بریکنگ نیوز نے قوم کو مایوس کیا ،بڑا المیہ !75 سال گزر گئےہم قوم کو تعلیم نہ دے سکے :نصر اللہ ملک

104

نئی بات ۔۔۔میگزین رپورٹ

پاکستان ٹی ڈراموں پر نظردوڑائی جائے تو ہمیں بہت ہی قابل اداکارنظرآتے ہیں جنھوں نے اپنی اداکاری سے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی بلکہ یہ ایسے فنکار ہیں جنھیں پروڈیوسر جب اپنے ڈراموںمیں کوئی کرداردیتے ہیں تواس ڈرامے کی ریٹنگ منٹوں میں ہی اوپرچلی جاتی ہے۔پاکستان ٹی وی کے ایک ایسے ہی مشہوراداکارنعمان اعجاز بھی ہیں۔ ان کا شمار پی ٹی وی کے سینئر اداکاروں میں ہوتا ہے نعمان اعجاز کواصل شہرت ڈراموں میں اداکاری سے ملی۔ نعمان اعجاز نے کیتھیڈل ہائی اسکول لاہور سے تعلیم کا آغاز کیا جبکہ فارمن کرسچن کالج اور قائد اعظم لا کالج سے تعلیم مکمل کی۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز پی ٹی وی سے کیا اور اپنے ابتدائی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنا لوہا منوا لیا۔مختلف نیوزچینلزکے تفریحی پروگرامزکی میزبانی سے بھی انہیں خوب شہرت ملی، آجکل وہ نیو ٹی وی کے پروگرام ’’جی سرکار‘‘ کی میزبانی کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں نیوٹی وی کے پروگرام ’’لائیو ود نصراللہ ملک میں شرکت کی۔آیئے زیل کے کالموں میں انٹرویوکی تفصیلات پڑھتے ہیں۔
نیونیوز پر جی سرکار آپ کا پروگرام پوری دنیا دیکھتی ہے، پری زاد آپ کا ڈرامہ آج کل بڑا دیکھا گیا، آپ کی اداکاری سے ڈرامہ ایسے بلندیوں کی طرف بڑھا، پھر آپ پریوں کے دیس چلے گئے۔
ایک تو پری زاد بڑا ہٹ ڈرامہ تھا ایک عام آدمی کی کہانی ہے۔ اس سفر میں میرا کردار بہروز کریم کا شامل کردیا جاتا ہے جو ڈونوں کا ڈون ہے، وسائل سے مالامال آدمی ہے۔لوگوں نے بہت لکھا کہ وسائل سے مالامال آدمی پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے لیکن یہ ہے کہ وہ کردار ہاشم ندیم نے بہت خوبصورت لکھا ہے۔ ڈائریکٹر شہزاد ندیم کے ساتھ بیٹھ کر کچھ چیزیں اوپر نیچے بھی کرنا پڑیں۔الحمدللہ اس کی کہانی بہترین ہے اور اس میں میرا کردار تھوڑا ہٹ کر ہے۔ پھر میں نے اسے ذرا مختلف طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی۔ وہ لوگوں کو بہت بھا گیا کہ ڈون لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بات بھی کرتا ہے اور اچھے جملے بھی بولتا ہے، وہ حقیقت پسند بھی ہے اور حقیقت پر بات بھی کرتا ہے جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔تاہم میرا کردار بہت جلد ختم ہوگیا۔ چار اقساط بہت کم تھیں، لوگ توقع نہیں کررہے تھے کہ نعمان اعجاز جیسا اتنا بڑا فنکار آئے گا اور پھر چار اقساط کے بعد اُس کا کردار ختم ہو جائے گا۔میں نے ڈائریکٹر کو تجویز دی تھی کہ گولی مارنے سے بہتر ہے اسے غائب کر دیجئے۔ کمرے میں کپڑے بدلنے گیا، جتنا بڑا وہ آدمی ہے اُس کے بہت زیادہ چور دروازے ہونگے۔ وہ کہیں سے نکل گیا اور پولیس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ایسا ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ ڈون نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ڈرامے میں لکھا تھا کہ میرا اختتام اسی طرح ہو گا لہٰذا ہم اُس کو تبدیل نہیں کرپائے۔ پری زاد کا ایک ناول بھی ہے جو ہاشم ندیم صاحب نے لکھا ہے تو اُس کے مطابق پھر ہمیں چلنا پڑا۔
پری زاد ہماری سوسائٹی کی کہانی ہے لگتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں؟
ایسے واقعات ہوتے ہیں، لوگوں کو صرف اس بات پر اعتراض تھا کہ ایک ڈون اپنی ساری جائیداد کسی نامعلوم شخص کے نام کر کے کیسے جاسکتا ہے۔ ایسا ہمارے ہاں غالباً نہیں ہوتا لیکن باقی ساری چیزیں اُس میں کافی یقین کرنے کے قابل ہیں جو ناول میں بھی ہیں اور حقیقت میں بھی ہیں۔
آپ نے اپنی پوری زندگی میں بہت زیادہ ڈرامے کیے، پری زاد آپ کو کیسے مختلف لگا؟
عام آدمی پر کبھی ڈرامہ بنا نہیں ہے، ایک تو اس میں یہ نئی چیز تھی کہ ایک عام آدمی پر آپ ڈرامہ بنا رہے ہیں جو شکل وصورت میں بھی اتنا حسین نہیں ہے، نہ اُس کا رنگ اتنا صاف ہے، معاشرے میں کھرے اور سچے لوگوں کی شاید کمی ہو گئی ہے، شاید اس وجہ سے یہ عام کردار لوگوں کو زیادہ بھایا۔
پری زاد نے اپنے کردار سے انصاف کیا؟
میرے خیال میں احمد نے بہت اچھا کردار نبھایا ہے، صرف لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ ایک سانولی رنگت کے انسان سے یہ کردار کروانا تھا تو پھر ایک گورے رنگ کے آدمی کو کالا کیوں کیا؟ لوگ سمجھتے نہیں ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی سانولا آدمی نہ مل رہا ہو جو اسے اتنے بہتر طریقے سے نبھاتا جتنے بہتر طریقے سے احمد نے اس کردار کو نبھایا۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایسی سوچ کے قائل ہیں، کیا یہ درست ہے؟
ملتا جلتا تو ہے لیکن اتنا زیادہ تو نہیں کہوں گا لیکن کچھ چیزیں ہیں جیسے اعتبار کرنے والا، محسوس کرنے والا، احساس کرنے والا، دوستی اور دشمنی بھی کچھ حد تک ایسے ہی نبھاتا ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر آپ ایک اچھے انسان نہیں ہیں تو آپ ایک اچھے فنکار نہیں ہوسکتے۔ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ہم جو ہر وقت روشنیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو ہمارے اندر کتنا اندھیرا ہے اور ہم کتنی چیزوں سے محروم ہیں جس کے ہم مستحق ہیں۔ اداکاری چونکہ کام ہی مشاہدات کا ہے تو جب تک آپ عام لوگوں کے ساتھ جاکر نہیں بیٹھیں گے آپ کو ان کی سوچ کا علم نہیں ہوتا، ان کے ساتھ بیٹھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کو ان کی سوچ، ارادوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے اور پھر ان کی سوچ یا ارادوں کو اپنے کام میں کیسے استعمال کرنا ہے۔اکثر جب نئے لڑکے آتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ اداکاری مشاہدات کا نام ہے۔ ہم نے مشاہدات ہی سے سیکھا ہے اگر آپ لوگ سارا دن موبائل ہاتھ میں لے کر بیٹھے رہیں گے، فالوورز ہی گنتے رہیں گے تو آپ  نے مشاہدہ کیا کرنا ہے؟ آپ نے زندگی میں کیا سیکھنا ہے؟
آپ نے بہت سے سیاستدانوں کے انٹرویو کیے، کس سیاستدان سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟
ایسا سیاستدان جو کم ازکم سچ بول رہا ہے، اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سیاستدان سچ بول رہا ہے یا یہ صرف تالیوں کی طلب میں بات کررہا ہے یا واقعی قوم کا اس کے دل میں احساس ہے یا نہیں ہے، ایسے سیاستدان آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔لوگوں نے اس کو ایک کاروبار بنا لیا ہے بلکہ میں اپنے پروگرام میں اکثر کہتا ہوں جب کوئی ایسا ڈاکٹر یا سیاستدان آتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہم نے حلف لیا ہوتا ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کرینگے، قوم کی خدمت کرینگے لیکن جب ہمیں عہدہ ملتا ہے تو ہم وہ سارے حلف بھول جاتے ہیں، پھر ہمیں یہ ہوتا کہ ہم کسی طرح ذاتی مفادات حاصل کریں، پھر ہمیں کوئی غریب عوام نظر نہیں آتی۔ کہیں انسانیت کی خدمت نظر نہیں آتی۔
نوجوان لیڈرشپ جیسے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف، حمزہ شہباز تو آپ کس کو منتخب کریں گے؟
میں ایک دفعہ ایک بزرگ دیہاتی کو ملا تو اس نے بہت اچھی بات کی۔ اس نے کہا کہ اس ملک کا سکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے اور شوٹنگ پاکستان میں ہوتی ہے تو میں نے جتنے بھی سیاستدانوں کا انٹرویو کیا وہ سب مجھے فنکار ہی لگتے ہیں اور وہ بہترین اداکار ۔ معلوم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک مرتبہ موقع دیا عوام کی خدمت کرنے کا لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں کیا اور پھر عوام کو اُسی طرح اپنی طرف کھینچنے کے لیے حیلے بہانے اور ترغیب دلانا اور عوام کا حال دیکھیں وہ پھر تیار ہو جاتی ہے انہی کو منتخب کرنے کے لیے، ایدھی صاحب سیاست میں نہیں تھے لیکن انہوں نے کیا خوب مقام حاصل کیا، وہ دنیا سے ایک نام لے کر گئے اور کس طرح ہم نے ان کو رُخصت کیا تو آپ لوگوں میں رہ کر بھی کام کرسکتے ہیں، ضروری نہیں کہ کوئی عہدہ ہی آپ کے پاس ہو۔
ہمارے ہاں اختیار کی جنگ، اختیارات کا ملنا، نیلی بتی کیا سب کی یہی خواہش ہے؟
ہم اقتدار کے بھوکے ہیں، طاقت کی بھوک سب میں گھس گئی ہے۔ دیکھیں عمران خان نے جتنے بھی بیانات دیے تھے لوگ کہتے تھے کہ یہ کچھ کر دکھائے گا۔ آپ نے جتنے وعدے کیے تھے یا جو باتیں کی تھیں ان میں سے آپ ایک بھی پوری نہیں کرسکے۔
لوگ کہتے ہیں کہ جب آپ پی ایم ہائوس میں بیٹھتے ہیں یا ایوان صدر میں بیٹھتے ہیں تو اردگرد ایک ایسا گھیرا ہوتا ہے جو آپ کو دنیا سے بالکل بے خبر کردیتا ہے؟
میں نے جس وقت نیا نیا پروفیشن اختیار کیا تو مجھے کہا گیا کہ جو آپ کی تعریف کررہا ہو تو یہ نہ سمجھیں وہ آپ کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہ رہا ہے بلکہ وہ آپ کا دشمن ہے، ہمیں عادت ہی ان لوگوں کی پڑی ہوتی ہے ۔ واہ واہ سر! کیا بات کی ہے آپ نے۔ یہ بڑا اچھا کہا آپ نے، ہمیں خوشامد ہی لے ڈوبی ہے۔ پتہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ آپ کی خوشامد کررہے ہیں۔ خوشامد کے باعث آپ کا دماغ بھی کام کرنا بند کر دیتا ہے، پھر اس میں غلط فیصلے ہی ہوتے ہیں۔
بطور فنکار نعمان اعجاز آپ اس سوسائٹی کو کیسا سمجھتے ہیں؟
ہم لوگ تبدیل نہیں ہوسکے، ہم اپنے آپ کو بدل نہیں سکے۔ میں ناامید ہوں مجھے امید نہیں ہے کہ یہ قوم بدل سکتی ہے۔ ہم 23 کروڑ جھوٹے اکٹھے رہتے ہیں مجھے شامل کرکے ہم سب جھوٹے ہیں۔ ہم 23کروڑ اتنے بگڑ چکے ہیں کہ ہم ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک آدمی کا انتظار کررہے ہیں جو آکر ہمارا قبلہ درست کردے۔ ’’یواے ای‘‘ پچاس سالوں میں کہاں سے کہاں چلا گیا ہے۔ پیسوں سے وژن نہیں آتا۔ وژن سے پیسے آتے ہیں۔ میرے خیال میں ہم اس سے بھی زیادہ بُرے حالات میں چلے جائیں گے۔
آپ نئی نسل سے امید نہیں رکھتے؟
وہ اپنی دھن میں مگن ہیں۔ ہماری سوچ مثبت نہیں رہی۔ آپ سوسائٹی میں دیکھیں کہ قتل وغارت اور تشدد ہورہا ہے سفاکیت بڑھ گئی ہے۔ مجھے اکثر لگتا ہے کہ ہماری اگلی جنریشن بھی ناامید ہے۔ ان حالات کے ہم سب خود ذمہ دار ہیں۔ ہم خود اس نہج پر اسے لے کر آتے ہیں۔ ہم بُری طرح سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ مذہبی طور پر، سیاسی طور پر، ذات برادری کے طور پر بٹے ہوئے ہیں۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ 75سال سے آپ نے قوم کو تعلیم یافتہ ہی نہیں بنایا۔ میں سیاسی بیانات کا قائل نہیں ہوں کہ مجھے امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے۔ ہاں آپ اگلی مدت بھی خان صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیں تو شاید کوئی انقلاب آجائے شاید یہ چیزیں بدل جائیں کیونکہ ان پانچ سالوں میں تو کچھ نہیں ہونا۔
نئی نسل بہت سوالات کرتی ہے، کئی مکالمے کرتی ہے، یہ مکالمے کسی تبدیلی کی طرف نہیں لے جائیں گے؟
یہ تو پھر نئی نسل کو ہی کھڑا ہونا پڑے گااور پرانوں کو نیچے پھینکنا پڑے گا۔ اب نئی نسل اتنے باشعور طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑتی ہے وہ اکٹھے ہوتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اکیلے بیٹھتے رہیں تو اداسی کے گیت گاتے ہیں یا خوشی کے؟
اکیلا بیٹھتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں کہ آنے والی نسل کا کیا ہو گا حتیٰ کہ میں اپنے بچوں کا سوچتا ہوں۔ میں نے باہر کام شروع کیا کیونکہ بچے وہاں پڑھنے گئے تھے وہ باہر نہیں رہتے، وہ واپس آنا چاہتے ہیں وہ واپس آگئے ہیں، جاتے ہیں تو پھر آجاتے ہیں ہم سب کو پاکستان سے محبت ہے۔
کیا میڈیا بھی مایوسی پھیلانے کا ایک سبب ہے؟
بہت زیادہ، یہ ایک بڑا عنصر ہے ہم چوبیس گھنٹے دن رات بریکنگ نیوز سنتے ہیں۔ جب آپ ایک ہی غلط ایونٹ بار بار دکھائیں گے تو یہ آپ کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔
آپ اچھے شوہر ہیں یا اچھے والد ہیں، دونوں میں کیا ہیں؟
میں خود نہیں بتا سکتا اس کے لیے آپ کو میرے بچوں اور بیگم سے رجوع کرنا پڑے گا کہ میں اچھا والد ہوں یا اچھا شوہر، ہم میں سے 99 فیصد لوگ اپنے وجود کی وجہ ہی نہیں سمجھ پائے۔ اگر آپ سے کسی کو نقصان ہورہا ہے یا کوئی دُکھ پہنچ رہا ہے تو پھر آپ کے ہونے کا فائدہ کیا ہے۔ آپ نہ ہوں تو بہتر ہے۔
کامیابی کی راہ میں کبھی رکاوٹ آئی ہو؟
میرا توکل بہت مضبوط ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جب میں نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا تو میرا رب کبھی میرا بُرا نہیں چاہے گا۔
کبھی کوئی ایسا کردار ادا کر کے پچھتاوا ہوا ہو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟
نہیں کوئی ایسا رول میں نے نہیں کیا ہے ، جو کیا من سے کیا ہے ورنہ نہیں کیا۔
نئی نسل گلے شکوے کرتی ہے کہ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا؟
اس کی ایک وجہ ہے کہ انہوں نے بڑوں کا ادب کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں آج بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ اگر میں آج ایک روپیہ ہوں تو اس میں دس دس  پیسے فلاں فلاں لوگوں کے ہیں۔ قوی صاحب، خیام سرحدی صاحب، مسعود اختر صاحب، فاروق ضمیر صاحب، شفیع محمد صاحب، سہیل اصغر صاحب، عابد علی صاحب، فردوس جمال صاحب۔ ان سب سے دس دس پیسے لے کر ایک روپیہ بنایا ہے۔ ان سب سے سیکھا ہے۔ ان کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا ہے۔ نئی نسل گائیڈلائنز کو تنقید سمجھتی ہے۔ آج کی نئی نسل اپنے ہی نشے میں ہے۔ سوشل میڈیا جب سے پوری دنیا ان کے ہاتھ میں آئی ہے وہ سمجھتی ہے ہمیں سب پتہ ہے۔
فلم کی طرف جانا پسند نہیں تھا، گئے نہیں کیا وجہ تھی؟
میرا آغاز فلم سے ہوا۔ مجھے لگا فلم میری جگہ نہیں ہے۔ میں بڑی سکرین کا آدمی نہیں ہوں۔ میں چھوٹے ڈبے کا آدمی ہوں لہٰذا اپنی اوقات میں رہوں تو بہتر ہے۔
لوگوں کو خوش رکھنے والے اندر سے بڑے غمگین ہوتے ہیں؟
غمگین تو نہیں کیونکہ ہر وقت ان کا ذہن الجھا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی کو کہیں نہ کہیں کوئی اچھی خبر پہنچا دیں، کسی کے لیے کچھ اچھا کردیں تو وہ اکیلے ہو جاتے ہیں جیسے میں اکیلے میں گفتگو کروں تو مجھے مزہ آتا ہے اور بہت زیادہ میرا وقت اکیلے گزرتا ہے۔ میں اکثر اکیلا بیٹھا ہوتا ہوں۔ اس وقت میں لوگوں کا اچھا سوچ رہا ہوتا ہوں، اللہ کی ذات سے بات ہوتی ہے۔ وہاں سے بہت ساری باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
دنیا کی تاریخ دیکھی جائے تو شاعر، فلاسفر، آرٹسٹ پوری سوسائٹی کو بدل دیتے ہیں، ہمارے ہاں یہ ناکامی رہی ہے؟
کیونکہ ہمارے ہاں جہالت بہت زیادہ ہے۔ ڈرامہ تک آپ کے تین اہم شہروں کے لیے بنتا ہے۔ ہم قوم کے لیے کیا کیا بنا رہے ہیں۔ قوم کے لیے کیا سڑکوں پر کم ڈرامے ہورہے ہیں۔ اب ہر آدمی جس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے وہ ڈائریکٹر ہے۔ موبائل فون ایک ہتھیار ہے جو زندگیاں برباد کردیتا ہے، نسلیں برباد کردیتا ہے۔ میں جب گھر سے نکلتا ہوں تو یہی سمجھتا ہوں کہ رب تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں جہاں میری غلطی ہوتی ہے اور جہاں نہیں بھی ہوتی میں دونوں صورتوں میں معافی مانگ لیتا ہوں۔
ہم بہت جھوٹ بولنا اور سننا پسند کرتے ہیں؟
ہم خوشامد پسند ہوگئے ہیں، ہم منفی چیزوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم منفی کمنٹ زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں۔
آپ کو حکومت ملے تو کیا کرینگے؟
میں اس قوم کو تعلیم دوں گا کہ یہ کسی طرح پڑھ لکھ جائیں۔ ان کے اندر شعور آجائے۔ میری ترجیح تعلیم ہے۔ تعلیم آپ کو بتاتی ہے کہ قانون کا احترام کیسے کرنا ہے۔ ٹریفک کا احترام کیسے کرنا ہے۔ بڑے چھوٹے کا احترام کیسے کرنا ہے۔ اس قوم کے پاس تو شعور ہی نہیں آیا۔ یہ ابھی بھی نوزائیدہ بچہ ہے جو اپنی مرضی سے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ زندگی میں دو چیزیں کبھی نہ بھولیں ایک اپنی اوقات اور ایک اپنی قبر۔ درمیان والا راستہ آپ کا خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔   ٭٭

تبصرے بند ہیں.