کالم کا آغاز ابصار عالم کی اس خبر سے شروع کروں گا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کا پلان یہ ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے دوران بچوں اور خواتین کو سامنے بطور ڈھال رکھ کر مارچ کیا جائے گا تاکہ آنسو گیس کی شیلنگ یا پتھراؤ سے بچے زخمی ہوں، پھر ان کی تصاویر اور وڈیوز اپلوڈ کی جائیں۔ ظاہر ہے خواتین اور بچوں کی لاشیں خوب بکیں گی، ان پر تو امریکہ بھی تڑپ اٹھے گا کہ ظلم ہو گیا لہٰذا ان کا بندہ (عمران خان) رہا کیا جائے۔
ویسے خان صاحب کا کمال کا آئیڈیا ہے۔ اس سے پہلے بھی خان صاحب عوام کو بتاتے رہے کہ عنقریب سرپرائز ملے گا اور پھر لانگ مارچ شروع ہو جائے گا۔ کسے خبر تھی کہ جس سرپرائز کی بات وہ کر رہے دراصل وہ ارشد شریف مرحوم کی لاش تھی۔ ادھر لاش ملی ادھر خان صاحب ٹرک پر پوسٹر لگا کر اگلے ہی دن جی ٹی روڈ پر قافلہ لے کر نکل پڑے۔ خان صاحب ارشد شریف کی لاش کو آپ کامیابی سے بیچ چکے لیکن ضروری نہیں ہر بار اللہ تعالی آپ کی شیطانی چالیں کامیاب ہونے دے۔ انشاء اللہ آپ تا دم مرگ بند ہی رہیں گے۔
ابصار عالم کی اس خبر کے پیچھے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی سیاست کا قد روز اوّل سے یہی وتیرہ رہا اور اس وتیرے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 24نومبر کو بانی نے پھر بڑے دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مرو یا مارو‘‘ کی پالیسی اپنائو… دھرنے، گھیرائو، جلائو، کی فائنل کال بھی آ گئی ہے۔ اس سے قبل بھی بانی نے اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دیا تھا۔ وہ 2014ء کا زمانہ تھا۔ یہ 2024ء کا وقت ہے۔ سن 2014ء میں بھی نوازشریف تو اب شہباز شریف حکومت ہے۔ اس دوران 9مئی کا ایک سنگین واقعہ بھی ہوا جو آج بھی بانی کے گلے پڑا ہوا ہے۔ احتجاجی تحاریک بانی کا پسندیدہ مشغلہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اب 24نومبر کو کیا ہوگا یہ تو 24نومبر کو ہی دیکھا جائیگا۔
تحریک انصاف یا تحریک انتشار کس نام سے پکاروں، یہی نام ہے تمہارا کے بارے میں مجھ سے کوئی ذاتی سوال کرے کہ یہ کس باغ کی مولی ہے تو میرا جواب ہوگا کہ یہ اس بے باغ کی مولی ہے جو بے وقت اور بے موسمی آ گئی ہے اور یہ ایسی مولی جو نہ سدابہار اور نہ مزیدار، نہ یہ نگلی، نہ اُگلی جا سکتی ہے۔ یہ نوجوانوں کے ساتھ جو گھر اور باہر ’’ویلے‘‘ ہیں جن کے پاس نہ ڈگریاں، نہ کاروبار، نہ ملازمتیں، نہ کوئی مستقبل۔ ان کو کھلے عام مرنے اور مروانے کے نعروں پر زندہ کئے ہوئے ہے اور اگر اس کو خواتین کے باغ کی مولی کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔ اس سوشل میڈیا پیداواری مولی کی بڑی خوبی یہ کہ اس کے لیڈر کو پسند کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔ تیز طرار گندی زبان، گالی کی زبان، غلیظ زبان یعنی آپ اس باغ کی خواتین سے جس زبان کی توقع کریں گے وہ مل جائے گی۔ نجانے جب تحریک انصاف کا نام آتا ہے تو پھر ذہن میں کئی سوالات، کئی وسوسے، کئی کہانیاں، کئی داستانیں جو گزشتہ 25سال سے اس قوم کو سنائی جاتی ہیں اس کے بانی کی۔ ابتدائی سیاست سے لے کر اڈیالہ جیل تک کی کتاب پڑھ لیں جس کے پہلے صفحے سے لے کر اڈیالہ جیل تک کے کھلے موضوعات کو منشور کا نام دیا جائے تو یہ بہت درست ہوگا۔۔ جیسا کہ ہر انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں اپنا منشور لے کر عوامی عدالتوں میں جاتی ہیں اور جس کے تحت وہ عوام کو سبز باغ دکھاتی ہیں اور پھر اگر وہ بڑوں کی آشیر باد سے حکومت میں آ جاتی ہیں تو آئی ایم ایف والے اس کے منشور کو بند کتاب کی طرح بند کر دیتے ہیں۔ اب اس سیاسی منشور میں ہوتا کیا ہے یعنی عوام ہمیں ووٹ دے تو ہم راتوں رات آپ کی قسمت بدل دیں گے۔ مہنگائی ختم کر دیں گے، نئے گھر بنوائیں گے، لاکھوں ملازمتیں دیں گے، بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا اور راتوں رات یہ ملک پیرس، نیویارک، لندن کی طرح روشنیوں میں بدل جائے گا، ترقی کرے گا، عوام خوشحال ہو جائیں گے۔ اس منشور میں ایسے ایسے خواب بھی دکھائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ترقی یافتہ ممالک نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ بہرحال بات پاکستانی سیاسی جماعتوں کے منشور کی ہو رہی ہے۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سوشل میڈیا کی ستائی نسل کے علم میں یہ بات ہے کہ منشور نام کی مولی جو صرف انتخابات کے موقع پر کھلوائی جاتی ہے، ہے کیا؟ یہ کس کس باغ میں لگائی جاتی ہے اور کیا اس کے ثمرات گھر گھر پہنچتے ہیں؟ میٹھے، میٹھے یا… کڑوے کڑوے۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کے منشور کی بات ہے تو بانی کی تحریک انصاف نے بھی ایک منشور آج سے 25سال پہلے دیا تھا۔ وہ صرف بند کتاب کی طرح آج بھی بند ہے اور اس کا جو منشور ہم آج پڑھ رہے ہیں کم از کم اس منشور کا تمام تر کریڈٹ اس کے بانی کو جاتا ہے اس نے خود سیکرٹ کیا، خود اعلان کیا اور خود ہی نہ صرف اس پر عمل کرتا ہے بلکہ ملک کے بے روزگار نوجوانوں اور ذہن سازی یافتہ خواتین کے ذریعے اس عمل کو گھر سے سڑکوں تک لانے میں کسی نہ کسی طرح اپنی حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔ آیئے تحریک انصاف کے اس منشور کا مطالعہ کرتے چلیں جو کبھی بھی تحریری شکل میں نہیں آیا۔ گو یہ منشور بچے بچے کی زبان پر اس وقت آتا ہے جب آئے روز اس میں ترامیم کرتے ہوئے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ گاہے بگاہے بوقت ضرورت اس میں کسی بھی وقت، کسی بھی لمحے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ آج کل اس بانی کی تحریک کا ہیڈ کوارٹر بنی گالہ، اڈیالہ جیل منتقل ہو چکا ہے۔ اب اس ہیڈ کوارٹر سے آئے روز منشور میں ترامیم کے اوپر ترامیم ہوتی رہتی ہیں جبکہ ہوتا تو یہ ہے کہ ایک ترجمان کے ذریعے ترجمانی کی جاتی ہے مگر یہاں تو بہنوں سے لے کر بیوی تک سب ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ اس جماعت میں دعوے کے باوجود کہ ہماری جماعت موروثی سیاست کا حصہ نہیں مگر بیان بہنیں اور بیوی دے رہی ہیں شاید بانی کو اپنی جماعت کی مردانہ قیادت پر بھروسہ نہیں اور وہ یہ منشور اپنی موروثی سیاست پر رکھے ہوئے ہے۔ اڈیالہ جیل کے اندر بیٹھے این آر او سہولیات کے ساتھ بانی کے باہر آنے والے اور اندر جانے کے احکامات، فرمودات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ پھر بھی نجانے کیا بات ہے کہ جب منشور کے بارے میں لکھنا چاہوں تو پھر بانی کی باتیں میرے قلم کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ چلیں اس سے پہلے بے حساب باتوں میں سے مزید باتیں میرے قلم کے اندر اتریں ہم یہاں تحریک انصاف کے گزشتہ 4سالہ منشور کا جائزہ لیتے ہیں۔ (جاری ہے)
منشور کی شق نمبر 1:میں نہ مانوں… یعنی اس ملک میں اگر تو بہت اچھا ہو رہا ہے۔ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے، مہنگائی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ تمام ادارے اپنے اپنے کاموں پر لگے ہوئے ہیں مگر کچھ بھی نہیں تسلیم کرنا، ان کے خلاف بیانات دینا، ان کے سربراہوں کو جیل کے اندر کر دینے کے اعلانات کرنا، آسانیوں کی جگہ مشکلات کو جنم دینا۔ ہم نے نہیں ماننا اور ہر حکومتی اقدام کیخلاف آواز اٹھانا۔
شق نمبر 2:دھرنا سیاست یعنی اس ملک کو چلنے نہیں دینا۔ جب دل کرے، موسم کوئی بھی ہو ماحول کتنا ہی اچھا ہو، ملک میں دھرنوں کے پیغامات کا پھیلانا، بار بار دھرنے کے اعلانات کرنا اور ملک کے کونے کونے میں دھرنا سیاست کو اجاگر کرنا نہ سکون میں نہ آرام کرنا، دھرنوں میں ناچ گانوں کو آرگنائز کرنا، تمام بڑے اداروں پر ٹارگٹ حملے کرنا ان کے سربراہوں کو برے القابات دینا۔
شق نمبر 3:گالی کلچر کو پرموٹ کرنا، کسی کی عزت نہ کرنا، چاہے وہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو، سوشل میڈیا پر شرافت کے پرخچے اڑانا، عزت داروں کے خلاف گالی کلچر کی بار بار پرموشن کرنا، حکمرانوں کے بیرونی دوروں کے دوران گاڑیوں کے پیچھے پیدل یا سفر میں ان پر آوازیں کسنا، قتل کی دھمکیاں دینا، ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر چلنا، اوئے اوئے توں توں کہہ کر پکارنا اور مدینہ منورہ میں نعرے لگوانا۔
شق نمبر 4:شہر در شہر کو بلاک کرنا، بڑے چوکوں پر مجمع لگانا، آئے روز ماحول کو خراب کرنا، راستے بلاک کرکے ان راستوں پر آنے والی تمام سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو تباہ کرنا، جگہ جگہ آگ لگانا، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگانا، اسموگ پیدا کرنا۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر گھنٹوں ٹریفک بلاک کرنا۔
شق نمبر 5:مخالفین پر ناجائز مقدمے، بغیر سزائوں کے جیل میں ڈالنا، نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو ذاتی استعمال میں لاتے ہوئے عزت دار لوگوں اور سیاست دانوں کو طویل مدت کے لیے جیل میں رکھنا، ان کا حقہ پانی بند کرنا۔ ان کو بلیک میل کرنا۔
شق نمبر 6:ملک کی بہتری کے لئے نہ کام کرنا، نہ کسی کو کرنے دینا، اقتدار کی خاطر ہر جائز، ناجائز حربوں کا استعمال کرنا، جب دل کرے آئین کی پروا نہ کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑنا، اراکین کو لوٹے بنوانا، ہر روز جلسے کرنا، ہر روز ریلیاں نکالنا، ہر روز کال کی تاریخیں دینا۔
شق نمبر 7:یو ٹرن لینا۔ یعنی ہر بات پر عملدرآمد کا اعلان کرکے اس کو یوٹرن میں لے جانا، بار بار فیصلے کرکے فیصلے واپس لے لینا، بیان دے کر بیان سے مکر جانا، غلط بیان پر قائم رہنا، قانون بنوانے کے بعد قانون پر عملدرآمد نہ کرانا، ہر ایک کو رولانے کی دھمکیاں دینا، ہر ایک کو بلاوجہ پریشان کرنا، یوٹرن کے بغیر بات نہ کرنا، نہ اپنے کئے فیصلوں پر قائم دائم رہنا۔
شق نمبر 8:اپنے ذاتی مفادات کے لئے مطلب کی سیاست یعنی ایک سیاست دان کے خلاف نفرتیں پھیلانا، اس کا جینا دوبھر کرنا، ڈیزل ڈیزل کے خطاب دینے والے سیاست دانوں کے گھروں پر جا کر مذاکرات کرنا۔ کسی کئے پر شرمندہ نہ ہونا، ڈھٹائی سے ڈٹ جانا۔
شق نمبر 9:ملکی فلاح و بہبود کے لئے مذاکرات کے لیے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا اور ملانے کا کہہ کر مکر جانا، مذاکرات کے نام پر بات نہ کرنا، مخالفین کی اہمیت کو نہ ماننا، سب کو کچرا قرار دینا، اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے علاوہ مذاکرات کا کسی کو عندیہ تک نہ دینا، اپنی حاکمیت اور دوسروں کو کچھ نہ سمجھنا، مذاکرات کے بہانے حالات کو برے طریقے سے خراب کرنا، کسی نظام کو نہیں چلنے دینا۔
شق نمبر 10:جو رکن اسمبلی جماعت کے بانی یا پارٹی سے اختلافات رکھے گا تو پھر سزا کے طور پر اپنے ہی جلسوں میں اس کیخلاف نعرے لگوانا، اپنے ذہن ساز کارکنوں کے ذریعے ان کے گھروں پر حملے کرانا، جگہ جگہ ان کی مار کٹائی کرنا، ان کی اولادوں کو پریشان کرنا، جہاں چلیں ان کا گھیرائو کرنا۔
شق نمبر 11:سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ہر طرح کی بکواس کرانا، بیرون ممالک میں پاک فوج کو بدنام کرنا، غلیظ زبان کا استعمال کرنا، فوجی عہدوں کی بے حرمتی کرانا۔ ان کے خلاف نام لے کر نفرت پھیلانا، خاکی وردی کی بے حرمتی کرنا، ان پر حملے کرکے معافی نہ مانگنا۔ برے ترین القابات سے نوازنا، شر انگیزی پھیلانا، اپنے پالتو سوشل میڈیا کے کرداروں کے ذریعے سے حالات و واقعات کو غلط انداز میں پیش کرنا، بیرون ممالک بیٹھے اپنے ٹائوٹوں سے پاکستان مخالفت زہر اگلوانا، غیرملکی اخبارات کو غلط معلومات فراہم کرنا۔
شق نمبر 12:نیوٹرل ایمپائرنگ کے بیانئے پر سیاستدان اور اداروں کے سربراہوں کو جانور قرار دینا اور کبھی اسی جانور کو انسان کہہ دینا، اپنے کتے شیرو کو سیاست دانوں کے کرداروں ساتھ ملانا۔
شق نمبر 13:کسی بھی قسم کے عدالتی فیصلوں کو نہ ماننا اور جہاں اپنی مرضی کے فیصلے آئیں تو وہ ججز دنیا کے بہترین انصاف پسند اور قانون کے ہیرو اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تو اس کو تعصب کا نام دے دینا۔
شق نمبر 14:اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکمرانی ملے تو قوم آزاد، اقتدار نہ ملے تو قوم غلام۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے دروازے بند کرنا، کبھی ہاں تو کبھی ناں میں دوسروں کو ذلیل و خوار کرنا۔
اور آخری بات…
یوں تو بانی کی طرف سے آئے کبھی روزانہ تو کبھی دنوں کی بنیاد پر منشور میں کہیں ترمیم تو کہیں اضافہ، کہیں ذاتی مفادات اور انائیں، کہیں ضدیں تو کہیں پاگل پن کے بیانات۔ جس طرح چینلز پر ہر لمحہ کسی نہ کسی خبر کو بریکنگ کا نام دے دیا جاتا ہے اسی طرح کسی بھی وقت بانی کے منشور میں تبدیلی کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ نجانے وہ وہ کچھ کہتے کہتے کیا سے کیا کہہ جائیں جس طرح زلفی بخاری ملکوں ملک گھوم کر وہاں کے سیاست دانوں اور سینیٹروں سے پاکستان کے خلاف خطوط لکھوانے کے ساتھ اخبارات میں مضمون شائع کرا رہا ہے۔ ملک بدنام ہوتا ہے، کوئی پروا نہیں۔ اس کی نظر میں سب جائیں بھاڑ میں مجھے تو زلفی بخاری جیسے کارکن چاہئیں۔
میرے درد کی کہانی، میری حسرتوں سے پوچھ۔
تبصرے بند ہیں.