بسمارک کا قول ہے ’’سیاست امکانات کا فن ہے‘‘۔ تحریکِ انتشار کے بقول ’’سیاست تنازعات کا فن ہے‘‘۔ بہت سادہ اور آسان سا سیاسی منشور ہے ’’کھپ ڈال کے رکھو‘‘ پھر چاہے کرسی ایوان میں لگی ہو، حزبِ اختلاف میں لگی ہو یا چاہے حوالات میں لگی ہو۔۔۔ سیاسی اختلاف ہر شخص کا قانونی حق ہے لیکن اختلاف اور کھپ میں فرق ہوا کرتا ہے صاحب۔ ان کی مکمل سیاست کھپ کے گرد گھومتی ہے۔ کسی بھی ادارے کے گزشتہ، موجودہ اور ممکنہ سربراہ کو متنازع بنا کر پریشر بلڈ کرنا ان کا معمول ہے۔ یہ ہر بڑی بھرتی سے پہلے پریشر کو بڑھا دیتے ہیں، احتجاج کے نام پر فساد برپا کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بلا کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ آئیے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں اور کچھ مثالیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں، اس کے بعد حالیہ فساد پر روشنی ڈالیں گے۔ 2019 میں جب پی ڈی ایم جنرل باجوہ پہ تنقید کر رہی تھی اور یہ جنرل کو ایکسٹینشن دینا چاہ رہے تھے تو یہ کہہ رہے تھے ہمیں تاریخ میں پہلی دفعہ نیک جرنیل ملا، تب ان کی توپوں کا رخ فائز عیسیٰ کی جانب تھا۔ جب فائز عیسیٰ کی شخصیت میں کوئی اخلاقی و مالی بدعنوانی تلاش کرنے سے قاصر رہے تو صدارتی ریفرنس دائر کر چھوڑا، ان پر سوشل میڈیا پہ اتنا ایک کیچڑ اچھالا کہ وہ چیف جسٹس بننے سے پہلے ہی متنازع ہو گئے۔ اسی اثنا میں جنرل باجوہ نے ان سے اختلاف کیا تو وقت بدل گیا جذبات بدل گئے۔ اسی طرح گزشتہ چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ممکنہ چیف کے خلاف تنازعات کا طوفان لا کھڑا کیا۔
جب 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو وائٹ ہاؤس نے ایک بڑا مشہور فرمان جاری کیا تھا ’’either you are with us or against us‘‘ یہ غالباً اسی فارمولا پہ کام کرتے ہیں، جو ان کا ساتھ نہ دے اس کے خلاف سازش اور بغاوت کا علم بلند کر دیتے ہیں۔ عدلیہ کے داغ دار ماضی کے پیشِ نظر ایک آئینی عدالت اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ لیکن ایک وزیرِ اعلیٰ صوبے کے اربوں روپے لگا کر اس وقت غنڈہ گردی کرنے میں مصروف ہیں، فسادات میں حراست میں لیے جانے والے افغانیوں اور سول کپڑوں میں ملبوس پولیس کے جوانوں کے بارے میں اگر ان سے سوال کیا جائے تو آئیں بائیں شائیں کریں گے۔ یا اپنے احتجاج کے قانونی حق کی بات کریں گے۔
1973 کے آئین کے آرٹیکل 16,17 کو جواز بنا کر پیش کرنے والوں سے کیا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ آپ کے بظاہر پُر امن مارچ میں افغانی کیا کر رہے تھے؟ آپ نے احتجاج کے حق کی شق پڑھ لی آپ سے اس کی حد نہ پڑھی گئی؟ پچھلے چھیانوے گھنٹوں سے پی ٹی آئی اور اڈیالہ میں قید بانی چیئرمین نے اپنے صرف دو مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں شدید ہنگامہ آرائی اور ہیجان برپا کیے رکھا تاکہ پاکستان میں عدم استحکام لا سکیں اس انتشار کا پہلا مقصد 15-16 اکتوبر کو ہونے والے ایس سی او سمٹ کو ناکام کرنا ہے تا کہ مملکت اور حکومت کی دنیا بھر میں رسوائی ہو جبکہ دوسرا مقصد آئینی ترمیمی پیکیج کو انتشار کے ذریعے روکنا تھا۔ اس مذموم پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ اپنے ورکرز کو اسلام آباد میں اشتعال دلا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے لے آئے، تا کہ کچھ لاشیں گریں جس کو جواز بنا کر وہ حالات بگاڑ کر پریشر اور بلیک میلنگ سے اپنے دونوں مقاصد حاصل کر سکیں لیکن ریاست پاکستان نے کمال مہارت سے ایک جامع حکمت عملی کے تحت ان کا سارا انتشاری منصوبہ نہ صرف ناکام بنا دیا بلکہ پورے پاکستان کے سامنے انکا اصلی چہرہ بے نقاب بھی کر دیا۔
اب آتے ہیں اس وقت زمینی حقائق کیا ہیں، اب جبکہ انتشاری مارچ کا مکمل ڈراپ سین ہو چکا ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟؟؟ ڈیرہ اسماعیل خان کے جانے مانے سیاست دان اسرار گنڈا پور کو طالبان کے ہاتھوں شہید کرانے والی مشہور شخصیت حکومت اور اداروں کو دھمکانے کے واسطے صوبائی حکومت کے ذرائع استمال کرتے ہوئے شہرِ اقتدار پہ دھاوا بولنے نکلتی ہے پانچ اکتوبر کو اچانک گنڈا پور اپنے ناکام انتشاری مارچ کی حزیمت سے بچنے کے لیے خود ساختہ مفرور، اور رو پوش ہو کر ہمیشہ کی طرح بے وقوف ورکرز کو چکما دے کر واپس پشاور نکل لیے اور باقی پی ٹی آئی نے حسبِ عادت ایک گھٹیا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ جی وہ حراست میں ہیں۔ اور حقائق آپ سب کے سامنے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی تحریک انصاف کے وہ لیڈر جو مارچ شروع ہونے پر کہہ رہے تھے کہ فیصلہ عمران نیازی کریگا ان سے مذاکرات تو دور کی بات ریاست نے ان کو گھاس تک بھی نہیں ڈالی اور مارچ کا کوئی پریشر نہیں لیا، الٹا قانون ہاتھ میں لینے پر ان کے ساتھ سختی سے نپٹا اور آگے بھی نپٹنے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی لیڈر شپ کارکنان کو سڑکوں پر چھوڑ کر ہمیشہ کی طرح غائب ہو گئی اور ڈی چوک میں پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر کہیں دور دور تک نظر نہیں آیا جانے ورکرز کب تلک یونہی دھکے کھاتے رہیں گے۔ ان بلوائیوں اور انتشاریوں کو ریاست نے انکی مذموم سیاست کے لیے کوئی لاش دی اور نہ ہی انکو بلیک میل کرنے کی کوئی تھوڑی سی بھی گنجائش دی۔
سرکاری پولیس اہلکاروں، وسائل اور تخریبی سامان کی برآمدگی نے ثابت کر دیا کہ کس طرح گنڈا پور عوام کے پیسے کو غیر قانونی طور پر ریاست پر حملہ کرنے اور دھاوا بولنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ غیر قانونی افغانیوں کی گرفتاری سے پی ٹی آئی کے انتشار کے منصوبے بھی فاش ہو گئے۔ ایک بار پھر پی ٹی آئی اپنے چارجڈ اور مشتعل ہجوم کو اسلام آباد میں انتشار کی راہ پر لگا کر پی ٹی آئی لیڈرشپ رفو چکر ہو گئی اب 9 مئی کی طرح ایک بار پھر عام ورکر مقدمات اور جیلیں بھگتے گا جبکہ دوسری طرف ریاست نے ایک بڑی سازش کو کمال مہارت اور بُرد باری سے پی ٹی آئی کے انتشاری منصوبے کو مکمل طور پر ناکام کر دیا جس کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے قابل ستائش ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ SCO سمٹ کو احسن طریقے سے کرایا جائے تا کہ دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بہتر ہو سکے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.