ویلڈن گنڈا پور… ویلڈن پی ٹی آئی

56

گنڈاپور اور ساتھیوں کے خلاف ڈی چوک احتجاج کرنے پر مزید پانچ مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں۔ عمران خان کی بہنوں عظمیٰ خان اور علیمہ خان کو دہشت گردی کے مزید چار مقدمات میں نامزد کر دیا گیا ہے۔ اعظم سواتی اور جی بی کے سابق وزیراعلیٰ پر مالی معاونت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ گنڈاپور کی قیادت میں جتھے کے پی سے اسلام آباد کی طرف عازم احتجاج ہوئے تھے، کچھ اسلام آباد پہنچے، کچھ ڈی چوک تک بھی پہنچے، مار دھاڑ ہوئی، آنسو گیس کے شیل چلے، ربڑ کی گولیاں بھی چلیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنان نے اچھا خاصا ڈرامہ نہیں حقیقی احتجاج کیا۔ ویسے تو عملاً مظاہرہ کرنے یا ڈی چوک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں کامیابی یا برتری حاصل ہو چکی تھی جب فوج طلب کر لی گئی تھی۔ یہ اس بات کا عملاً اظہار تھا کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ پولیس اور رینجرز کافی نہیں۔ حکومت کے بس میں نہیں رہا کہ وہ پی ٹی آئی کے جتھوں کو روک سکے اس لئے اسلام آباد فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ علی امین گنڈاپور نے جو کچھ کیا، ڈرامے سے حکومت بھی مشکوک ہو گئی اور گنڈاپور کی وفاداری بھی مشکوک ہو گئی۔ پی ٹی آئی مخالف کہتے ہیں کہ گنڈاپور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے یعنی وہ یہ سب کچھ مقتدر حلقوں کی اجازت سے کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کچھ نہیں کہا جا رہا ہے اس سے پہلے بھی وہ طویل سفر طے کرنے کے بعد لاہور تک پہنچا اور پھر اسے پنڈال تک پہنچنے اور اندھیرے میں ہی سہی، خطاب کرنے کی اجازت دی گئی تھی پھر وہ محفوظ طریقے سے واپس بھی چلا گیا۔ اس نے خوب اودھم مچایا۔ انتظامیہ کو مفلوج کرنے، بخیروعافیت آنے اور واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہوا۔ ویسے کہنے والے کہتے ہیں کہ جب سے ڈی چوک پر چڑھائی کا اعلان ہوا اس طرف سے دو شخصیات ہی فعال نظر آئیں۔ ایک محسن نقوی اور دوسری واوڈا۔ دونوں شخصیات کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے لیکن دونوں نے ڈٹ کر پی ٹی آئی کے خلاف محاذ سنبھالے رکھا۔ محسن نقوی تو چلو بطور وزیرداخلہ ان معاملات کو دیکھنے کے ذمہ دار تھے اس لئے وہ سامنے نظر آتے رہے، بیان بازی کرتے رہے۔ حالانکہ ان کی وزارت اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام نظر آئی۔ کیا یہ وزارت داخلہ کا کام نہیں کہ امن عامہ کے لئے پالیسی وضع کرتی، لائحہ عمل تیار کرتی اور اس پر عملدرآمد کرتی لیکن ہم نے دیکھا کہ چار دن تک شہر اسلام آباد بند رہا۔ اسلام آباد کی سڑکیں، مارکیٹس، منڈیاں، تعلیمی ادارے اور دفاتر بند رہے۔ مریض ہسپتالوں تک، مسافر ہوائی اڈوں تک نہیں پہنچ پائے۔ تازہ سبزیوں اور اشیاء خورونوش کی قلت ہوگئی، ٹیلیفون سروس معطل رہی۔ دیہاڑی داروں پر جو گزری ہوگی وہ الامان الحفیظ۔ کیا یہی مینجمنٹ ہے۔
عمران خان دو تولے کی زبان ہلاتا ہے، اتنے اس کے ماننے والے متحرک اور فعال نہیں ہوتے ہیں جتنے ہمارے اہل اقتدار! ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی پالیسی یہ ہے کہ ان کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا مظاہرہ ناکام بنانے کے لئے تمام شہر بلکہ پورے ملک کو بند کر دینا، کیا پالیسی ہے؟ اسلام آباد داخل ہونے والے چند ہزار بلوائیوں کو ناکام بنانے کے لئے اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کا ناطقہ بند کر دینا کیا ہوئی حکمت عملی کہلا سکتی ہے، لاہور میں پی ٹی آئی کے اجتماع کو روکنے کے لئے یا ناکام بنانے کے لئے 12کروڑ شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینا، کیا کوئی حکمت عملی کہلا سکتی ہے۔ ریاست کا کام اینٹی سٹیٹ عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنا ہوتا ہے، ریاست کا ہاتھ آہنی اور شکنجہ فولادی ہوتا ہے۔ ریاست کی طاقت حتمی ہوتی ہے لیکن ہم 9مئی کے بعد سے دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ریاست کہیں گم ہو چکی ہے۔ ویسے تو 9مئی کو جب عمران خان کی پارٹی نے عمران خان کے احکامات کے مطابق ریاستی نشانوں پر حملہ کیا اور ریاست کی بے توقیری کی اس وقت ہمیں ہماری ریاست کمزور اور لاچار نظر آئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ دشمنوں کی پالیسی اور حکمت عملی یہی تھی کہ ریاست طاقت کے ساتھ ری ایکٹ کرے گی، لاشیں گریں گی اور پھر معاملات میں بگاڑ، عمران خان اور سازشی ٹولے کی سوچ کے مطابق ہوگا اس لئے ریاست نے ری ایکٹ نہ کرکے سازش کو ناکام بنا دیا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ ریاست نے بے توقیری کرا کے اپنے خلاف ہونیوالی سازش کو ناکام بنا دیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا اور ہو رہا ہے۔ ریاست مسلسل کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے اور سازشی ٹولہ دندناتا پھر رہا ہے۔ ریاست کو للکارتا نظر آ رہا ہے کسی بھی ریاست دشمن عنصر کو ابھی تک قرار واقعی سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ سازشی ٹولے کے سربراہ کو جیل میں ایک لیڈر، بڑے لیڈر کے طور پر، ایک انقلابی کے طور پر پارٹی چلانے سمیت تمام سہولیات میسر ہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق، ملاقاتیوں سے بات چیت کرتا ہے، انہیں ہدایات دیتا ہے۔ پارٹی کی قیادت کو ٹاسک دیتا ہے، ان کی کارکردگی پر مثبت اور منفی تبصرے کرتا ہے جو ہمارے میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ کیا کسی ایٹمی ریاست میں ایک سزا یافتہ مجرم کو ایسا کچھ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ ایسا شخص جو ملک و قوم کے مفاد میں ہونے والے ہر وقوع کو ناکام بنانے پر تلا بیٹھا ہو، جو ہر ایسی کاوش کی مخالفت کرے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو، کیا کسی رعایت کا مستحق ہو سکتا ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کو تمام ایسی سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں جو ملک کے عمومی مفاد کے خلاف ثابت ہوتی ہیں۔ وہ ڈٹ کر، بلا شرم و حیا، کھلے عام ریاست کو للکار رہے ہیں۔ زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً بھی، ڈٹ کر اس کے خلاف عمل پیرا ہیں جبکہ دوسری طرف صاحبان حل و عقد ہیں کہ کسی پالیسی یا حکمت عملی کے بغیر ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے عمران خان کی حکمت عملی کو تقویت ملتی ہے، کامیابی ملتی ہے اور وہ ہر دفعہ ایک نئے جذبے اور حوصلے کے ساتھ، اگلے پروگرام کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کے سارے پروگرام پاکستان کے خلاف پاکستان کو کمزور کرنے اور ناکام بنانے کی حکمت عملی پر مرکوز ہیں۔

تبصرے بند ہیں.