دنیا میں انسان کو دنیاوی دولت کی کس قدر ہوس ہوتی ہے کہ وہ سارے جہاں کی دولت اکٹھی کرے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ دولت اکٹھی کرنے والوں کا یوم آخرت اور دنیا ہی میں کیا برا انجام اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے اور میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ بعض اوقات اتفاقات کس طرح انسانی زندگی کے رخ موڑنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں حتیٰ کہ کبھی کبھی سرراہ چلتے چلتے کسی عام انسان کا کہا یا کسی ایک فقیر کا بولا فقرہ آپ کی زندگی بدل دیتا ہے۔ یہ دنیا ہے اس کے انوکھے مزاج اور ماحول بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور ہمیں جہاں ہونا چاہئے، ہم وہاں نہیں ہوتے۔ یہ سوچنے والی بات ہے شاید دولت کے نشے میں دنیاوی رشتوں اور پریشانیوں نے ہمیں بہت سے اپنوں سے دور کر رکھا ہے۔ آج میں جدھر دیکھتا ہوں تو ہر چھوٹے بڑے انسان نے ساری متاع حیات دولت جمع کرنے پر وقف کر رکھی ہے اور اس دولت کو کمانے کے لئے ہر جائز و جانائز راستے اپناتے ہوئے یعنی حلال کی کمائی سے وہ بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری بربادی کی اصل وجہ حلال کی کمائی اور دین سے دوری بھی ہو سکتی ہے اور وہ قومیں جن کی تباہی کے بارے ہم قرآن پاک میں پڑھتے ہیں۔ احادیث میں سنتے ہیں کہ وہ لوگ جب اپنے مذہب سے دور ہوئے اور انہوں نے آخرت کی بجائے صرف دنیا کو ہی آخری ٹھکانہ تصور کرکے غلط راستوں کا انتخاب کرتے ہوئے خدا کی خدائیت کو بھی فراموش کر بیٹھے تو پھر اس تباہی نے آنا تھا جس نے ہم سے پہلے کئی قوموں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ خدا تعالیٰ اس قوم کی کبھی بخشش نہیں کرتا جو قوم خدا کو بھول کر اس کی نازل کردہ آیتوں کا مذاق اڑائے… آج جب میں اپنے اردگرد کے ماحول میں رہنے والوں کی زندگی کے دولت مند لوگوں کے پہلوئوں کو دیکھتا ہوں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ اس دولت نے ہم سب کے درمیان کس قدر تفریق پیدا کر دی ہے جبکہ یہ وہ شے ہے جو کسی کی نہیں ہوتی۔ آج جدھر دیکھتا ہوں، سنتا ہوں، ہر طرف ایک دھن ہے، ایک مستی ہے، ایک نشہ ہے۔ اگر یہی انسان مذہب کے اتنا ہی قریب ہو جائے تو شاید اس کو علم ہو کہ جب قارون کے خزانے نہیں رہے تو یہ دولت کہاں رہ جانی ہے۔ قارون وہ کردار تھا جس نے دولت کو اپنا دین بنا لیا تھا پھر خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا کیا کہ وہ مثال آج بھی رہتی دنیا میں ہم سب کے لئے ایک نصیحت ہے، ایک سبق ہے جو کوئی اس سبق کو نہ تو لینا چاہتا ہے نہ قبول کرتا ہے کہ وہ یہ خیال کر بیٹھا ہے کہ دولت ہے تو سب کچھ ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے آج میں اپنے کالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کو پڑھانے جا رہا ہوں کہ قرآن پاک میں قارون کے جس خزانے کا ذکر کیوں کیا گیا اور اس کا برا انجام کیسے ہوا؟
بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا متمول شخص تھا قرآن عزیز نے اس کا نام قارون بتایا ہے اس کے خزانے زر و جواہر سے پر تھے اور قوی ہیکل مزدوروں کی جماعت بمشکل اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھاسکتی تھی اس تمول اور سرمایہ داری نے اس کو بے حد مغرور بنادیا تھا اور وہ دولت کے نشہ میں اس قدر چور تھا کہ اپنے عزیزوں، قرابت داروں اور قوم کے افراد کو حقیر اور ذلیل سمجھتا اور ان سے حقارت کے ساتھ پیش آتا تھا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور اس کا نسب اس طرح نقل فرماتے ہیں : قارون بن یصہر بن قاہت اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب یہ ہے : موسیٰ بن عمران بن قاہت۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے بھی یہی منقول ہے۔ مورخین کہتے ہیں کہ قارون قیام مصر کے زمانہ میں فرعون کا درباری ملازم رہا تھا دولت کا یہ بے انتہا انبار اس نے وہیں جمع کیا تھا اور سامری منافق تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ اس کو نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بے شمار دولت و ثروت بخشی ہے اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے لہٰذا اس کا شکر ادا کر اور مالی حقوق ’’ زکوٰۃ و صدقات ‘‘ دے کر غرباء فقراء اور مساکین کی مدد کر ، خدا کو بھول جانا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت ناشکری اور سرکشی ہے اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور نخوت و پندار میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔ قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں کہا : موسیٰ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا کردہ نہیں ہے ،یہ تو میرے عقلی تجربوں اور علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
میں تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرسکتا۔ مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برابر اپنے فرض تبلیغ کو انجام دیتے اور قارون کو راہ ہدایت دکھاتے رہے ،قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زچ کرنے اور اپنی دولت و ثروت کے مظاہرہ سے مرعوب کرنے کے لیے ایک دن بڑے کروفر کے ساتھ نکلا۔ (جاری ہے)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغام الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت اور خاص شان و شوکت اور خزانوں کی نمائش کے ساتھ سامنے سے گذرا، اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک کثیر جتھہ رکھتا ہوں اور زر و جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دے کر رہوں گا۔ بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بے چین ہو کر یہ دعا کرنے لگے : ’’ اے کاش یہ دولت و ثروت اور عظمت و شوکت ہم کو بھی نصیب ہوتی ‘‘ مگر بنی اسرائیل کے ارباب بصیرت نے فورا ًمداخلت کی اور ان سے کہنے لگے خبردار اس دنیوی زیب وزینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے کہ اس دولت و ثروت کا انجام بد کیا ہونے والا ہے ؟ ‘‘ آخر کار جب قارون نے کبر و نخوت کے خوب خوب مظاہرے کر لیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں کافی سے زیادہ زور صرف کر لیا تو اب غیرت حق حرکت میں آئی اور پاداش عمل کے فطری قانون نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کر دیا۔
بے شک قارون ‘ موسیٰ کی قوم ہی میں سے تھا ‘ پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دیئے تھے کہ اس کی کنجیوں کے بوجھ سے طاقتور آدمی تھک جاتے تھے جب اس کی قوم نے کہا تو شیخی نہ مار، اللہ شیخی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے ،اور جو کچھ تجھ کو خدا نے دیا ہے اس میں آخرت کو تلاش کر ،اس کو نہ بھول کہ دنیا میں اس نے تجھ کو کیا کچھ دے رکھا ہے اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی اسی طرح بھلائی کر،اور فساد کے درپے نہ ہو ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ قارون کہنے لگا یہ مال تو مجھ کو میرے ایک ہنر سے ملا ہے جو مجھ کو آتا ہے۔ کیا وہ اس سے بے خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اس سے کہیں زیادہ مال دار اور طاقتور قوموں کو ہلاک کر دیا اور نہ سوال کیا جائے مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (یعنی ان کی عقلیں ماری گئی ہیں تب ہی تو گناہ میں مبتلا ہیں پھر سوال سے کیا فائدہ) پھر نکلا ایک دن قوم کے سامنے بن سنور کر خدم و حشم کے ساتھ تو جو لوگ دنیا کے طالب تھے انہوں نے اس کو دیکھ کر کہا اے کاش ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ یہ بڑے نصیب والا ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے بصیرت و علم عطا کیا تھا انہوں نے کہا تمہیں ہلاکی ہو جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کیے اس کے لیے اللہ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے اور اس کو نہیں پاتے مگر صبر کرنے والے پھر ہم نے قارون اور اس کے محل کو زمین میں دھنسا دیا پس اس کے لیے کوئی جماعت مددگار ثابت نہیں ہوئی جو خدا کے عذاب سے اس کو بچائے اور وہ بے یارومددگار ہی رہ گیا اور جنہوں نے کل اس کی شان و شوکت دیکھ کر اس جیسا ہوجانے کی تمنا کی تھی وہ یہ دیکھ کر آج یہ کہنے لگے ارے خرابی یہ تو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے روزی جس کی چاہے اپنے بندوں میں اور تنگ کردیتا ہے اگر احسان نہ کرتا اللہ ہم پر تو ہم کو بھی دھنسا دیتا ارے خرابی یہ منکر تو چھٹکارا نہیں پاتے ،یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو (خدا کی) زمین میں شیخی نہیں مارتے اور نہ فساد کے خواہش مند ہوتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقیوں کے لیے ہے۔قرآن عزیز کی تصریحات کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند انسان کو یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز جب کسی تاریخی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو اس کے صرف ان ہی اجزاء کو بیان کرتا ہے جو غرض اور مقصد نصیحت و عبرت کے لیے ضروری ہوں اور زائد از حاجت تفصیلات کو نظر انداز کرتا جاتا ہے ۔
اور آخری بات…!
قارون کا خزانہ خدا تعالیٰ نے کس طرح تباہ کیا اور قرآن پاک میں بڑے واضح حکم ہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیاوی دولت کی بجائے آخرت کا سوچو جس نے تمہیں دوزخ کی آگ سے بچانا ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ دنیاوی دولت کی بجائے اپنے دین سے رابطہ اور اللہ سے یاری لگا لیں کہ وہ ہی معاف کرنے والا ہے اور وہ تو اس صورت میں معاف کریگا جب تم اس کے ساتھ سچے دل اور صاف نیت کے ساتھ اس بات کا عہد کرو گے۔ اس سے معافی کے طلبگار ہوگے کہ اس نے تو معاف کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور قرآن پاک میں قارون کے خزانے کی مثال خدا تعالیٰ نے اس لئے دی کہ زندگی میں اتنا کمائو جتنی اس کی ضرورت پوری کر سکوں اور ضرورت سے زیادہ آگے مت بڑھو…بعض اوقات یہ ضرورت تمہیں دھوکے میں رکھ کر برباد نہ کر دے… نام رہے اللہ کا…!
تبصرے بند ہیں.