اسرائیل اور ”نک دا کوکا“

64

آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ اپنے سے سو گنا چھوٹے ملک اسرائیل کی ہر بات ماننے کو تیار اور ہوشیار کیوں رہتا ہے!!!! آخر کیا وجہ ہے کہ عالمی سپر پاور امریکہ جن اقدامات اور پالیسیوں پر دنیا کے دوسرے ممالک کو ہدفِ تنقید بناتا ہے اگر وہی پالیسی اور اقدامات اسرائیل اختیار کرتا ہے تو امریکہ اُسے ہر قانونی اور اخلاقی کور دینے کو بے تاب نظر آتا ہے!!!!! آخر کیا وجہ ہے جس امریکہ نے روس کی کریمیا اور یوکرائن کی فو جی مداخلت کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔۔وہ۔۔اسرائیل کی غزہ میں فوجی مداخلت کو سیلف ڈیفنس(Self Defence) اور عالمی قوانین کے عین مطابق قرار دیتاہے!!!! آخر کیا وجہ ہے کہ جس امریکہ نے یمن میں سعودی حکومت کی حوثییوں کے خلاف جنگ میں یہ کہہ کرساتھ دینے سے انکار کر دیا کہ اِس جنگ سے لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔۔جبکہ دوسری طرف۔۔ساری دنیا کے اخلاقی سیاسی اور معاشرتی دباؤکے باوجود امریکہ اسرائیل کی طرف سے معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی پر اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے!!!!! آخر کیا وجہ ہے کہ تائیوان میں چین کی مداخلت پر امریکہ کھلے عام مذمت اور جنگ کرنے کو تیار بیٹھا ہوا ہے اور چین کو ایسا سوچنے پر بھی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔۔لیکن۔۔اسرائیل سرِ عام دندناتا ہوا فلسطین کے ویسٹ بنک پر ہر قسم کی فوجی اور معاشی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کرتا ہے تو امریکہ کو سانپ سونگھ جاتا ہے!!!! آخر کیا وجہ ہے کہ AIPAC(American Israel Public Affairs Committee) کا ممبر اور یہودی رائٹر اور مصنف Steve J. Rosen سرِ عام یہ کہتا ہے کہ اگر میں اپنا رومال پیش کروں تو چند منٹوں میں سو سے زائد امریکی ممبر آف پارلیمنٹ اُس پر دستخط کرنے کو تیار ہو نگے۔۔۔یعنی امریکی پارلیمنٹ کی اکثریت یہودیوں اور اسرائیلی لابی کے اشاروں پر ناچنا باعثِ صد تعظیم سمجھتے ہیں!!!!! آخر کیوں وہ امریکہ کہ جو ساری دنیا کے سامنے امن اور انسانی حقوق کا مسیحا اور علمبردار بنتا ہے۔۔وہ۔۔اسرائیل کے سامنے اپنے اِن دعوؤں کے حوالے سے بھیگی بلی کیوں بن جاتا اور جھاگ کی طرح بیٹھ کیوں جاتا ہے۔۔۔!!!!!!
اُس کی وجہ صرف اور صرف امریکہ کی معیشت،معاشرت،ثقافت،میڈیا اور سیاست میں مضبوط لابنگ اور ڈپلومیسی ہے۔اسرائیل امریکہ کی یونیورسٹیوں سے لے کر میڈیا اور کارٹون پروگرامز سے لے کر حکومتوں تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے امریکی عوام اور خواص کے حواس پر چھایا اور مسلط ہوچکا ہے۔اسرائیل نیشنل اور انٹر نیشنل ایشوز پر اپنی مرضی کے فیصلے اور پالیسیز بنوانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف امریکی اربابِ بست و کشاد بلکہ امریکی صدور کو بھی بلیک میل کر تا ہے۔۔۔جس کا اعتراف امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے اپنے ایک کھلے خط کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے کیا تھا۔۔۔!!!!!
اسرائیل امریکی شہریو ں کی اسرائیل کے حق میں ذہنی آ بیاری نوخیز عمر سے لے کر نوجوانی تک بہت خوبصورت انداز سے کرتا ہے۔ہر امریکی بچہ ٹی وی چینلز میں کارٹون پروگرامز،ڈرامہ سیریز اور فلمز سے لے کر سکول کالجز اور یونیورسٹیز میں یہودیوں کے بنائے ہوئے تعلیمی نصاب سے مستفید ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔Super Book نامی کارٹون سے لے کر Prince of Eygpt نامی ٹی وی سیریز تک ہر کارٹون پروگرام، ٹی وی ڈرامہ اور سیریز میں یہودیوں کو دنیا کی مظلوم ترین قوم اور یروشلم کو یہودیوں کا اصل قانونی اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ودیعت کیا ہوا آبائی مسکن اور گھر قرار دیا جاتا ہے۔اِسی طرح امریکہ کے ہر سکول کالج اور یونیورسٹی میں یہودی اداروں کے بنائے ہوئے تعلیمی نصاب کو پڑھایا جاتا ہے۔امریکہ میں تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب بنانے والے تمام مشہور اور معروف ادارے یہودیوں کی فنڈنگ سے چلنے والے امریکی سرکاری ادارے(ICS)nstitute of Curriculum Services Iکی ہدایت پر پرو اسرائیل تعلیمی نصاب بنانے پر مجبور اور پابند ہیں۔ICS کی سرپرستی میں تعلیمی نصاب بنانے والے اداروں میں Houghton Mifflin Harcourt،Prentice-Hall،McGraw-Hill،Teachers Curruculum Institute اورStudies Weekly کی طرح کے بیسیوں ادارے شامل ہیں۔امریکی نوجوان کو اِن تعلیمی نصاب کے ذریعے نظریاتی طور پر اسرائیل کا حامی بنا دیا جاتا ہے۔یہ وہ تعلیمی نصاب ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہر امریکی نوجوان کا ایمان بن جاتا ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا آبائی اور خدا کی طرف سے ودیعت کردہ وطن ہے اور اِس وطن کو حاصل کرنے کے لیے یہودیوں نے پچھلے چار ہزار سال میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔اِنہی تعلیمی نصاب بنانے والے اداروں کے سر صدقے امریکہ کے تعلیمی اداروں کے نصاب سے فلسطین اور ویسٹ بنک کا لفظ ہی مٹا دیا گیا ہے اور اُس کی جگہ ”یہودا“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیز میں بیس فیصد سے زائد پروفیسرز اور لیکچررز یہودی ہیں۔
امریکہ کے میڈیا میں سکائی نیوز،فوکس نیوز،سی این این،نیویارک ٹا ئمز،واشنگٹن پوسٹ سمیت ٹی وی چینلز،اخبارات اور جرائد تک ہر شعبہ نوے فیصد سے زائد یہودیوں کی ملکیت میں ہے۔امریکہ کا بینکنگ اور فنانشیل سیکٹر تمام کا تمام یہودیوں کے کنٹرول میں ہے۔۔۔!!!!!
اب سوال یہ ہے کہ۔۔۔جو اسرائیل معاشی،دفاعی،جغرافیائی اور آبادی کے حوالے سے اپنے سے سو فیصد بڑے عالمی سُپر پاور ملک کو اپنی اُنگلی پر نچا سکتا ہے۔۔تو کیا۔۔پاکستان کی سیاست، میڈیا،عدالت،اداروں اور عوام کو ”نک دا کوکا“ پر اپنی اُنگلی اور مرضی سے نچوا نہیں سکتا۔۔۔!!!!!!

تبصرے بند ہیں.