حقیقت حال یہ ہے کہ بظاہرلبرل اورعورتوں کی حاکمیت وبرابری کے داعی امریکہ میں عورت کتنی ہی باصلاحیت ہوابھی تک حکمران نہیں بن سکتی پوری دنیا میں یورپی وامریکی انسانیت وبرابری کے اصولوں کے درس دینے والوں کو پاکستان کی مظلوم عورتیں ہی نظر آتی ہیں جن کی غربت وبے بسی بیچ کر این جی اوذراامیر عورتیں ان ممالک سے ایوارڈ وکیش رقوم لیتی ہیں۔
میں ہمیشہ لکھتی ہوں کہ سب سے زیادہ عرب کی عورت طاقتور ہے ایک شادی کے کلچرل انسٹیٹیوشن کو ہدف تنقید بنانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ عرب عورت کی کبھی ناک چوٹی کاٹ کر بے دست وپاء سڑک پر کھڑے ہونے کی داستان نہیں سامنے آئی وہ طاقتور صاحب اثاثہ صاحب حیثیت اور حق ملکیت والی عورت ہے …
برصغیر کے اثرات اور مقامی کلچر نے یہاں کے مرد کوجورعایتیں دی ہیں اس کی وجہ سے بہت سارے حقوق جو اسلام دیتا ہے مقامی کلچر کے زیراثر مقامی مرد چھین لیتا ہے یہاں کے مرد کویہ سہولت ہے کہ وہ بوقت ضرورت عرب مرد بن جاتا ہے اور جب حقوق دینے پڑے تو ہندوکلچر کے زیر اثر آجاتا ہے جس کیلئے عورت بس دل لبھانے اور بننے سنورنے کی چیز ہے پھر بھی تھوڑی بہت چالاکیاں کرکے یہاں کی عورتیں اولاد اورگھر داری کے بل پر اپنی حیثیت بناہی لیتی ہیں اور غم روزگار سے آزاد ہوجاتی ہیں مرد ہرطرف سے شکنجے میں آکر محدود ہوجاتا ہے لہٰذا عورتوں کی مجموعی حیثیت کے حساب سے برصغیر کی عورتیں دوسرے نمبرپر آتی ہیں اور جہاں تک مسلمان اور پاکستانی خواتین کا تعلق ہے تو انہوں نے بہت حدتک اپنا حق حاصل کرلیا ہے تمام بڑے اور اہم عہدوں پر تعیناتی کے علاوہ محترمہ بے نظیر پورے عالم اسلام میں مملکت خدادادکی پہلی فرمانروابن کر ابھریں اور اب توبہت اہم عہدوں پر خواتین ہی فائز ہیںحتیٰ کہ پورا پنجاب اس وقت خواتین کے زیرسرپرستی چل رہا ہے ۔
صوبے کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز اور ان کی پوری ٹیم کی عورتیں کے پی کے بڑھک وزیر اعلیٰ کو دھول چٹاچکی ہیں پاکستان کی عورتیں دلیرہیں کبھی جب خاتون پر تشدد کا واقعہ سامنے آتا ہے بھرپور مزاحمت ہوتی ہے جبکہ مرد اکثر ماریں کھاتے پھرتے ہیں خبرتک نہیں بنتی ۔
اب بات کرتے ہیں مغرب کی عورت کی جوسب سے زیادہ مظلوم ہے جس نے آزادی کے نام پر اپنے تمام حقوق کھو دیئے ہیں، کم عمر مائیں اپنے بچوں کو پالنے کی خودہی ذمہ دار ہیں وہاں ڈی این اے سے اولاد کی شناخت ہوتی ہے جبکہ یہاں کا مرد عورت کا اعتبار کرتا ہے اور اولاد کو نہ صرف سینے سے لگاکے رکھتا ہے بلکہ ڈی این اے کروا کر عورت کی توہین بھی نہیں کرتا …اہل یورپ نے یوں توبہت ترقی کی ہے مگربیماری ہو یا لاچاری برتن بھانڈے خود ہی دھونے پڑتے ہیں ڈپریشن پورے انگلینڈ کو گھیرے ہوئے ہے نہ رنگارنگ تقریبات نہ گوسپ ناآہیں نا آنسو ناشاعری نارومینٹک گیت نامحبت میں دھوکے نابے وفائیوں پر ناراضگیاں کوئی رنگ نہیں وہاں کی زندگی میں اسی لیے ڈپریشن بہت ہے وہاں بغیر گلے شکوے کے مائینڈ چینج ہوجائے تو ٹاٹا بائے بائے ہو جاتا ہے۔ بڑھاپا مکمل تنہائی میں گزرتا ہے یہاں بھی گرچہ ایسا ہونا شروع ہو گیا ہے مگریہاں کے بزرگوں میں اول تو بزرگی آتی نہیں عمر بڑھتی ہے جب بوڑھے بھی ہو جائیں تو مسجد سے لے کر محلے رشتے داریوں کی کلفیں والفتیں ہی دامن گیر رہتی ہیںپھرجنت کے خواب الگ دینا میں بھی مزے اور مستقبل میں بھی 70حوریں…
خاندانی نظام جیسا بھی ہے اس میں %80ان پڑھ خواتین بھی ڈولی چڑھ کر ماں کے رتبے کو پہنچ جاتی ہیں اور پھر اس حیثیت میں ان کواحترام مل جاتا ہے ۔ عمر بھر کا روٹی کپڑا علاج دواداروبغیر دفتروں یونیورسٹیوں کی دھول مٹی چاٹے بغیر بس تھوڑی بہت چالاکیاں ہی کوالیفکیشن ہے اس انسٹیٹیوٹ کیلئے …
مغربی لڑکیاں جب تک جوان رہتی ہیں معاشرے کومطلوب ہوتی ہیں یہاں کی طرح نہیں کہ تمام شیداں، میداں، سونا کپڑا پہن کر ساس کے روپ میں مکمل ملکہ بن جاتی ہیں۔ ان کا بڑھاپا تنہائی کا عذاب لے کر آتا ہے بقول زہرہ نگاہ
بڑے سکون سے کاٹا عذاب تنہائی …
یہاں ہم اور وصال کے بکھیڑے بہت ہیں وہاں بریک اپ اور زیادہ غم ہوتو گریف تھیراپی لوگ حقیقت پسند تو ہوجاتے ہیں مگر خوابوں کو کھو دیتے ہیں۔
ایک لحاظ سے تو پاکستانی عورت سب پر سبقت لے جاتی ہے مرد دوسری شادی باقاعدہ گناہ کہلاتی ہے ایسا شکنجہ ڈال کر رکھتی ہے مرد ہل نہیں سکتا پورا خاندانی نظام حرکت میں آجاتا ہے اور جیسے جیسے اولاد جوان ہو ماں طاقتور اور مرد کونے میں پڑا فالتو پرزہ بن جاتا ہے۔
جواب امریکی انتخابات ہوئے ہیں واضع تھا کہ ہلیری جیسی ڈیشنگ پرسنلٹی اور صدر کی اہلیہ ہونے کے باوجود اسے نہیںصدر بنایا جائے گا کیملاہیرس کے بارے میں بھی پکا گمان یہی تھا کہ امریکی ذہنیت عورت کو صدر نہیں بنائے گی یہاں بھی ایک بارپھر پاکستانی عورتیں بازی لے گئیں گھریلو کنٹرول کے بعد حکومتی کنٹرول بھی انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ تمام ٹاپرز خواتین ہوتی ہیں پاکستان ہی وہ پہلی اسلامی مملکت ہے جہاں کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بنیں برصغیر پر آئیں تو اندرا گاندھی ، بندرانائیکے ، خالدہ ضیائ، حسینہ واجد دبنگ عورتیں رہیں۔
جوترقی یورپ کی عورت نے کرکے اپنا نقصان کیا ہے وہ ہمیں کسی صورت نہیں درکار یہاں ہم نوکریاں بھی کررہی ہیں حکومتی عہدے بھی ہیں گھروں کی بھی مالک ہیں اولاد کی بھی نگران معاشرے میں بھی معززبدتمیزی کرنے والے لڑکوں کو آج بھی جب لڑکیاں جوتی سے تواضع کرتی ہیں تو ساتھ پورا محلہ مل جاتا ہے سمجھنے کی بات ہے کہ عورت اسلام اور پاکستان یا پھر برصغیر میں جس مقام پر ہے وہ اس کی اپنی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔
تبصرے بند ہیں.