اب کہ ہم بچھڑے تو کون کسے پہچانے گا

149

ستتر برس کسی ریاست کے افراد کے منظم‘ مہذب اور متحد ہونے کے لئے کافی ہوتے ہیں مگر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ سنجیدہ فہمی ہمارے نزدیک تک نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ آج ہم کسی ہچکچاہٹ کے بغیر چالاکی دھوکا دہی اور دروغ گوئی کو اپنا کر زندگی کی شاہراہ پر رواں ہیں۔کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ایسا انسانی معاشرے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک سوچنے سمجھنے والا ذہن رکھتا ہے مگر نہیں ہم ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔کسی کی جمع پونجی کو کیسے ہتھیایا جائے اس پر پوری یکسوئی سے غور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو دھوکا دہی کے مناظر عام دکھائی دیں گے۔ شفافیت خلوص دیانت داری اور احساس ناپید ہوں گے۔
ہم بازار سے اشیاء ضروریہ لینے جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر ناقص ہوتی ہیں ۔ پوچھو تو دکاندار ایک رام کہانی سنا ڈالے گا یعنی وہ جو سودا بیچ رہا ہے اسے مجبوری بتائے گا۔یوں ہمارا قومی مزاج پختہ ہو چکا ہے اور دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ یہ سماج کبھی نہیں سدھرے گا۔ اس کے باوجود کچھ لوگ موجودہ سماجی رویوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر سب ہی ایک طرف کو چل پڑتے ہیں تو عین ممکن ہے ہمارا معاشرتی ڈھانچہ دھڑم سے نیچے آن گرے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس نہج پر نہ پہنچیں کیونکہ آنے والی نسلیں شاطرانہ مکارانہ عیارانہ اور نفرت انگیز فضامیں سانس لے رہی ہوں گی جس کا آغاز ہو بھی چکا ہے ان کے لئے ایسا جینا کسی عذاب سے کم نہیں ہو گا جس سے ترقی خوشحالی اور تحفظ جان و مال سب دھندلا جائیں گے لہذا اہل فکر و دانش کو درد دل کے ساتھ محسوس کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ پیارا پاکستان مضمحل نظر آئے گا ؟ جتنی توانائیاں اور کوششیں ہمارے بڑے خود کو مضبوط و مستحکم اور بااختیار بنانے پر صرف کر رہے ہیں اتنی توانائیاں عوامی خدمت پر خرچ کرتے ہیں تو ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے جو انہیں مزید توانائی بخش سکتا ہے مگر معاملہ فہمی ان سے کوسوں دور کھڑی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے بس میں بھی نہیں رہا کہ وہ صورت حال کو قابو میں کر سکیں کیونکہ طویل عرصہ تک رہنے والی خرابی اب گمبھیر شکل اختیار کر چکی ہے پھر خزانے پر پڑنے والے دباؤ نے بہتر کرنے کے لئے ہھی کچھ نہیں چھوڑا لہٰذا ہمارے غور کرنے والے افراد کو آگے آنا ہو گا۔ سماجی بھلائی کی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ایک اہم پہلو یہ کہ احتساب کی چھلنی میں ہر اس شخص کو ڈالنا ہو گا جس نے ملکی دولت سے اپنا دامن بھرا۔
یہ جو سماجی خدمت کے ادارے ہیں وہ اگرچہ مختلف مسائل کے حل کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں مگر اس سے پچیس کروڑ عوام مستفید نہیں ہو سکتے لہٰذا وہ اجتماعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے وسیع پیمانے پر سامنے آئیں۔ حکومتی اداروں سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی انہیں اقتدار کے کھیل سے ہی فرصت نہیں لہٰذا وطن عزیز کو امن و استحکام کی منزل تک لے جانے کے لئے عوامی فلاحی تنظیمیں گروہ اور ایسوسی ایشنیں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ ہم مجموعی طور سے دھوکا دہی بد دیانتی اور ہیرا پھیری کو درست قرار دینے کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ بڑھ چکے ہیں کیونکہ لوگوں کی غالب اکثریت یہ دیکھتی ہے کہ ان کے اوپر بیٹھے حاکم ہر وہ کام کر رہے ہیں جو ان (عوام) کی امنگوں کے بر عکس ہے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر رہا ہے اور پھر وہ ایسے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جو ان کی آزادی سے متصادم ہیں لہٰذا وہ اپنے فرائض کیسے ادا کر سکتے ہیں اور یہ بات قطعی ہمارے مفاد میں نہیں۔ بہر حال ہم سیاسی اعتبار سے تو پہلے ہی پستی کی طرف لڑھک رہے تھے اب سماجی سطح پر بھی نیچے جا رہے ہیں۔کسی سے کوئی ہمدردی نہیں کوئی دلچسپی نہیں لیکن جب کوئی فائدہ لینا ہو تو لبوں پر مسکراہٹ بھی بکھیر لی جاتی ہے اس کا حال بھی پوچھ لیا جاتا ہے ۔
جاوید خیالوی نے بتایا کہ اس کے ایک جاننے والے ہیں جو سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کسی کو تھانے پٹوار خانے یا کسی سرکاری محکمے سے متعلق کوئی کام ہو تو وہ اس کے ساتھ خوشی خوشی چل پڑتے ہیں مگر وہ اس کا باقاعدہ خرچہ وصول کرتے ہیں میں نے ایک بار انہیں کسی کام کے لئے کہا تو انہوں نے مجھ سے مال پانی کا تقاضا کر ڈالا۔اس پر وہ نادم بھی نہیں ہوئے اس طرح وہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ ‘‘
ایسے رویوں اور طرز عمل نے پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس کی اخلاقیات ‘انسانی اقدار ‘ اور ہمدردانہ جزبے کو کمرشلائز کر دیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ان رویوں اور سوچ کو کیسے تبدیل کیا جائے ہماری ناقص رائے میں اس کے لئے اصلاحی انجمنیں قائم کی جائیں ان کی سرپرستی معاشرے کو بدلنے والی شخصیات کریں۔ مگر یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ شہریوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کے بنیادی حقوق کو پامال نہیں ہونے دیا جائے گا مہنگائی پر قابو پانے کی پوری کوشش کی جائے گی انصاف کے حصول کو سستا اور یکساں بنانے کے لئے تمام چینلز کو بروئے کار لایا جائے گا۔۔در اصل دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز نے عام آدمی کی سوچ اور مزاج کو تبدیل کیا ہے۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ اہل زر اس کے حصے کی دولت کو ہوشیاری سے اپنی طرف کھینچ لے گئے ہیں اور وہ سخت محنت کرنے کے باوجود بھی زندگی کے لازمی لوازمات سے محروم ہے پھر روزگار کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ نج کاری نے اور بھی لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے جس سے ظاہر ہے ذہنوں میں کئی طرح کے خیالات جنم لینے لگے ہیں یوں پورا سماج چھینا جھپٹی عیاری دھوکا دہی ایسی خرابیوں کا شکار ہو چکا ہے اس سے پہلے کہ وہ ایسے گڑھے میں گر جائے جہاں سوائے تاریکی کے اور کچھ نہیں‘ ذمہ داران کو حرکت میں آجانا چاہیئے۔ جو جنگی بنیادوں پر ہو ‘ ستتر برس کے اس تکلیف دہ سفر نے ہر کسی کو نڈھال و بیحال کر دیا ہے جس سے اجتماعی صلاحیتیں کمزور پڑ چکی ہیں گھٹن دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے نتیجتاً ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانیکو دوڑ رہے ہیں ۔ یہ اذیت ناک درد ناک اور افسوس ناک منظر بدلنا ہو گا اور اگر اہل اختیار کا یہ خیال ہے کہ انہیں کیا ان کے تو یہاں وہاں حسین وجمیل محل ہیں خواب گاہیں ہیں تو وہ یہ بات بھی ذہن نشیں کر لیں کہ جب خلق خدا اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو پھروہی محل اور خواب گاہیں ایک انجانے خوف میں بدل جاتی ہیں لہذا زندگی کو قوس قزح کی مانند دیکھنے والی آنکھوں کو مایوس ہونے سے بچایا جائے !
اب کے ہم بچھڑے تو کون کسے پہچانے گا
وقت کی اڑتی دھول ہمارے چہروں پر جم جائے گی

تبصرے بند ہیں.