدوجہد کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہو گی ، فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کیلئے ایک انقلابی تحریک درکار ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں، ان کے سیاسی اور دانشورانہ رجحانات اوردوستوں کو چاہیے کہ وہ اس ٹوٹ پھوٹ اور تباہی و بربادی کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے ایک متحدہ قومی محاذ بنائیں، غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے صیہونی استبدادسے مجموعی اور مکمل آزادی حاصل کریں یہی واحد حل ہے اسرائیل سے آزادی کیلئے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں.