’’ہم تمہیں آداب سکھائیں گے۔تم ہمیں سرد موسم میں مار رہے ہو اور ہمارے گھر تباہ کر رہے ہو،ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے،ہم جیتیں گے یا پھر مر جائیں گے۔ہماری اگلی اور پھر اس سے اگلی نسل آزادی کی جدوجہدجاری رکھے گی۔عالمی طاقتیںاسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ہمارے ساتھ ہمارا اللہ ہے۔جو المالک، القدوس، السلام اور الرحمٰن ہے۔ہمارے گھروں کو بم برسا کر تباہ کر دیا گیا۔میں سارے کھلونے اپنے گھر چھوڑ آئی ہوں۔میں اپنے گھر واپس جاؤں گی اور گھر کے ملبے،ریت اور پتھروں پر ٹینٹ لگا کر فلسطینی جھنڈا لہراؤں گی‘‘۔غزہ کی ا س حوصلہ مند بچی نے ٹی وی چینل کو بہت اعتماد کے ساتھ انٹرویو دیتے ہوئے غزہ کے تمام بچوں کے احساسات کی نمائندگی کر کے یہ ثابت کر دیا کہ غزہ کے مسلمان بچے بہت بہادر ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔انشا اللہ غزہ میں ان کا مستقبل روشن ہے۔
ٖغزہ میں 7اکتوبر2023ء سے جاری اسرائیلی بر بریت اور جارحیت کے باعث اپنے گھر چھوڑنے والے اور پناہ کی تلاش میں سرگرداں بیس لاکھ فلسطینی مسلمانوں میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ فنڈبرائے اطفال( یونیسف) کا کہنا ہے کہ ان میں سے تقریباً17ہزار بچے والدین کے سائے سے محروم ہو چکے ہیں۔ خوراک‘ پانی یا پناہ کی سہولیات کی شدید قلت اور اپنے بچوں کی نگہداشت میں مشکلات کا سامنا کرنے والے خاندان شہید ہو جانے والے اپنے عزیزوں کے بچوں کی پرورش کرنے کے لئے انتہائی پریشان ہیں۔ان بچوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔انتہائی درجے کا خوف، بھوک کا خاتمہ اور نیند نہ آنا اس کی نمایاں علامات ہیں ۔بم دھماکوں کی آوازیں ان کے خوف میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں۔اس وقت دس لاکھ بچوں کاذہنی و نفسیاتی صحت کا علاج کروانے کی ضرورت ہے۔
قبلہ اوّل کی سر زمین فلسطین میں غزہ کے بچوں اور ان کی ماؤں کی چیخوں کی آوازیں پوری دنیا سن رہی ہے لیکن اسرائیل کی حکومت اورعالمی ادارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بد ترین بے حسی کا شکار ہیں۔فلسطین کی سر زمین سے اٹھنے والی درد ناک چیخوں،آگ اور سیاہ دھوئیں کے بادلوں نے عالمی مسائل حل کرنے کے لئے قائم ہونے والے اس نام نہادعالمی ادارے کی بے حسی کو عیاں کر دیا ہے۔غزہ کے بچے اس بربریت پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔
آج20نومبر ہے،ہر سال 20نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں مختلف عالمی اور قومی اداروں اور بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں بچوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ 20نومبر 1959ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کا ایک ڈیکلریشن منظور کیا تھا۔20 نومبر1989ء کو جنرل اسمبلی نے ہی بچوں کے حقوق کا ایک کنونشن (CRC) بھی منظور کیا۔اس ڈیکلریشن اور کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا کے تمام بچوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر کے انہیں معاشرے میں با عزت طریقے سے جینے کا حق دینا تھا۔یہ تاریخ میں سب سے زیادہ ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کا توثیق شدہ معاہدہ ہے۔ یوم اطفال منانے کا مقصدلوگوں میں بچوں کے لئے پیار و محبت کے جذبات کو فروغ دینا،ان کے بہتر اور روشن مستقبل کا تحفظ کرنا بھی ہے لیکن اس وقت غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے ان عالمی اداروں کی نام نہادانسانیت کو اچھی طرح عیاں کر دیا ہے۔
غزہ کی جنگ میں اب تک تقریباً چوالیس ہزارفلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جنہیں ان کے گھروں کے اندر یا پناہ گزیں کیمپوں میں بمباری کر کے شہید کیا گیا۔غزہ کے بچے تعلیم اور تمام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔وہ بے بسی اور اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔سرد موسم نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔ خوراک کی شدید قلت سے وہ جسمانی کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ان کی اموات کا خدشہ ہے۔اسرائیل نہتے فلسطینیوں اور معصوم بچوںکا خون بہا رہا ہے۔والدین بچوں کی نعشیں ہاتھوں میں لئے نوحہ کناں ہیں۔وہ انہیں اجتماعی قبروں میں ہزاروں من مٹی تلے دفنانے پر مجبور ہیں۔آج بچوں کا عالمی دن غزہ پر اسرائیلی دہشت گردی اور وحشیانہ بمباری کی گھن گرج میں منایا جا رہا ہے۔اس صورتحال میں فلسطینی بچوں کا قتل عام تحفظ اطفال کے اداروں اور سلامتی کونسل کے لئے بہت اہم سوالیہ نشان ہے۔
تبصرے بند ہیں.